کوئٹہ کا زلزلہ 1935

کوئٹہ کے مئی 1935 کے زلزلے کو آئے ہوئے آٹھ عشروں سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہےلیکن زلزلے کی یادگاریں اب بھی جا بجا نظر اتی ہیں - جناح روڈ کے اختتام کے بعد جہاں چھاؤنی شروع ہوتی ہے وہاں زلزلے کی یاد میں ایک خوبصورت بورڈ سر سبز پودوں کے درمیان ایستادہ ہے -ہوا کے جھونکوں سے پودوں کی شاخیں ہلتی ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کے وہ ان چلے جانے والے افراد کے لئے دعائیہ کلمات ادا کر رہے ہیں - اسی طرح ریلوے اسٹیشن پر جہاں پلیٹ فارم ٹکٹ ملتےہیں وہاں بھی ریلوے ملازمین کی ایک فہرست لگی ہوئی ہے جو اس زلزلے میں فوت ہو گئے تھے - یہ فہرست ، یہ یادگاری تختی اور دیگر کئی نشانیاں اب بھی کوئٹہ کے مئی 1935 کے زلزلے کے بارے میں اشارہ کرتی ہوئیں قران پاک کا پیغام پہنچاتی ہیں کہ اس قسم کے واقعات ہمارے لئے ہدایت کا باعث بننا چاہئیے -

کوئٹہ کا 1935 کا زلزلہ ‘ رات ڈھائی بجے اور ساڑھے تین بجے کے درمیان آیا تھا - اس کی شدت 7۔7 ایم ڈبلیو تھی - اس کا دورانیہ تین منٹ کا تھا - بعد میں بھی آفٹر شاک یعنی مزید جھٹکے بھی آتے رہے لیکن ایک بڑا زلزلہ دو دن بعد آیا جس کی شدت 8۔5 اسکیل کی تھی - ان زلزلوں کے اثرات آگرہ تک محسوس ہوئے تھے - ارد گرد کے شہروں میں مستونگ ' منگوچر اور قلات بہت زادہ متاثر ہوئے - چھُر کے مقام پر ریلوے لائن کے قریب پہاڑ واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا -کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پٹری بچھانے کے دوران پہاڑوں میں راستہ بنانے کے لئے ڈائینا مائٹ کے استعمال سے پہاڑ کمزور ہو چکاتھا جس کے سبب پہاڑ میں زلزلے کے دوران دراڑ پڑ گئی -

پہلی رپورٹ جو دی گئی تھی اس کے مطابق بیس ہزار افراد دب کر ہلاک ہوگئے تھے - ان حالات میں کوئٹہ شہر کو سیل کردیا گیا اور باہر کے افراد کی آمد پر پابندی لگادی گئی - عام افراد کو مہیا کی گئی ریڈیو کی لہروں کا نظام درہم برہم ہو گیا - ساری عمارات اور مکان تباہ ہو کر زمیں بوس ہو گئے سوائے گورئمنٹ ہاؤس کے لیکن وہ بھی کھنڈر کی صورت میں بچا تھا -

انگریزی اخبار ڈان کراچی اپنی اشاعت مورخہ اکتوبر 2005 میں لکھتا ہے کہ مستونگ روڈ ریلوے اسٹیشن کے قریب کوئٹہ نوشکی ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ دور تک بڑی بڑی دراڑین پڑ گئی تھیں - حکومت کو پانچ مقامات پر ریلوے لائں تبدیل کرنی پڑی - اخبار کے مطابق خان قلات کی رہائش گاہ بھی تباہی سے ہم کنار ہوئی - اس کے علاوہ کانسی ، تری اور پڑنگ اباد میں بھی کافی اموات ہوئیں - پڑوسی ملک افغانستان میں اسپن بولدک اور قندھار کی کمزور عمارات کو نقصان پہنچا -

اس زمانے کی انگریز حکومت نے لوگوں کی بہبود کی خاطر کوئٹہ سے بھیجے جانے والے خطوط کی مفت ترسیل کے احکامات جاری کئے اور انہیں ٹکٹ لگانے کی پابندی سے مستثنیٰ کردیا چاہے وہ کہیں بھی بھیجے جا رہے ہوں -

