حقیقی سیکولر طبقے سے معذرت کے ساتھ۔۔۔ایک تجزیہ۔۔۔۔

زندگی یقیناً متنوع ہے۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ حالات اور نظریات بدلنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔ان بدلے ہوئے حالات میں اقوام اپنے نظریات و خیالات کو بدلتی ہیں اور اپنے سیاسی، معاشی و سماجی نظاموں کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالتی ہیں۔تبدیلی کا یہ عمل ہمارے معاشرے میں بھی کار فرما ہے۔۔۔ گوناں گوں نظریات کا پرچار ہو رہا ہے۔۔۔

زندگی یقیناً متنوع ہے۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ حالات اور نظریات بدلنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔ان بدلے ہوئے حالات میں اقوام اپنے نظریات و خیالات کو بدلتی ہیں اور اپنے سیاسی، معاشی و سماجی نظاموں کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالتی ہیں۔تبدیلی کا یہ عمل ہمارے معاشرے میں بھی کار فرما ہے۔۔۔ گوناں گوں نظریات کا پرچار ہو رہا ہے۔۔۔اس نظریاتی گہما گہمی میں ترقی پسندی، جمہوریت پسندی، انقلاب پسندی وغیرہ کا علمبردار ایک طبقہ بھی ہے جو کہ’’ سیکولر ازم ‘‘یا مارکسزم کے نام پہ خصوصاً نوجوان نسل میں اپنی فکر کا پرچار کر رہا ہے۔۔۔۔اس کے مدنظر’’ سرمایہ داری نظام‘‘ زہر قاتل ہے اور معاشرے میں طبقات پیدا کرتا ہے، لہذا طبقاتی جنگ کے ذریعے’’ انقلاب‘‘ لانا ضروری ہے، لیکن عملاً حالت یہ ہے کہ یہ نام نہاد ’’مارکسٹس ‘‘ بالواسطہ یا بلا واسطہ ، شعوری یا غیرشعوری طور پہ اسی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی نگہبانی کرتے نظر آتے ہیں،حقیقی معنوں میں نظام سرمایہ داری کی مخالفت اور اس کے خلاف حقیقی جدو جہد کی بجائے یہ نظام کے کسی جزوی ادارے کو ہدف بنا کر لعن طعن میں اپنا وقت اور توانائیاں صرف کرتے ہیں، مثلاً ایک زمانے سے ان کا ہدف فوج ہے یقیناً فوجی آمریت سے ملکی سیاسی اداروں کو نقصان پہنچا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس ملک کی ایلیٹ سرمایہ دار و جاگیردار ، سیاستدان، بیورو کریسی سب اس میں حصہ دار تھے اور ہیں۔۔۔ لیکن ا س طبقے کا سارا زور بذریعہ سوشل میڈیا نیٹ ورک، مضامین و کالم و سیمینار، اور احتجاج سب کاہدف ایک ہی ادارہ رہا اور اس طرح سے جو بھی بالمقابلِ فوج ملا۔۔ چاہے ا س کا تعلق عالمی سامراجی سازشیوں کے ساتھ ہو یا مقامی یا علاقائی سطح پہ سرگرم پاکستان دشمن قوتوں کے آلہ کاروں سے ہو۔۔ اس کے ساتھ شیر و شکر ہو گئے۔۔۔۔فوج کے خلاف نفرتوں کو پروان چڑھانے والا یہ طبقہ پتہ نہیں کیوں بھول جاتا ہے کہ۔۔۔فوجی بھی اسی عوام کا حصہ ہیں۔۔۔۔عام فوجی بھی اسی طرح کے معاشی و سماجی مسائل کا شکار ہے جیسے کہ اس معاشرے کے دیگر افراد ہیں۔۔۔۔فوج کے خلاف نفرت انگیز پرو پیگنڈے کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ ایک عام فوجی اس طبقے کے پھیلائے ہوئے نظریات کو نہ صرف رد کرتا ہے بلکہ ان سے نفرت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ فوج کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی گھسیٹ لیا گیا ہے۔۔۔۔