خون اپنا ہو یا پرایا ہو،نسل آدم کا خون ہے آخر

رانچی کے اندر اگڑو گاوں سے تراویح پڑھا کر لوٹتے ہوئے مولانا اظہر الاسلام اور مولانا عمران پر ۲۰ تا ۲۵ لوگوں نے حملہ کردیااور انہیں جئے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کرنے لگے ۔ ان لوگوں نے انکار کیا تو ہاکی اور ڈنڈوں سے پٹائی کردی ۔مولانا عمران کسی طرح بچ نکلے مگر نازک حالت میں مولانا اظہرالاسلام کو اسپتال میں داخل کیا گیا ۔جھارکھنڈ میں جس وقت یہ سانحہ رونما ہورہا تھا مہاراشٹر کے چاند گاوں نامی گاوں ۴۰۰ لوگوں نے۸ قبائلی افراد پر لاٹھیوں اور سلاخوں سے حملہ کردیا۔ ان میں سے دو بھرت سوناونے اور شیواجی شندے جان بحق ہوگئے اور ۶ کو نازک حالت میں دواخانہ لے جایا گیا ۔ چوری کت شبے میں ان بے قصور لوگوں کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا جبکہ پولس کے پاس ان کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس سے ایک دن قبل آسام کے کربی آنگ لانگ ضلع میں نیلوتپال اور ابھیجیت ناتھ کو ۵۰۰ لوگوں نے گاڑی روک کر بچہ چوری کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اس علاقہ میں یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ’ گاڑی میں بچہ ‘ہے۔اس سانحہ کی ویڈیو بناکر اسے وائرل بھی کیا گیا۔

ایک ہی وقت میں یہ پرتشدد واقعات ملک کےمختلف علاقوں کے اندر رونما ہوئے ۔ ان کی وجوہات مختلف ہیں۔ ان ملوث ہونے والے اور اس کا شکار ہونے والے بھی الگ الگ قسم کے لوگ ہیں ۔ان واقعات کو یکجاکرکے یہ بیان کرنا مقصود نہیں ہے کہ سب کے ساتھ یہ ہورہا ہے اس لیے اسے برداشت کرلیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ ان اسباب و عوامل پتہ لگایا جائے جن کی وجہ سے ظلم وتشدد کا کھیل چل رہا ہے تاکہ روک تھام کی تدابیر کی جاسکیں ۔ ان واقعات مندجہ ذیل حقائق کے غماز ہیں :
• ہمارے سماج کے اندر تشدد کا رحجان اپنی حدود سے نکل چکا ہے۔ایک آگ کسی چنگاری کے انتظار میں اندر ہی اندر دہکتی رہتی ہے اور موقع ملتے ہی بپھر کر پھیل جاتی ہے۔
• عوام کا انتظامیہ کے اوپر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ وہ پولس یا عدالت سے رجوع کرنے کے بجائے خود فیصلہ چکانے لگتے ہیں ۔
• ان کے دل سےقانون کاڈر نکل چکا ہےاس لیے وہ اپنی مظالم کی ویڈیو بناکر اسے وائرل کرنے سے نہیں چوکتے ۔

اس طرح کی صورتحال کا اگر فسطائی طاقتیں سیاسی فائدہ اٹھانے لگیں تو اس کا نقصان سب سے زیادہ اقلیتوں کو یعنی مسلمانوں کو ہوگا۔ اس لیے لازمی ہے اس بیماری کے علاج کی جانب توجہ دی جائے۔ اس لیے نہیں کہ اس میں ہمارا خسارہ زیادہ ہے بلکہ اس لیے کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے ۔ارشاد ربانی ہے ’’تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ امت مسلمہ کو خیر امت بناکر لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے ۔ اس پر بھلائی کا حکم دینے اور برائی کو روکنے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ ہندوستان کے اندر برسوں تک مسلمان دوسری اقوام کے عتاب سے محفوظ تھے لیکن تشدد کا رحجان پروان چڑھتا رہا اور مختلف کمزور طبقات اس کا شکار ہوتے رہے ۔ اس وقت بھی یہ ہماری ذمہ داری تھی کہ اس کے سدِباب کی سعی کرتے اور کل کواگراذنِ خداوندی سے ایسے حالات رونما ہوجائیں کہ مسلمان تو محفوظ و مامون ہوجائیں مگر دیگر اقوام مظالم کا شکار ہوں تب بھی ہماری ذمہ داری ہوگی کہ ان کوبچانے کی سعی کریں ۔