کوئٹہ کے ڈاکٹر حامد مقصود ‘ جو کہ نامور ڈاکٹر ، ڈاکٹر محمد ایوب ( تمغہ پاکستان ) کے فرزند ہیں زلزلے کے وقت مستونگ میں تھے - ابھی ماشاءاللہ حیات ہیں - وہ اپنے والد مرحوم سے سنی ہوئی باتوں کو کبھی کبھار یاد میں لاتے ہیں اور زلزلے کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں - اس کے علاوہ خود ڈاکٹر ایوب مرحوم نے اپنی خود نوشت میں اس زلزلے کی بابت لکھا ہے - ڈاکٹر ایوب لکھتے ہیں " مستونگ ہسپتال کی ڈسپنسری اور اسٹور روم کی عمارتیں مخدوش ہو کر نہایت خطرناک صورت اختیار کر چکی تھیں - چھتیں زمیں بوس ہونے کے قریب تھیں - بھونچال کے جھٹکے جاری تھےاور یہ کبھی بھی گر سکتی تھیں- - ہلتی ہوئی دیواروں اور جھکی ہوئی چھتوں کے سبب ان عمارتوں کے نیچے جانے کی کوئی ہمت نہیں کر پا رہا تھا- فیصلہ یہ کیا گیا کہ مستونگ جیل سے قیدی لا کر انہیں اندر بھیجا جائے گا اور سامان نکالا جائے گا لیکن جب جیل پہنچے تو جیل کی حالت اس سے بھی زیادہ ابتر تھی- ایک درجن کے قریب قیدی ہلاک ہو چکے تھے - کئی قیدیوں کا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ زندہ ہیں یا فرار ہو چکے ہیں -

ڈاکٹر ایوب صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ہم مستونگ میں اپنے مصائب میں گھرے ہوئے تھے - تار برقی کا سلسلہ منطقع ہو چکا تھا - ایک اعلیٰ انگریز افسر ‘ اسکرائین صاحب کوئٹہ جاکر بذات خود امداد حاصل کرنے کے ارادے سے نکلے اور شام کو جب واپس آئے تو بہت پریشان تھے - انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کی حالت تو ہم سے بھی زیادہ تباہ ہے - عمارتیں ڈھے چکی ہیں - ہر طرف ملبہ ہی ملبہ بکھرا ہوا ہے - ملبہ اٹھاتے ہیں تو لاشیں نکلتی ہیں - درخت جڑ سے اکھڑ گئے ہیں - وہاں سے فوری مدد کی توقع کرنا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے - فی الحال جو کرنا ہے خود ہی کرنا ہے -مستونگ کے مکانات نہایت ہی شکستگی کی حالت میں تھے - چنانچہ رات مستونگ کے لوگوں بشمول ڈاکٹرایوب مرحوم نے درختوں کے نیچے ہی بسر کی - کوئٹہ سے خصوصی ریل گاڑیاں چلائی گئیں جو فلاکت زدگان کو محفوظ مقامات یا ان کے آبائی مقامات تک پہنچا رہی تھیں - ایک ہفتے بعد بیرونی امداد پہنچنا شروع ہوئی - زلزلے کے باعث کچھ مقامات پر گرم گرم کیچڑ ابل کر نو گھنٹے تک باہر آتا رہا -
کچھ عبرت انگیز اموات بھی نظر آئیں - ایک اعلیٰ افسر ای اے سی کی لاش کسی طوائف کے بالا خانے میں پائی گئ
کچھ انسانیت سے عاری واقعات بھی دیکھنے میں آئے - مستونگ بازار کا ایک ہندو چودھری لدھو مل اپنی بیوی اور پانچ بیٹیوں کے ساتھ زلزلے میں دب گیا- اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی- اس کی لڑکیاں سورگ باش ہوئیں - اس کے سگے بھتیجے ( جو ہندو قانون کے تحت چچا کی دولت اور جائیداد کا وارث تھا ) نے اپنے چچا کو بچانے کی کوئی کوشش نہ کی - لدھو مل زلزلہ آنے کے بعد اگلی رات تک نو بجے تک یعنی تقریباً 18 گھنٹے تک مدد کے لئے چلاتا رہا - بعد میں دوسرے لوگوں نے اسے ملبے سے نکالا -