کیونکہ اس بوسیدہ نظام میں کوئی سرمایہ دار و جاگیردار ایلیٹ پہ ہاتھ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔لہذا ایک کمزور سی کوشش ہوئی تو۔۔۔فوراً یہ نام نہاد مارکسٹس بھی میدان میں آ گئے۔۔۔اور ایک سرمایہ دار خاندان کو بچانے کے لئے اس کے پرو پیگنڈا بریگیڈ کا حصہ بن گئے۔۔۔۔اور کمال مہارت سے عدلیہ اور قانون کی بالا دستی کو معاشرے میں بے وقار کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔۔۔۔۔ رہ گئے سرمایہ دار طبقات جو کہ ایک مافیا کی طرح مسلط ہیں، جنہوں نے ملک کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہو اور کرپٹ بیورو کریسی ہو جس کے ہر ادارے میں کرپشن کے ریکارڈ بنائے ہوئے ہیں، کسی کانام ان کی زبان پہ نہیں آتا۔یعنی’’ بغض معا ویہ‘‘ ہو یا’’ حب علی‘‘ ہر موقع کے انتظار میں رہتے ہیں۔ گذشتہ ستر سالوں سے ان کی’’ ترقی پسندی‘‘ سوویت یونین کی امداد سے شروع ہوئی اور پھر اس کی بندش پہ ڈاواں ڈول ہو گئی۔۔۔ اور۔۔۔اب میرا اندازہ ہے کہ چونکہ ہمیشہ ان کا نظریاتی مرکز ’’بیرون ملک‘‘ رہا ہے شاید افغانستان سے بھی انہیں کوئی مدد مل جائے۔۔۔کیونکہ ایک تو اس وقت وہاں امریکی سامراج اپنے جال بن رہا ہے۔۔ اور کچھ عناصر جو کہ نام نہاد کمیونسٹ ہیں اور اس وقت امریکی خدمت گذاری میں مصروف ہیں۔۔۔وہ شاید ایسی قومی تحریک کھڑی کرنے میں اس طبقے کی مدد فرمائیں۔۔اس کا اگرچہ کہ منظور نامی آدمی کے ذریعے آغاز ہو چکا ہے۔۔۔اور تمام ’’ترقی پسند‘‘ فوج کو گالیاں دینے کے لئے اس کیمپ کا رخ کر رہے ہیں۔۔۔ اب حالت یہ ہے کہ سامراج چونکہ ہماری سرحدوں پہ بیٹھا اس موقعے کا انتظار کر رہا ہے جب اسے اندرونی طور پہ عدم استحکام پیدا کرنے والی قوتوں کی مکمل سپورٹ مل جائے۔۔۔اور وہ عرب ممالک کی طرح یہاں بھی ’’حقیقی جمہوریت‘‘۔۔۔قائم کر سکے۔۔۔ لہذا اس وقت ہمارے وطن عزیز کا یہ ’’سیکولرٹولہ‘‘شایدبے شعوری یا مفاد پرستی کی بدولت آج کے طاقتور سامراج امریکہ کی عالمی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کی طرف رواں دواں ہو چکا ہے۔

دلچسپ پہلو یہ ہے یہ ’’مارکسٹ‘‘ اور اینٹی سامراج طبقہ کہلانے والا یکا یک سامراجی اداروں میں امن کی آشا، انسانی حقوق، آزادی اظہار رائے، ترقی پسندی اور سیکولر ازم ڈھونڈنے کی جہد مسلسل میں مبتلاہو گیا۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے جتنا بڑا کیمونسٹ، سیکولر ، ترقی پسند ، دہریہ اور جدت پسند ہو گا وہ سامراجی این جی اوز ہی میں اپنا ٹھکانہ بنانے کی کوشش کرے گا، این جی اوز کی رکنیت اور فنڈز کے لئے مارا مارا پھرے گا،اپنے معاشرے کی غربت، بدحالی کے خاتمہ کے لئے لوگوں کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کر نے ان میں سیاسی تنظیم پیدا کرنے کی بجائے معاشرے کے خواتین و حضرات کی بدحالی اور ذلت کی تصویریں اور دیڈیو بنائے گا، سامراجی عنوانات کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزی پہ کتابیں لکھے گا،فلمیں بنائے گا،اور پھر سامراجی اداروں کی چھتری تلے عالمی اور علاقائی ایوارڈ اور شہرت اور ڈالر لینے کے لئے نہ تو مارکسزم یاد رہے گا اور نہ ہی سرمایہ داری نظام اور نہ ہی سامراجی استحصال اور نہ ہی طبقاتی انقلاب کی یاد آئی گی۔۔۔۔ اپنی اپنی اہلیت و حیثیت اور آلہ کار کردار کے حساب سے شہرت بھی نصیب ہوتی ہے اور مال و زر بھی ملتا ہے اور’’ انسان دوست‘‘ اور’’ سیکولر‘‘ کہلانے کے مزے بھی الگ ہیں، یعنی’’رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی‘‘

اب این جی اوز کا کام خدا ناخواستہ غلط نہیں ہے، لیکن ایسی این جی اوز جو کہ سامراجی ممالک کے ایجنڈوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تیسری دنیا کے پسماندہ معاشروں میں کام کر رہی ہیں، جہاں حقوق انسانی، جمہوریت کے نام پہ ممالک کو بلیک میل کیا جا تا ہے، اپنی من مرضی کے حکمرانوں کو لانے اور ان کے خلاف ان ہی کے ممالک میں تحریکیں پیدا کرنے کا مشن لے کر یہ ادارے کا م کرتے ہیں، اور آج کل ان اداروں کا ہراول دستہ ہمارے ہاں یہ نام نہاد سیکولر طبقہ ہے، جو کہ’’ پرانا کیمونسٹ‘‘ ہے اور اپنے آپ کو دور جدید کے’’ تقاضوں‘‘ کے مطابق ڈھال کر اب وہ ’’لبرل یاسیکولر‘‘ ہو چکا ہے۔

’’جمہوریت‘‘ تو اس طبقے کی جان ہے، قدم قدم پہ بس ’’فوجی آمریت‘‘ کے خلاف ڈنڈے کھانے، جرنیلوں کو گالیاں دینے، اور ان کی قوم ،ملک اور جمہوریت کے خلاف سازشوں کو تو بے نقاب کرنے کے تو ماہر ہیں۔۔۔لیکن افسوس کے گذشتہ ستر سالوں سے اس طبقے کی کوئی منظم سیاسی جمہوری تنظیم موجود نہیں۔۔۔۔جو کہ حقیقی معنوں میں عوام کی نمائندہ ہو۔۔۔اور اس کا سیاسی عمل میں کوئی کردار ہو۔۔۔

’’سرمایہ داروں‘‘ کے وہ خاندان جنہوں نے’’جمہوریت‘‘ کے نام پہ اپنے ’’غیر جمہوری گروہ‘‘ بنا رکھے ہیں، جنہوں نے نصف صدی نہ تو جمہوریت کی الف بے نہ پڑھی اور نہ ہی پڑھائی ، نہ ہی سیکھی اور نہ سکھا ئی بس ان کا کام اقتدار لینا اور ملکی دولت کو لوٹنا اور نظام کے تمام اداروں کو اپنے مقاصد کے لئے تباہ و برباد کرنا رہا ہے ، عوام کو جانوروں کے ریوڑ کی طرح ہانکنے والا دھن، دھونس اور دھاندلی کے ذریعے منتخب ہو کر قومی تباہی کا باعث بننے وا لا طبقہ جو،جمہوریت کے نام پہ بد نماداغ ہے۔تاریخ گواہی دیتی ہے کہ فوجی آمروں کی گودوں میں پلنے والا اور ان کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ مل کر اداروں کا ستیہ ناس کرنے والا یہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا ٹولہ بد قسمتی سے اس’’سیکولر طبقے‘‘ کا کسی نہ کسی حوالے سے بالواسطہ یا بلا واسطہ منظور نظر اور ہم نوالہ اور ہم پیالہ رہا ہے۔۔۔۔۔کیا زبردست منافقت پائی کہ ایک طرف ’’جمہوریت‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹ کر جمہوریت پسندوں کی آشیر باد لی، تو دوسری طرف سرمایہ داریت کے اقتدار کو بھی تقویت پہنچا کر اپنے مفادات کی تکمیل فرمائی۔۔۔۔