تکافل کیا ھے

پاکستان میں تکافل کمپنی کا کردار اور بیانیہ انکے شریعہ رول کے مترداف نہیں ھے

تکافل کیا ھے
میرے خیال کے مطابق اگست کے بعد سے میری ملاقات مسلسل ھو رہی تھی اور حمایہ تکافل( EFU) کے حوالے سے انکے بقول یہ حمایہ مفتی ابراہیم عیسی صاحب کی زیر نگرانی کام کر رہی ھے میری ملاقات اس سلسلے میں خواجہ مجیب الرحمن صاحب ( لاھور) عبدالرحمن فیاض صاحب)(کراچی) غلام حیدر محسن صاحب ( فیصل آباد) شاہد رفیق صاحب( برانچ مینجر ٹوبہ ٹیک سنگ) چوہدری محمد افضل صاحب( برانچ مینجر چیچہ وطنی) اور سید طلہ حسین شاہ صاحب(ٹوبہ ٹیک سنگ) سے ھوچکی ھے اور مجھ نہ اہل سمیت چیچہ وطنی کے بڑے اہل علم اور عاقل کے علاوہ میرے بڑے ہی قابل قدرؤاحترام محمد افضل مغل صاحب, عدنان فیروز صاحب, سید محسن شاہ صاحب, اس کا حصہ تھے لیکن اللہ کے فضل سے میں تقریباً چار سے چھ ماہ میں ہی انکی گفتگو, معاملات, شرائط, کمپنی رول, اور بروقت کام کے نہ ھونے کی وجہ, چند باتوں کے پوشیدہ پن,کچھ رائیڈر کے ھونے اور نہ ھونے,اور انکی طرف سے کی جانے والی ایک اہم بات کہ کمپنی مفتی ابراہیم عیسی جو کہ شریعہ ایڈوزر ہیں کے علم کے بغیر ایک پنسل بھی نہیں خریدتے, نے مجھے کچھ الجھن میں ڈال دیا تو میرا دل تکافل کے بارے میں مزید کچھ جاننے کے لیے بےتاب ھوا, اپنی تسلی کے لیے کتابیں اور گوگل کا سہارہ لیا جو کہ اللہ پاک کی رحمت سے درست سمت تھی اور کامیابی بھی ملی ھے آج اسکو ہی آپکی نظر کر رہا ھوں.
نوٹ
باقی ھو سکتا ھے میں غلط ھوں یا غلط سمت پر سوچ رہا ھوں, جا رہا ھوں, تو اس کے لیے معذرت بھی چاہتا ھوں اور ساتھ ہی اہل علم سے اپنی رہنمائی بھی چاہتا ہوں امید ھے .

تکافل کی تعریف
کچھ عرصہ سے بعض مالیاتی ادارے اسلامی بینکوں کی طرز پر سود ، غرراور قمار پر مشتمل انشورنس کا متبادل نظام بڑے زور وشور سے متعارف کرا رہے ہیں جس کو 'تکافل' کا نام دیا گیا ہے۔ جو ادارہ اس کا انتظام وانصرام کر تا ہے.
تکافل عربی زبان کا لفظ ہے جو کفالت سے نکلا ہے، اور کفالت ضمانت اور دیکھ بھال کو کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں باہم ایک دوسرے کا ضامن بننایا باہم ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنا مراد ہے۔ [1] تکافل کا معنی ومفہوم
ہماری معلومات کے مطابق نہ توقرآن وحدیث میں 'تکافل' کا لفظ آیا ہے اور نہ ہی لغت کی قدیم کتب میں یہ لفظ ملتا ہے، البتہ کتاب وسنت میں ایسے الفاظ ضرور استعمال ہوئے ہیں جن کا مادّہ وہی ہے جو تکافل کا ہے یعنی وہ الفاظ ک ف ل سے بنے ہیں ۔
مثلاً قرآنِ حکیم میں حضرت مریم ؓکی کفالت اور تربیت کے حوالے سے ایک جگہ
فَتَقَبَّلَهَا رَ‌بُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِ‌يَّا ۖ...﴿٣٧﴾...سورة آل عمران
''پھر اس کے ربّ نے اسے قبول کیا، قبول کرنا اچھا اور زکریا کو اس کا کفیل بنایا۔''

اور دوسری جگہ
إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَـٰمَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْ‌يَمَ...﴿٤٤﴾...سورة آل عمران
''جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی کفالت کرے؟''

یعنی پہلی آیت میں لفظ کَفَّلَ 'کفیل بنایا 'اور دوسری میں یَکْفُلُ 'کفالت کرے '' کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جب دو آدمی دیوار پھلانگ کرحضرت داؤدؑکے کمرہ میں داخل ہوئے تو ان میں سے ایک نے کہا :
إِنَّ هَـٰذَآ أَخِى لَهُۥ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِىَ نَعْجَةٌ وَ‌ٰحِدَةٌ فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا وَعَزَّنِى فِى ٱلْخِطَابِ ﴿٢٣﴾...سورہ ص
''بے شک یہ میرا بھائی ہے، اسکے پاس ننانوے دُنبے ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبہ ہے تو یہ کہتا ہے: وہ بھی میرے سپرد کر دے اور گفتگو میں مجھ پر غالب آجاتا ہے۔''
یہاں اَکْفِلْ 'سپرد کر دے ' کا لفظ آیا ہے۔