معاشرے کے اندر جب قانون کی حکمرانی ختم ہوجاتی ہے تو اس کے نتیجے میں ظلم و جبر کا بول بالہ ہوجاتا ہے اور عدل و انصاف کو پامال کیا جاتا ہے۔ قرآن عظیم امت مسلمہ کو حکم دیتا ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو‘‘ ۔ یہ عدل و انصاف کا علمبردار بن کر اٹھنا کسی دنیوی مفاد یا خسران کے پیش نظر نہ ہو بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہو۔ اس عقیدے کے بغیر مظالم سے محفوظ طبقہ مظلومین کا حامی و مددگار نہیں بن سکتا۔ ایسے لوگوں کے لیے جو ماضی میں ظلم و ستم کا شکار رہے ہوں آگے بیان کردہ تلقین بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔

یعنی اگر کل کو مشیت ایزدی ان ظالموں کو مظلومین میں بدل دے تو ان کو چھڑانے کے لیے بھی ہمیں میدانِ عمل میں اترنا پڑے گا۔ عدل و قسط کے حقدار دوست و دشمن سبھی ہیں ۔ انصاف کی یہ جنگ صرف اپنوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے دائرے میں اپنے پرائے سبھی آتے ہیں۔ یہ کام بلاخوف و خطر ہونا چاہیے اس لیے کہ آگے ارشاد ہے ’’ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔ انسانوں کا ڈر ہمیں ہرگز اس ذمہ داری کی ادائیگی سے نہ روکے بلکہ خدائے واحد کے سامنے جوابدہی کا احساس اس کے پس پشت کارفرما ہونیزیہ یقین بھی جاگزیں رہے کہ اس مقصد کے حصول کی خاطر جو کوشش کی بھی کی جائیگی ہمارا خالق و مالک اس سے باخبر ہے۔ظلم و جبر کے خلاف صف آراء ہونے والے مرد آہن ڈاکٹر کفیل کی ابتلاء و آزمائش اور اس کے بعد ان کے بھائی انجنیر کاشف پر جان لیوا حملہ اہل ایمان کے حوصلوں کو پست نہیں کرسکتا اس لیے کہ وہ جانتے ہیں اللہ دیکھ رہا ہے ۔ وہ ان کے صبرو استقامت کی خوب پذیرائی کرے گا اور مددو استعانت بھی فرمائے گا۔

یہ ملت اسلامیہ کا فرض منصبی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی اور اسے اداکرنے کا اہل بھی نہیں ہے ۔ اس کی دوجوہات ہیں اول تو یہ کہ اس کے پاس الہامی ہدایت موجود ہے جو عدل و قسط کے قیام کی شرطِ اول ہے دوسرے اس کے حق ہونے پر یقین کامل کی دولت سے یہ امت مالا مال ہے۔ امت کے اندر فی الحال مسائل کے ہمہ گیرادراک اور اس سے نمٹنے کے لیے ضروری لائحہ عمل کافقدان ہے۔ ہم اپنے تحفظ کے حوالے سے اس قدر الجھ گئے ہیں کہ اس کے آگے سوچ ہی نہیں پاتےلیکن اس دگرگوں صورتحال میں بھی جب امت ظلم و جبر کے بیخ کنی کی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی جانب پیشقدمی کرے گی تو بہت ممکن ہے کہ اور بھی بہت سارے انصاف پسند لوگ اس کے شانہ بشانہ اس جدوجہد میں شامل ہوجائیں گے۔ویسے نہ بھی ہوں تو ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارسا ز ہے‘‘( حسبنااللہ نعم الوکیل)۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1221080 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.