نوازشریف جیت سکتے ہیں

دوہزار سات اور آٹھ کی بات ہے۔ جب میں نے تحریک انصاف کو جائن کیا،اویس اور راجہ ذوالفقار مرکزی دفتر میں ہفتہ وار اجلاس کرتے تھے۔اویس خالد بہت متحرک تھے۔ انہوں نے راقم کو تحریک انصاف راولپنڈی اسلا م آباد میڈیاونگ کا صدر مقرر کیا تھا کیوں کہ میرا تعلق میڈیا سے تھا۔ان دنوں ایک قومی اخبار کے نیوز روم میں خدمات انجام دے رہا تھا۔روئیداد خان اور فوزیہ قصوری ہفتہ وار اجلاس میں تحریک انصاف اور عمران خان کے بارے لیکچرز دیتے اور نوجوانوں کو بتاتے کہ پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کیلئے تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کرپٹ لوگوں سے بھری پارٹیاں ہیں۔تبدیلی نئے لوگوں اور نوجوانوں سے ہی ممکن ہوگی۔اجلاسوں میں پارٹی تعمیر کیلئے سیاسی نظریات ، متبادل سیاسی نظام کے حوالے کبھی کوئی بات نہیں ہوتی تھی۔ایک ماہانہ اجلاس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آئے ۔یہ اجلاس سوال و جواب پر مبنی تھا۔راقم نے سوال کیا کہ تحریک انصاف میں ایسا کیا ہے کہ ہم پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف جائن کریں۔عمران خان کا جواب تھا کہ۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کرپٹ جماعتیں ہیں او ان میں ر چور،لیٹرے اور ڈاکو شامل ہیں۔ وہ ملک و قوم کو نئی قیادت دیں گے۔مہاتیر محمد کی طرح پاکستان کو مضبوط بنادیں گے۔راقم نے اسی روز تحریک انصاف کوخیرباد کہہ دیا تھا۔بارہ سال بعد تحریک انصاف کی بانی رہنما فوزیہ قصوری نے یہ کہہ کر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان نے پارٹی کی اصل سے روگرانی کی ہے۔ایجنڈے سے ہٹ چکے ہیں۔عمران خان نے بہت اچھا کیا ہے۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی صفائی کی ہے۔عوام کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ سے جتنے کرپٹ،مفاد پرست،ابن الوقت اور چور ،لیٹرے اور ڈاکو تھے،عمران خان نے سب نکال لیے ہیں۔دونوں بڑی جماعتوں کوصاف کردیا ہے ۔دونوں جماعتوں میں اب نئی قیادت کو سامنے آنے کا موقع ملا ہے۔جبکہ تحریک انصاف کی نوجوان قیادت اب گھٹن کا شکار ہے۔جنہیں اب اپنی ہی جماعت میں کھڑے رہنے کی جگہ بھی نہیں مل رہی ہے۔جو کھڑے ہیں ۔کب تک کھڑے رہ سکتے ہیں۔انتخابی موسم ہے۔تحریک انصاف کے پرانے کارکن جو الیکشن لڑ ہی نہیں سکتے ہیں وہ بھی ٹکٹ کے حصول کیلئے دھڑا دھڑ پچاس ہزار فیس کے ساتھ درخواستیں جمع کرارہے ہیں کہ انہیں ٹکٹ مل گیا تو وہ مفت میں جیت جائیں گے۔امید تو ہے۔مگر جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ چھوڑ کرآئے ہیں اور کئی آنے والے ہیں۔وہ تو ٹکٹ کنفرم کر کے آتے ہیں۔اب ضروری ہے ۔تحریک انصاف کے پرانے کارکنوں کو نئے آنیوالوں کیلئے قربانی تو دینا ہوگی۔جس مطلب ہے کہ سب کارکنوں کو ٹکٹ سے محروم ہونا ہوگا۔الیکشن وہی لڑیں گے جو پہلے سے لڑتے آ رہے ہیں۔کیسا انتخابی منظر ہوگا۔پیپلزپارٹی کے لوگ پی ٹی آئی کا بلا لیکر پیپلزپارٹی کے مدمقابل ہونگے۔اسی طرح مسلم لیگی ہونگے۔ایک بات ہے کہ اگر الیکشن فیئر اینڈ فری ہوئے تولوٹوں کو ووٹ نہیں ملیں گے۔ویسے بھی تحریک انصاف کا نعرہ نیا پاکستان پٹ چکا ہے۔دس نکات بھی پذیرائی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔دوسری جانب نواز شریف نے نااہلی کے بعد بہت کچھ حاصل کرلیا ہے۔پی ٹی آئی کے پاس جو کچھ تھا وہ بیچ چکی ہے۔پی ٹی آئی کی مارکیٹ کا رجحان مندے کا رہے گا۔جبکہ نوازشریف کا انڈیکس تیزی کی طرف گامزن ہے۔ووٹ کو عزت دو۔لوٹوں کو نہ دو۔دوسرا دھرنوں کا پنڈورا بکس ایسی آئٹمز ہیں جس سے انتخابی ماحول مکمل بدل سکتا ہے۔پیپلزپارٹی،اے این پی،ایم کیوایم،فضل رحمن اور دیگر گروپوں نے ساتھ دیا تونواز شریف بھاری اکثریت سے دوبارہ جیت سکتے ہیں ۔امکانات موجود ہیں ۔نواز شریف اچھے امیدوار میدان میں اتار سکتے ہیں۔پی ٹی آئی کے لئے واحد سہارا فرشتے بن سکتے ہیں ۔مگر فرشتوں کے انتخابات شاید عوام مسترد کر دیں اور ایک نیا کھیل شروع ہو جائے۔

Arshad Sulahri
About the Author: Arshad Sulahri Read More Articles by Arshad Sulahri: 139 Articles with 91246 views I am Human Rights Activist ,writer,Journalist , columnist ,unionist ,Songwriter .Author .. View More