سفر 78 سالوں کا۔۔۔۔

سورج سوا نیزے پہ تھا۔لوگوں کا ایک ٹھاٹھے مارتا سمندر تھا جو بصارت کی آخری حدّوں کو چُھو رہا تھا۔یہ کون تھے کہاں سے آۓ تھے کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔ نہ کوٸ کسی کے نام سے واقف تھا نہ ہی حسب و نصب سے۔ بس دل میں آزادی کی شمع روشن کیۓ اپنے قاعد کی سر پرستی میں آج یہ قافلہ پیش پیش تھا۔ انجام کی پروا نا کر تے ہوۓہر فردِ واحد کا صرف ایک ہی محّرک تھا اور زبان پہ بس ایک نعرہ
لے کے رہیں گے پاکستان
بٹ کے رہے گا ہندستان۔۔۔

ہندوں کے بے جا مظالم اور شدت پسندی سے آوازار یہ قوم آج ہر قیمت پہ اُس خواب کے حصّول کے لیۓ مجتمع تھی جو خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کا مکمل طورپہ اظہار اُنہوں نے 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں کیا تھا۔ بظاہر تو پاکستان کی بُنیاد اُسی دن پر گٸ تھی جب برّصغیر کا پہلا ہندوں مُسلمان ہوا تھا۔ آج اُسی بُنیاد کو پایہ تکمیل تک پہچانے کا دن تھا۔ ہر ایک کے چہرے پہ جوش و جذبے کی ایک لہر تھی اور آنکھوں میں اُمید کی ایک کِرن ۔ سب مُنتظر تھے اُس گھڑی کے جب اُنھیں آزادی کی نوید سُناٸ جاۓ۔ ہندوں کے بے جا مُظالم اور اِنتہا پسندی سے زِچ یہ قوم اب غلامی کے خِلاف اعلانِ بغاوت کرنے کو تیار تھی۔ سینکڑوں سال ساتھ گُزارنے کے باوجود ہندوں کے دِلوں میں مُسلمانوں کے لیۓ بُغض، حسّد اور انتہا پسندی کا بھڑکتا لاواہ موجود تھا۔ جو اُس وقت کھل کر سامنے آیا کہ جب ہندوں نے مسلمانوں کے خلاف مذہبی تحریکوں کا آغاز کیا۔ جن میں چیدہ چیدہ آریہ سماج،گاٶرکھشا، شُدھی، سنگٹھن اور ہندی کی تحریکیں شامل ہیں۔مسلمانوں کو اب یہ بات اچھی طرح باآور ہو چکی تھی کہ اُن کا اور ہندوں کا ساتھ اُس پٹڑی کی مانند ہے جو ایک دوسرے کے مُقابل تو ہو سکتے ہیں پر اِن کا ملاپ ناممکن ہے۔ اِن تمام مُحرّکات کے پیشِ نظر آج یہ قوم تاریخ کے پنّوں پر ایک نیا باب رقم کرنےایک لفظ کے حصّول کی خاطر متّحد تھی۔ اور وہ لفظ تھا ”پاکستان“۔۔

23 مارچ مسلمانوں کی تاریخ کا وہ روشن پہلو ہےجسے آج تک دُنیا قراردادِ پاکستان کے نا م سے یاد کرتی ہے۔ یہ قرارداد 23 مارچ کو آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے میں قاعداعظم کی سربراہی میں پیش کی گٸ۔ جسکی نما۶ندگی شیرِبنگال مولوی فضل الحق نے کی۔ قہقوں کا ایک شور برپا تھا جو دِیوانوں کے اس خواب پہ ہنس رہا تھا۔ لیکن جناح کی جُرات مندانہ صلاحیتوں اور مسلمانوں کی پیش قدمی کو دیکتھے ہوۓ مُخالفین نے بلاآخر شکست کو قبول کیا اور مسلمانوں کی آزادی کا پروانہ جاری کر دیا گیا۔

