ووٹ کو عزت دو

کسی ایک سیاسی رہنما کا نام بتا ئیے نا جس کا سیاسی شجرہ آمریت سے نہ ملتا ہو ۔ بدقسمتی سے 70سالہ تاریخ کا کوئی دور بھی مارشل لا کے اثر و نفوز سے خالی نہیں رہا لہذا ان ادوار میں سیاست میں قدم رکھنے والے سیاستدانوں نے بھی سیاسی ا ٓنکھ آمریت کی گود میں ہی کھولی۔ بھٹو صاحب نے سیاست کا آغاز سکندر مرزا کی کابینہ میں وزیر کی حیثیت سے کیا جو ایوب کی کابینہ تک جا پہنچا اور جونہی انکو اپنے سیاستدان ہونے کا احساس ہوا وہ ایسے راستے پر چل پڑے جو انھیں بالآخر پھانسی کے پھندے تک لے گیا ۔ یوں انھوں نے جن کی انگلی پکڑ کر سیاست میں قدم رکھا تھا اپنی سیاسی عمر کے عین جوبن اور جوانی میں انہی کے ہاتھوں مر گئے کیونکہ وہ ووٹ کی طاقت منوانے کے پر خطر سفر پہ چل پڑے تھے ۔ انکی درد ناک موت انکے آغاز سفر میں سرزد ہوئے سیاسی گناہوں کا کفارہ بن گئی اور آج کے دن تک ہم سب کے دلوں میں انکی قدرومنزلت ایک حقیقت کی طرح موجود ہے اور رہے گی ۔انہوں نے ووٹ کو طاقت بخشنے کے لیے اپنی جان گنوا دی مگر آمریت سے منہ موڑنے کے بعد "توبہ"نہیں توڑی اور استقامت کی ایک عظیم مثال قائم کی جسے بعد میں آکر انکی بہادر بیٹی نے صنف نازک ہونے کے باوجود دہرایا اور خطرات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ڈٹ کر کھڑی رہی اور اس انداز سے جان کا نذرانہ پیش کیا جو رہتی دنیا کے نام نہاد مردوں کی مردانگی کو شرمندہ کرتی رہے گی اور جب جب ووٹ کے تقدس کی بحالی کی کوئی مردہ تحریک اٹھے گی بھٹو کی عظیم بیٹی بے نظیر شہید کی قربانی اسکے لیے مشعل راہ ہو گی۔

نواز شریف کا سیاسی شجرہ بھی ضیا الحق سے ملتا ہے جسکا انکار ان سمیت کسی کو بھی نہیں مگر 1999میں جب میاں صاحب بھی اپنے آپ کو سیاستدان سمجھنے کی غلطی کر بیٹھے تو وہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوتے ہوتے بچے جو بھٹو اور اسکی بیٹی کا مقدر ٹھہر چکا تھا ۔ میاں صاحب نے جلا وظنی کے دوران بی بی شہید کے ساتھ ملکر" اجتاعی توبہ"کا ایک عہد نامہ بھی سائن کیا جسے میثاق جمہوریت کا نام دیا گیا اور سیاسی گناہوں کا کفارہ مالی، جانی، بدنی ہر لحاظ سے ادا کیا اور کر رہے ہیں مگر ہماری بد قسمتی دیکھیے کہ ہم سیاسی گنہگاروں کونہ صرف معاٖف کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ انکے ہر جمہوری اور نظریاتی عمل کو ماضی یاد دلا کر واپس اسی دلدل کی طرف دھکیلنا چھاہتے ہیں جہانسے انھوں نے جنم لیا تھا ۔ میاں صاحب کا اپنے آمرانہ پس منظر سے توبہ اور کفارے میں وزارت عظمیٰ تک کو قربان کر دینے کو تسلیم نہ کرنے والوں میں سب سے زیادہ پیش پیش یک رکنی عوامی مسلم کے بانی صدر شیخ رشید ہیں جنھوں نے سیاسی آنکھ ہی ضیا الحق کی گود میں کھولی اور نواز شریف کی آمریت کے ادوار میں جمہوریت کے سا تھ کی گئی "وارداتوں" میں نہ صرف برابر کے شریک رہے بلکہ ہر اول دستے کا کردار بھی ادا کیا تاوقتیکہ 1999میں اک نئے" پیر کاملـ" کی نیعت نہ کر لی جس نے شیخ رشید کے مربی اور رہنما نواز شریف کو پابندسلاسل کرنے کے بمعہ خاندان جلا وطن کر دیا۔شیخ صاحب کا شمار پرویز مشرف کی آمریت پر" ایمان" لانے والے ان چند ابتدائی " مجاہدین" میں ہوتا ہے جو اسکے آمرانہ دور کے آخری دن تک اسکی ہر آواز پہ لبیک کہتے رہے اور گزشتہ دس سال سے اسی مقصد کے لیے مختص چندٹی وی چینلز کے" محرابوں" میں کھڑے ہو کر راولپینڈی میں واقع اپنے سیاسی کعبے کی طرف منہ کر کے ازان دے رہے ہیں اور چہرے پر وہ مظلومیت سجا رکھی ہے جیسی سندہھ کی بیٹی کے چہرے پر محمد بن قاسم کو آواز دیتے وقت تھی تا کہ سیاسی کعبے سے کوئی "محمد بن قاسم " برآمد ہو جو سارے جمہوری و آئینی نطام کو لپیٹ کر ووٹ کی طاقت سے خائف اور مایوس شیخ رشید کی "گود ہری" کردے جو بقضائے الٰہی پرویز مشرف کے ایوان صدر کے " دار فانی " سے انقال فرما جانے کے بعد شکیل اعوان جیسے عام سیاسی کارکن کے ہاتھوں اجڑ چکی ہے ۔ ٹی وی چینلز پر ڈیپرشن اور بلڈ پریشر کی گولیاں کھا کر بیٹھنے والے شیخ رشید کے ہمنوا "چھابہ فروش ـ" "دانشوروں " کو سوا نیزے پر آئے سورج کی روشنی میں بھی سیاسی افق پر پرویز مشرف جیسے "دمدار" ستارے نظر آتے ہیں جن کی گرج چمک کو اپنے خواہشاتی تجزیوں میں ڈھال کر صاف موسم کو بھی ابر آلود بتاتے ہیں ۔ انہی" باورچی بقراطوں "کے دماغ کا خلل ایک سیاسی جماعت کے تمام اور بقیہ کے بہت سے رہنماؤں اور کارکنوں کو نفسیاتی مریض بنا چکا ہے جو پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کے باوجود پوری پوری مراعات و تنخواہیں بھی وصول کر تے ہیں ، وقت آنے پر ووٹ بیچ اور خرید بھی ڈالتے ہیں، کسی کے پاس گروی بھی رکھ دیتے ہیں اور دل کرے تو شیروانی پہن کر پاکستان کا جھنڈا لگا کر خود ہی قومی ترانہ بجاتے ہیں اور عزیز ہم وطنوں سے خطابھی کر ڈالتے ہیں جسمیں کرپشن کے تمام گناہ نواز شریف کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو ایک ارب درخت بھی لگا ڈالتے ہیں۔ اور نئے پاکستان کا" نشہ" سر چڑہ کر بولنے لگے تو "رندوں" کی رگ و پے میں ناچتے "خادم رضوی "کی اندھا دھند زبانی" فائرنگ "سے کوئی ادارہ ،جماعت یا اسکا رہنما محفوظ نہیں رہتا.