اب سیکولر طبقے کی رہنمائی کا مرکز چونکہ سوویت یونین یا روس سے منتقل ہو کر ’’امریکہ یا دیگر یورپ‘‘ منتقل ہو چکا ہے لہذا اب ان کی بھی آشیر باد انتہائی ضروری ہے، لہذا جب کبھی انہیں ’’ان کی‘‘ضرورت پڑتی ہے تو’’ امریکی اور برطانیہ یاترا‘‘ کے لئے لائنیں لگ جاتی ہیں، بلکہ دوڑیں لگ جاتی ہیں،اب سامراجی مقاصد یہ ہیں کہ انسانی حقوق کا پرو پیگنڈا کر کے اب سول حکومتوں کو گرانا ہے یا بلیک میل کرنا ہے تو’’حضور‘‘حاضر ہیں، جب کبھی فوجی حکومتوں کا تختہ الٹنا ہے تو جمہوریت بچاؤ تحریک کے لئے’’بندہ پرور‘‘حاضر ہیں۔جب کبھی ریاستوں کو توڑنا ہے یا ان کے نظاموں کو تہہ و بالا کرنا تو یہ طبقہ اپنی’’انسانی حقوق کی تحریکوں‘‘ کے ساتھ پوری توانائیوں کے ساتھ خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔ان کی اس منافقت پہ ایک طرف تو مارکس،لینن کی روح تڑپ رہی ہو گی تو دوسری طرف ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کے بانیوں کی روحانی دنیا میں بھی صف ماتم بچھا ہو گا۔

ہاں انسانی حقوق کے حوالے سے تو یہ ’’سیکولر‘‘طبقہ تو ہمہ وقت درد انسانیت سے لبریز تشہیر میں مصروف ہوتا ہے۔۔۔۔۔موم بتیاں جلا کر غم کا اظہار کرنا ہو یا تو بینر اور پلے کارڈ اٹھا کر احتجاج کرنا ہو ۔۔۔۔۔ایسا لگتا ہے کہ سب سے زیادہ دکھی دل ان ہی میں موجود ہیں۔۔۔لیکن یہاں بھی منافقانہ روش اس وقت نظر آتی ہے جب ’’اپنے مطلب ‘‘ کے واقعے پہ غم منانا ہے اور اپنے مطلب کے حادثے پہ اظہار یکجہتی کرنا ہے اور اپنے مطلب کی’’ فوتگی‘‘ پہ موم بتیاں جلانا ہے۔۔۔۔۔مثال کے طور پہ کسی دیہات میں کسی عورت پہ ظلم ہوا تو اس کی ویڈیو بنائی جائے گی اور اس کی خوب تشہیر کی جائے گی اور ’’پاکستانی ظالم ‘‘معاشرے کی خوب تصویر کشی کی جائے گی اور مناسب قانون سازی اور تحفظ کے لئے احتجاج کی کال ہو گی۔۔۔۔۔لیکن اسی معاشرے میں ماڈل ٹاؤن کا ایک حادثہ ہوتا ہے۔۔۔خواتین کو سڑکوں پہ گھسیٹا جاتا ہے اور انہیں منہ میں گولیاں ماری جاتی ہیں۔۔۔بوڑھے افرارد کو بے دردی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔۔۔کئی افراد کو گولیاں مار کا قتل کیا جاتا ہے۔۔۔لیکن حقوق انسانی کے یہ چیمپئن خاموش تماشائی بنے رہے۔۔۔نہ موم بتیاں اور نہ احتجاج۔۔۔۔یہ کیسی بے حسی ہے؟یہ کیسی انسان دوستی ہے؟ اور جب آرمی پبلک اسکول میں سینکڑوں بچوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا اس پہ بھی منافقانہ خاموشی اختیار کیئے ۔۔۔۔بلوچستان میں جب بے گناہ مزدوروں کی لاشیں ملتی ہیں یا سیکورٹی اداروں کے جوانوں کی لاشیں۔۔۔۔یا دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید کئے جانے والے ہزارہ یا دیگر کمیونٹی کے ا فراد کی لاشیں ۔۔۔تو انہیں سانپ سونگ جاتا ہے۔۔۔اور جب سیکورٹی ادارے دہشت گرد گروپوں کے خلاف آپریشن شروع کرتے ہیں تو یہی’’ نام نہادانسان دوست ‘‘ حقوق انسانی کا واویلا مچاتے نہیں تھکتے۔۔۔۔اور ان کی آواز سامراجی ایجنٹوں کی آواز کے ساتھ مل جاتی ہے۔۔۔۔ اور اسی طرح کے دیگر واقعات جو رونما ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں۔۔۔ان کی اس منافقات کو دیکھا جا سکتا ہے۔۔۔۔