اس قرارداد نے برّصغیر کے مسلمانوں میں ایک نٸ رُوح پھونکی اور اُنکی بے پناہ قربانیوں اور نہ ختم ہونے والی جدوجہد نے زور پکڑا ۔ اور بلاآخر 7 سال کی مسلسل مشقت کے بعد 14 اگست 1947 کو ایک واضح جغرافیاٸ اہمیت کے ساتھ پاکستان دُنیا کے نقشے پہ اُبھرا۔ محمد علی جناح وہ عظیم سپہ سالار جنہوں نے اپنے زیرِ سایہ وہ عظیم لشکر تیار کیا جسکےآگے دُشمن کا ہر دستہ زِیر ہوا۔ہندوں کا مسلمانوں پہ حکومت کرنے کا خواب پاش پاش ہوا۔

قاعد نے مسلمانوں کی خاطر ایسی آزاد مملکت بنانا چاہی جہاں ہر فردِ واحد کو اپنی زندگی کا بُنیادی حق حاصل ہو۔ اُنہوں نے ایک ایسے چمن کی آبیاری کی جہاں امن وسکون کے پھول کھلیں اور مُحبت کی فضا قا۶م ہو۔اور ہر فرد ملت و مذہب کا پیکر ہو۔

گر 1940 سے 2018 تک کے 78 سالہ سفر کو زیرِ غور لایا جاۓ تو حقیقت بلکل بر عکس ہے۔

ہر ذی شعور انسان اس بات کا باخوبی موازنہ کر سکتا ہے کہ 78 سال پہلے اور 78 سال بعد کے پاکستان میں کوٸ واضح فرق نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ہم ہندوں اور انگریزوں کے زیرِغلامی تھے جبکہ اب ہم میں سے ہی کچھ لوگ ہم پہ مسّلط ہیں۔سربراہان جمہوریت کے نام پہ عوام الناس کا خون اور پیسہ چُوسنے پہ معمور ہیں۔ جو اقتدار میں آتے تو عوام کی فلاح و خدمت کے نام پہ ہیں لیکن اقتدار کے بعد لفظ عوام ہی بھول جاتے ہیں۔ آج بھی پاکستان کم و بیش اُسی دوہراۓ پہ کھڑا ہے جہاں 78 سال پہلے تھا۔آج بھی قتل و غارت گیری کا کاروبار سر گرم ہے۔ کہیں پہ نسل و مذہب کی بُنیاد قتلِ عام کیا جاتا ہے، تو کہیں غیرت کے نام پہ بنتِ حوّا نشانے پہ ہے۔ کہیں جہاد کے نام پہ بم دھماکے کیۓ جاتے ہیں، تو کہیں معصوم ننھی کلیوں کو حوّس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔کوٸ بے روزگاری سے بیزار ہے، تو کہیں غُربت کے ڈیڑے ہیں۔ غریب ،غریب تر اور امیر،امیر تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ پاکستان میں اس وقت پانی،گیس،بجلی اور روزگار جیسے بحران کے ساتھ ساتھ علم و شعور کا بھی فقدان ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اب تک سینکڑوں گھر برباد ہو چُکے ہیں۔ کتنی ماٶں کی گودیں اُجڑیں، کتنوں کے سُہاگ اور کتنے ہی لاوارث و یتیم ہوۓ۔

وقت کے پہیۓ کے ساتھ گھومتے گھومتے یہ قوم اپنا تشخص ہی کہیں پیچھے چھوڑ آٸ ہے۔ ہم نے اس ملک کے حصّول کا اصل مقصّد ہی بھُلا دیا۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پاک سر زمین کو قاعد کا پاکستان بنانے کے لیۓ ہمیں ایک بار پھر یکجا ہونا پڑے گا۔آٶ ایک بار پھر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اُن عناصر کے خلاف صف بند ہو جو پاکستان کی راہ میں حا۶ل مکرّوہ رُکاوٹیں ہیں۔ آٶ پھر سے اُس گلشن کو آباد کریں جسکی خاک میں ہمارے اجداد کا لہو شامل ہے۔ جسکی باغبانی کی خاطر ہزاروں مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نظرانے پیش کیۓ۔
آٶ اس چمن کو پھر سے ویسے ہی آباد کریں جیسے اسے آباد ہونے کا حق ہے۔۔۔۔
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں۔۔
یہاں سے خزاں کو بھی گُزرنے کی مجال نہ ہو۔۔۔
خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اُترے۔۔۔۔۔

 

Kashaf mubarik
About the Author: Kashaf mubarik Read More Articles by Kashaf mubarik: 3 Articles with 2888 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.