جنون سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی

برطانوی استعمار سے چھٹکارہ پانے اور ہندو کے دامِ تزویر سے بچ نکلنے کے لیے جب مسلمان سر جوڑ کر بیٹھے تو اُن کا مقصد محض آزادی حاصل کرنا نہیں تھا، بلکہ اُن کا مدّعا یہ تھا کہ برصغیرمیں ہمیں ایک ایسا خطّہ چاہیے جہاں ہم خلافتِ راشدہ کی بہاریں واپس لا سکیں۔ اسلامی نظامِ حیات کا اِحیا کر سکیں۔ قرآنی قوانین اورناموسِ محمدی ؐ کی حفاظت کر سکیں ۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ لا َ اِلٰہ َ اِلّاا ﷲ مُحَمَّدٌرَسُو ل اﷲ، کی حکومت قائم کر کے پہلے پاکستان کو روٹھی ہوئی بہاروں کا نشیمن بنائیں اور پھر ساری دنیا کو امن و آشتی کے گلہائے بُو قلموں سے رشکِ گلزار بنا دیں۔

یقیناًآزادی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جذبہ ٔ آزادی بلبل میں شاہیں کی ادائیں پیدا کرتی ہے۔ممولوں کو شہبازوں سے لڑاتی ہے، گداؤں کو شکوہ ِ جم و پرویز عطا کرتی ہے۔انسانی صلاحیتوں کو جِلا بخشتی ہے۔ ہم آزادی حاصل کر کے اپنے افکارو نظریات کی آبیاری اور اپنی روایات کی پختہ کاری کر سکتے ہیں۔آزادی کا نام زبان پر آتے ہی مسرت و انبساط کی لہر انسان کے رگ و پے میں دوڑ جاتی ہے۔
؂ عشق و آزادی بہارِ زیست کا سامان ہے عشق میری جان آزادی مِرا ایمان ہے
عشق پہ کر دوں فدا میں اپنی ساری زندگی لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے

آج سے ستر سال پہلے تاریخ کی گردش کو اُلٹا گھما کر،عہد گزشتہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے لا کر، اس منظر کا نظارہ کیجئے۔ جب قافلہء حر ّیت قائداعظم ؒ کی قیادت میں پاکستان کا مطلب کیا؟ لا َ اِلٰہ َ اِلّاا ﷲ کا ورد کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔سارے مسلمان سیسہ پلائی دیوار بن کراِس سالارِاعظم کے حکم پر صف آراہو گئے ۔ہندو اور انگریزوں دونوں کی مکّاریاں اور عیاّریاں پوری تیاّریاں کر کے اسے روکنے کی کوششیں کر رہی تھیں۔لیکن قائداعظم ان ابلیسوں کی دسیسہ کاریوں کے سر پر آہنی ضربیں لگاتے۔ چومکھی لڑائی لڑتے کانگریسیوں کے سینے پر مونگ دلتے ہوئے پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گئے اور ہندو اور انگریز دونوں سر پیٹتے اور دانت پیستے رہ گئے ۔ آخر شہیدوں کا لہو رنگ لایا ، قائداعظم کی تمنائیں پاکستان کی صورت میں مظہر پذیر ہوئیں۔ جسے دیکھ کر روحِ اقبال پکار اُٹھی
؂ عام حر ّیت کا جو دیکھا تھا، خواب اسلام نے اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ

اس آزادی کے حصول کے لیے ہم نے خاک و خون کے وہ دریا عبور کیے جن کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، اس آزادی کو بسانے کے لیے ہم نے اپنے آبائی وطن گھر بار اور آباؤ اجداد کی تمام نشانیاں تک اس دشمن کے حوالے کر دیں۔اس لعل ِ بیش قیمت کو حاصل کرنے کے لیے ہم نے اپنی عزت و ناموس تک کو خطرات کے سپرد کردیا۔بالآخرہم نے پاکستان حاصل کر لیا۔ آزادی کی دلہن ہم بیاہ لائے، صدیوں سے اُجڑا گھر پھر آباد ہو گیا۔ ہم نے اپنے ارمانوں کی جنت آباد کر لی۔ صدیوں کی آرزوؤں کو پروان چڑھتے دیکھ لیا۔

لیکن کیا ہم نے وہ سب کچھ حاصل کر لیا جس کے لیے تاریخ سازقربانیاں ہم نے دیں؟ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ستر سال گزر گئے مگر اس دشت نوردی میں ہمارے ہاتھ خاک کے سوا کچھ نہ آیا۔ نصف سے زائد صدی ہونے کو آئی مگر ہم اپنی منزل مقصودسے دور بہت دور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ گردشِ لیل ونہار ستر سال آگے جا چکی، مگر ہم الٹی زقندیں لگا کر کولہو کے بیل کی طرح وہیں ہیں جہاں سے چلے تھے۔ کیا ہم نے آزادی اس لیے حاصل کی تھی کہ شہیدوں کی قبروں پر اپنے قصرِ عالیشان تعمیر کر کے عیش و عشرت کی داد لیں؟ کیا آزادی اس کا نام ہے کہ ایک طرف سر بفلک عمارات اور دوسری طرف غربت و خستہ حالی کی یلغار۔ ایک طرف سرمایہ دار کا غرور اور ناز، دوسری طرف بندۂ مزدور کے تلخ اوقاتِ کار، ایک طرف عیش و نشاط کی امنگ، ترنگ اور اس کے مظاہر رنگا رنگ، دوسری طرف زندگی کی ہر امنگ بے نصیبی سے ہم آہنگ۔کیا پاکستان کی جدوجہد کا یہی نقطہ دلپذیر تھا جس پر آج ہم نچھاور ہو رہے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں! بلکہ پاکستان اس لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں اسلام کے نظام ِحیات کی عملداری ہو گی۔سنت ِ رسولؐ کی آبیاری ہو گی۔جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر کے اسے استحصال سے پاک کر دیا جائے گا۔

ہم سمجھتے تھے کہ ہماری سوچ اور نصب العین آزاد ہو گا ! ہم کشکول ِ گدائی لے کر دریوزہ گری نہیں کریں گے بلکہ با عزت اور پر اعتماد زندگی گزاریں گے۔ ہم غیرت ِدین مصطفی ؐ کو کفار کے ہاتھ نہیں بیچیں گے بلکہ اپنی خود مختاری کے تحفظ اور بقائے ناموس کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے۔یہ ملک حصول ِ عشق وجنون ہے۔ اس کی قدر و قیمت ہم نے نہیں پائی، اب احتساب کا وقت آگیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ غفلت کی نیند سے جاگیں اور میدانِ کار زار میں کود پڑیں۔ ہمیں خلوص ِ نیت سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے نبھا کر یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم مستقبل کے معمار، اہل ِ وطن کے غمگسار اور اپنے ملک کی عزت و حرمت کے پاسدار ہیں۔ کیونکہ پاکستان ہی ہماری شناخت ہے، ہماری پہچان ہے ، ہمارا ایمان ہے بلکہ ہماری جان ہے۔
؂ وطن کی آن پہ اپنا لہو بکھیریں گے ہر ایک ظلم کی آندھی کے رخ کو پھیریں گے
ہر ایک کوچہ و بازار کے مکیں کو سلام اے میرے پاک وطن! تیری سرزمیں کو سلام  -

Nabiha Arshad
About the Author: Nabiha Arshad Read More Articles by Nabiha Arshad: 16 Articles with 25468 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.