اب ان کی حکمت عملی کو سامراجی حکمت عملی کے تناظر میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔۔۔۔جب کبھی سامراج کو کسی آمر کی حکومت کے خلاف تحریک چاہئے ہوتی ہے تو چھوٹے سے چھو ٹے واقعے کو بنیاد بن کر ۔۔۔یہ حقوق انسانی کے چیمپئن حرکت میں آ جاتے ہیں۔۔۔۔ لیکن جب سامراج کو نام نہاد سرمایہ داروں کی جمہوری حکومت کی بقا چاہئے ہوتی ہے تو۔۔۔ چاہے انسانوں کو تہس نہس کر دیا جائے ۔۔ملکی معیشت کو دیوالیہ کر کے عوام کو گروی رکھ دیا جائے۔۔۔ان کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔۔۔۔ان کی انسا ن دوستی کا معیار یہ ہے کہ ’’مذہب‘‘ کا کسی بھی حوالے سے ٹچ انہیں برداشت نہیں ہے۔۔۔کوئی شخصیت ہو یا گروہ یا ادارہ ۔۔۔۔۔اس نے کہیں نہ کہیں کسی حوالے سے مذہب کا نام لے لیا یا اس کی تعریف کر دی۔۔۔بس اس طبقے کی نظر میں وہ’’ راندہ درگاہ‘‘ ہو گیا۔۔۔۔اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔۔۔کوئی صحافی ہو یا سیاستدان یا کوئی سکالر۔۔۔۔اگر وہ مذہب اور فوج اور آجک کل عدلیہ کو کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے تو اس طبقے کا تمام سوشل میڈیا بریگیڈ شب وروز اس کی تعریف و توصیف میں سرگرداں رہتا ہے۔۔۔۔مذہب پہ تنقید کرنا ، تضحیک کرنا یہ تو معمول کی بات ہے۔۔۔چاہے انفرادی نشستیں ہوں یا اجتماعی۔۔۔اس کے نتیجے میں پھر دوسری طرف بھی نفرتوں کا طوفان اٹھتا ہے۔۔۔اور پھر مشعل خان جیسے انسانیت سوز واقعات پیش آتے ہیں۔۔۔۔یہ انتہا پسندی ایک طرف سے نہیں آتی ۔۔یہ تو دو طرفہ ہوتی ہے۔۔۔عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔۔۔ایک ہلکی گالی دیتا ہے تو دوسرے اس سے زیادہ۔۔۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس گالی گلوچ کے کلچر کے نتیجے میں قتل وغارت شروع ہو جاتی ہے۔۔۔اور پھر اس دنگہ و فساد میں کبھی مذہب کو برا بھلا کہا جاتا ہے ۔۔۔تو کبھی مارکسزم کو گالیاں دی جاتی ہیں۔۔۔۔ضروت اس امر کی ہے کہ معاشرے سے انتہا پسندی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائی۔۔۔۔معتدل اور جامع انداز فکر کو رواج دیا جائے۔۔۔۔اسلامی تعلیمات اور مارکسزم کی اصل روح کو سمجھا جائے۔۔نہ کہ لوگوں کو تقسیم کرنے۔۔۔۔۔نفرتیں پھیلانے۔۔۔ریاست کو کمزور کرنے۔۔۔۔سامراجی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بناجائے۔۔یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ انسانیت کی خدمت اور اجتماعیت کی تشکیل کے لئے عملی کام کیا جائے۔۔۔۔سوشل میڈیا کو نفرتوں اور تعصبات پھیلانے کی بجائے۔۔۔محبت اور اخوت پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔۔۔۔طبقاتی نظام کے خاتمہ کے لئے جدو جہد ضروری ہے لیکن ایسے سیاسی و سماجی شعور اور حکمت عملی کے ساتھ۔۔۔جس کے تحت خطے میں کار فرماسامراجی قوتوں کی سازشوں کو سمجھا جا سکے۔۔۔ اور ان کا شکار ہونے سے بچا جا سکے۔۔ اسی طرح سے قومی آزادی اور خود مختاری کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 135643 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More