سیاسی جماعتوں میں روپوش شیخ رشیدکی قبیل کے کئی اور آمریت کے چشم و چراغ بھی کسی ایسے ہی "معجزے "کے منتظر ہیں جو انھیں ووٹ کی بجائے نسل در نسل وفاداری کے صلے کے طور پر نئے پاکستان کی بھاگ ڈور تھما دے، اپنی آمریت کی چھڑی سے پاپولر لیڈرشپ کو ملکی سرحدوں سے کھدیڑ کر باہر نکال دے اور ان خاندانی وفاداروں کو انکی کئی نسلوں سے جاری سہولتکاری کا خراج دیتے ہوئے وزارتوں کے قلمدان سپرد کر دے تا کہ نئے پاکستانکے یہ حادثاتی لیڈر چوکوں میں کھڑے ہو کر اپنے آقا کو سو بار وردی میں منتخب کروانے کے نعرے لگائیں کیونکہ اپنی محنت سے ترقی کی منازل پر رینگ رینگ کر پہنچنے والوں کی اہلیت اور محنت کی سزا دی یہی بنتی ہے۔ دو وقت کی روٹی کے لیے آ گ برساتے سورج کی جھلسا دینے والی گرمی میں پگھلتی ہوئی سڑکوں پر آگ جلا کر اپنی چربی پھگلانے والے محنت کشوں کا مقدر بن جانے والی افلاس اور بھوک کی سزا بھی یہی بنتی ہے ۔ اپنی ڈگریوں کے بوجھ تلے دبے بے روزگاری کے صحراؤں میں بھٹکنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو انکی محنت اور قابلیت کی سزا دینے کا بھی اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں۔ اور نئے پاکستان کے معمار وں کا آقا حسب سابق ملک کو دہشت گردی ، انتہا پسندی اور خود کش حملوں کی پر خطر گھاٹیوں میں دھکا دے کر ملک کو بیت ا ﷲ محسودوں اور راؤ انواروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر کمر کے درد کا علاج کروانے بیرون ملک روانہ ہو جائے گا جہاں بیٹھ کر وہ سب سے پہلے پاکستان " جیسی " معرکۃلآرا "کتاب لکھوائے گا جو شیخ رشید ایسے آمریت کے پیرو کاروں کے لیے مشعل راہ اور غربت کے جرم میں عمر قید کاٹنے والے ہم جیسے " باغیوں "کے لیے عبرت ہوگی .ہماری عبرت کی داستانوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن سے پاکستان کے سابق" سربراہ" یورپ کے قبحہ خانوں میں تھرکتے جسموں کے ساتھ کمر ہلاتے نطر آئیں گے اور جمہوریت کے عقیدت مند اگلے دس سال ووٹ کی قبر پر آرٹیکل 6کا ورد کرتے رہیں گے۔

DR ABDUL HAMEED HAMID
About the Author: DR ABDUL HAMEED HAMID Read More Articles by DR ABDUL HAMEED HAMID: 14 Articles with 10972 views Professor Doctor of Biosciences, Quaid e azam University Islamabad.. View More