فاٹا کی قومی دھارے میں شمولیت

وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں ا صلاحات کا فیصلہ 2014ء میں کیا گیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان دہشت گردی کی شدید لپیٹ میں تھا ۔ فاٹا دہشت گردوں کا مرکز بن چکا تھا جہاں سے وہ ملک کے مختلف شہروں کو نشانہ بناتے۔ آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد قومی لائحہ عمل تشکیل دیا گیا۔ جس میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے بہت سے اقدامات کے ساتھ ساتھ فاٹا میں اصلاحات کا نفاذ بھی شامل تھا۔ اس سلسلے میں پانچ رکنی ریفارمز کمیٹی نے تمام قبائلی علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی۔2 مارچ2017 کو وفاقی کابینہ نے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی باقاعدہ منظوری دیتے ہو ئے اس عمل کو پانچ سال میں مکمل کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے گزشتہ ہفتے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کے ہمراہ میران شاہ کا دورہ کیا۔قبائلی عوام سے اپنے خطاب میں انہوں نے فاٹا کی قومی دھارے میں شمولیت کے عمل کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کا وعدہ کیا۔ وہ اس سلسلے میں اس قدر سنجیدہ اورپرعزم تھے کہ دوسرے ہی روز قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس پر عملدرآمدکا ٹائم فریم دے دیا۔ جس کے مطابق ایک ماہ میں قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کردیا جائے گا اور اکتوبر سے پہلے یہاں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوں گے۔وزیراعظم نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے پاک فوج کی قربانیوں اور غیور قبائلیوں کوبھی خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج نے فرض سے لگن اور وطن سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے فاٹا کو دہشت گردی سے پاک کردیا ہے۔ا ب ہمیں اپنے عمل سے ثابت کرناہے کہ ہم ان برائیوں کو دوبارہ اپنے علاقوں میں نہیں آنے دیں گے۔ اگر فاٹا میں امن نہیں ہو گا تو پاکستان میں امن نہیں ہو گا، یہ سب معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک قبائلی علاقوں میں برطانوی حکمرانوں کا بنایا قانون (ایف سی آر )نافذہے۔ اگرچہ یہاں کے نمائندوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی دی گئی لیکن بدقسمتی سے وہ اس سلسلے میں کوئی قانون سازی نہ کروا سکے۔یہ معاملہ مختلف اوقات میں قومی سیاست کا موضوع تو بنتارہا تاہم اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے گئے۔ نتیجے کے طورپر ان علاقوں میں لاقانونیت بڑھتی گئی اور پولیٹیکل انتظامیہ اپنے اپنے اختیارات کے تحت یہاں کے عوام کا استحصال بھی کرتی رہی۔انہی مسائل کی وجہ سے یہ علاقے لمبے عرصے سے جہالت اور لاقانونیت کا شکار رہے ہیں۔ 11/9 کے بعد افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے انہی کمزوریوں کی وجہ سے یہاں اپنے ٹھکانے بنا لئے۔ انہوں نے قبائلی عوام کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔ دوسری طرف پاکستان دشمن قوتوں نے بھی اپنا کھیل کھیلا اور یہاں موجود دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے انہیں مالی وسائل کے علاوہ گولہ و باردو بھی بھاری تعداد میں فراہم کیا۔ دہشت گردوں نے مختلف قبائلی علاقوں میں اپنے نیٹ ورک قائم کئے۔ معصوم نوجوانوں کی برین واشنگ شروع کرکے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے افغان سرحد کے ساتھ ساتھ محفوظ ٹھکانوں میں بم فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ وہاں سے ملک کے دوسرے حصوں میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی بھی شروع کردی۔ شروع شروع میں حکومت نے مقامی عمائدین کے ذریعے ان سے مذاکرات کی کوشش کی اور بہت سے معاہدات بھی طے پائے مگر دہشت گردوں کا ایجنڈا چونکہ دشمنوں کے عزائم کی تکمیل تھا، اس لیے انہوں نے کسی عہدوپیمان کی کبھی پاسداری نہ کی۔ انہوں نے آہستہ آہستہ ان علاقوں میں حکومتی اہلکاروں اور قبائلی عمائدین کو چن چن کر نشانہ بنانا شروع کردیا۔ان کی دہشت اور سفاکی کے سامنے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ مقامی انتظامیہ کے عہدیدار بھی بے بس ہوگئے۔ اس پس منظر میں افواج پاکستان کو وہاں ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ پاک فوج نے ان کے خلاف چھوٹے بڑے آپریشن شروع کئے۔ دہشت گرد چونکہ مقامی آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے تھے، اس لیے انہیں ابتدائی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم بہترین منصوبہ بندی اور موثر خفیہ آپریشنز کے ذریعے انہوں نے بہت سے دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ بھاری تعداد میں اسلحہ و گولہ بارود اپنے قبضے میں لے لیا۔ انہوں نے مقامی آبادی کو محفوظ مقامات تک پر منتقل کیا اور پھر دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔ ردعمل میں دہشت گردوں نے اپنی مذموم کارروائیوں کو ملک بھر میں پھیلا دیا۔ افواج پاکستان، شہری اور قومی املاک ان کی ہٹ لسٹ پر تھیں۔ پریڈ لین راولپنڈی اور پھر آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردوں نے معصوم جانوں سے کھیل کر حیوانیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے جس کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کے ساتھ ساتھ فاٹا میں اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا ۔ "ضرب عضب" شروع ہوا۔ افواج پاکستان ایک عزم اور ولولے کے ساتھ آگے بڑھیں۔ پہلے ہی ہلے میں بہت سے دہشت گرد جہنم واصل ہوئے۔ افواج کا ہربڑھتا قدم دہشت گردی کے تاریک اور بھیانک سایوں کو ختم کرتا چلا گیا۔ یقینا اس صورتحال میں مقامی آبادی مسلسل مشکلات کا شکار رہی۔ افواج پاکستان نے ان کے لیے عارضی پناہ گاہیں تعمیر کیں اور انہیں ہرممکن سہولت پہنچانے کی کوشش کی۔ آپریشن ضرب عضب میں افواج پاکستان نے دہشت گردوں سے براہ راست پنجہ آزمائی کرکے انہیں شکست دی تھی تاہم ملک بھر میں پھیلے ان کے خفیہ نیٹ ورک اور سلیپرز سیل مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ کی قیادت میں افواج پاکستان نے ان کے خلاف آپریشن ردالفساد شروع کیا۔ جوانتہائی موثر اور کامیابی سے جاری ہے۔ بہت سے چھپے عناصر بے نقاب ہوئے اور دہشت گردوں کے سہولت کاراپنے انجام کوپہنچے۔ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے سے بھی دہشت گردی میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔

اب قبائلی علاقوں میں امن قائم ہوچکا ہے۔ یہاں سے دہشت گردی کے اڈے ختم ہونے سے پورے ملک میں امن عامہ کے مثبت اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔مجموعی اقتصادی ترقی کا عمل بھی تیز ہوا ہے۔ یہ سب افواج پاکستان کی مسلسل کوششوں اور قربانیوں کی مرہون منت ہے۔ قبائلی علاقوں میں اب سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ پروان چڑھ رہا ہے۔ مختلف تعلیمی، سیاحتی اور تفریحی سرگرمیاں بھی فروغ پا رہی ہیں۔ افواج پاکستان کے مختلف اداروں نے نامساعد حالات میں یہاں کا بنیادی انفراسٹرکچر بحال کردیا ہے بلکہ علاقے میں سڑکوں، سکولوں اور دیگر عوامی سہولیات کا جال بچھا دیا ہے۔اس امن کو پائیدار بنانے کے لیے یہاں ایک مضبوط سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کی فوری ضرورت ہے۔ اس پس منظر میں فاٹا کی فوری طورپر قومی دھارے میں شمولیت کا اعلان انتہائی مثبت پیش رفت ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے اس سلسلے میں ٹائم فریم کا اعلان یقینا حکومت کی سنجیدگی کا اظہار ہے۔فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے یہاں نہ صرف گورننس بہتراوراقتصادی ترقی کا عمل تیزہوگابلکہ قبائلی عوام اپنے حقوق حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا بھرپور حصہ ڈال سکیں گے ۔
 

Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 62799 views Columnist/Journalist.. View More