کوئٹہ کے زلزلے کے سلسلے میں پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی ایک خط انگریز حکام بالا کو لکھا تھا جس میں انگریزی حکو مت کے اقدامات سے نا رضامندی کا اظہار کیا گیا تھا - پنڈت جواہر لال نہرو کا یہ خط یا بیان اپنی جگہ ایک اہمیت کا حامل ہے - لیکن ساتھ ہی ساتھ متنازع بھی ہے - کچھ لوگوں کے خیال میں پنڈت جواہر لال نہرو کی یہ بیجا تنقید تھی - انہیں اس سے احتراز کرنا چاہئے تھا - پنڈت جواہر لال نہرو نے اس زلزلے کے بارے میں ہندوستان میں قائم برطانوی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کو چاہئے تھا کہ کوئٹہ کو سیل نہ کرتی - ان کے مطابق کانگریس کے صدر راجندھر پرشاد کو زلزلہ زدگان کی امداد کے کئی پہلؤں سے خوب آگاہی تھی اور اس ضمن میں پورے ہندوستان بھر میں ان کا ثانی نہیں تھا لیکن افسوس ہندوستانی حکومت نے انہیں اس آفت زدہ علاقے میں جانے سے روکدیا - ہندوستان کی برطانوی حکومت کا یہ اقدام سراسر غلط ہے - پنڈت جواہر لال نہرو نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں کئی رفاعی ادارے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے تھے لیکن انہیں بھی اس کی اجازت نہیں دی گئی - اور تو اور گاندھی جی اور کچھ دیگر ممتاز شخصیات سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا گیا -
پنڈت جواہر لال نہرو کے بیان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حکومت ہند نے اس سلسلے میں اخبارات پر پابندی لگادی تھی کہ وہ اس سلسلے میں مضامیں وغیرہ نہ شائع کریں - اس پر بھی نہرو نے دبے الفاظ میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا

ڈاکٹر حامد مقصود صاحب نے کوئٹہ کے 1935 کے زلزلے کی بابت بات کرتے ہوئے بتایا کہ انگریز حکومت نے آباد کاری کا کام کرواتے وقت اس بات کا خصوصی خیال رکھا کہ مستقبل میں یہ شہر اس طرح کی آفات سے بچا رہے - انگریز حکومت نے لوگوں کی مالی حالات دیکھتے ہوئے زلزلہ سے بچاؤ کے لحاظ سے مختلف اقسام کے مکانات کی تصریحات بنائیں اور اسی کے مطابق مکانات بنانے کی اجازت دی - -مکانوں کی تعمیر کے دوران ا امر کا خیال رکھا گیا کہ ہر مکان کی بیرونی دیوار دوسرے مکان کی دیوار سے چھ انچ کےفاصلے پر ہو تاکہ اگر ایک مکان کی دیوار زلزلے سے لرزنے لگے یا اس میں خم پیدا ہو جائے تو ملحقہ مکان بالکل محفوظ رہے -
----------------------------------------------------
خصوصی شکریہ - اس مضمون کی تخلیق و تکمیل کے مراحل کے دوران کچھ افراد کی خصوصی معاونت حاصل رہی جس کے سبب میں کئی مشکل مراحل میں سے آسانی سے گزر گیا - ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں خصوصاً کوئٹہ کے ڈاکٹر حامد مقصود صاحب اور کراچی کے ایڈوکیٹ جناب نوشاد شفقت صاحب - جناب نوشاد شفقت صاحب نے پنڈت جواہر لال نہرو کا کوئٹہ کے بارے میں بیان حاصل کرنے کے لئے اپنے کتب خانے کو پوری طرح کھنگال ڈالا اور آخر کامیاب و کامران ہوئے - ڈاکٹر حامد مقصود کا تذکرہ کالم میں کر چکاہوں - کوئٹہ کی ملکہ خان کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے جنہوں نے اپنے واٹس اپ سے پورا استفادہ کرنے کا موقع دیا - یہ سب اس جذبے کے تحت مددگار بنے کہ تاریخ کے گم شدہ ابواب لوگوں کی نظروں سے اوجھل نہ ہو جائیں -کہا جاتا ہے جو قوم تاریخ کو بھلا دیتی ہے تاریخ اسے بھلا دیتی ہے -
 

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 331190 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More