اسی طرح حدیث شریف میں بھی اس مادہ کے مختلف الفاظ آئے ہیں ۔مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِي الْجَنَّةِ هکَذَا۔ ۔ ۔ 1
''میں اور یتیم کی کفالت کرنیوالا جنت میں اس طرح اکٹھے ہوں گے، آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی اُنگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا جیسے یہ دونوں اکٹھی ہیں ۔ ''

البتہ لغت کی جدید کتب میں یہ لفظ زیر بحث آیا ہے۔ چنانچہ المَورد میں تکافل کا معنیJoint liability or responsibility; solidarityلکھا ہے۔
یعنی '' مشترکہ ذمہ داری یا جواب دہی ؛باہمی اتفاق؛مقاصد اور عمل کا اتحاد''

مُعجَم الطُّلاب میں ہے:
تَکَافَلَ یَتَکَا فَلُ،تکافُلاً: تَضَامَنَ/تَبَادَلَ الضَّمَانَةَ مَعَ غَیْرِہٖ
''دوسرے کے ساتھ گارنٹی کا تبادلہ کرنا۔''

معجَم لغة الفقہاء میں تکافل کا معنی و مفہوم یو ں بیان ہوا ہے:
تبادل الإعالة والنفقة والمعونة (Solidarity) الرعایة والتحمل، ومنه تکافل المسلمین رعایة بعضهم بعضًا بالنصح والنفقة وغیر ذلك
''کفالت، نفقہ اور اِعانت کاتبادلہ (انگریزی میں سولیڈیرٹی) بمعنی خیال رکھنا اور برداشت کرنااور اسی سے تکا فل المسلمین ہے۔ یعنی مسلمانوں کا ایک دوسرے کاخیر خواہی اورخرچ وغیرہ کر کے خیال رکھنا۔ ''

اسلام میں تکافل کی اہمیت
اگرچہ قرآن و حدیث میں لفظ تکافل ذکر نہیں ہوا مگر ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال رکھنا، خیر خواہی اورتعاون کرنا دین کا اہم مطالبہ ہے۔

سید قطب شہید رحمة اللہ علیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
''بلا شبہ اجتماعی تکافل ہی اسلامی معاشرہ کی بنیاد ہے اور مسلمانوں کی جماعت پابندہے کہ وہ اپنے کمزوروں کے مفادات کا خیال رکھے۔''2

دوسری جگہ لکھتے ہیں :
''اسلام کا مکمل نظام تکافل کی بنیاد پر قائم ہے۔ '' 3

ذیل میں اس موضوع کی بعض آیات اور احادیث ِنبویہ ؐ ملاحظہ ہوں :
وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُ‌ونَ بِٱلْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ‌ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَو‌ٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَو‌ٰةَ وَيُطِيعُونَ ٱللَّهَ وَرَ‌سُولَهُۥٓ ۚ أُولَـٰٓئِكَ سَيَرْ‌حَمُهُمُ ٱللَّهُ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٧١﴾...سورة التوبہ
''مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، وہ نیکی کا حکم دیتے اور برے کام سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے اور زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ ضرور رحم فرمائے گا۔ بے شک اللہ تعالی نہایت غالب خوب حکمت والا ہے۔ ''

یعنی اہل ایمان کا شعار یہ ہے کہ وہ ایک دوسر ے کے معاون و مددگار ہیں ۔

تکافل کی روح بھی یہی ہے۔ علامہ محمد رشید رضا رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
''اس آیت میں مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی جس دوستی کا ذکر ہے وہ نصرت ، اُخوت اور محبت سب دوستیوں کو شامل ہے۔''4

حضرت ابو سعید خدریؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، اچانک ایک شخص اپنی سواری پر آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا یعنی اپنی ضرورت کی چیز تلاش کرنے لگا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ کَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهرٍ فَلْیَعُدْ بِه عَلَی مَنْ لاَ ظَهرَ لَهُ وَمَنْ کَانَ لَهُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ فَلْیَعُدْ بِه عَلَی مَنْ لاَ زَادَ لَهُ 5
''جس کے پاس زائد سواری ہے وہ اس کودے دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زائد راشن ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس راشن نہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ ؐنے مال کی جو اَصناف ذکر کیں ، سو کیں ؛ یہاں تک کہ ہم نے یہ سمجھا کہ زائد مال میں ہم میں سے کسی کا حق نہیں ہے۔ ''

اسلام کہتا ہے کہ اگر ایک مسلمان کو تکلیف ہو تو دنیا بھر کے مسلمان اس وقت تک بے چین رہیں جب تک اس کی تکلیف رفع نہ ہو جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی عمدہ مثال بیان کر کے اس کو یوں سمجھایا :
تَرٰی الْمُؤْمِنِینَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَکٰی عُضْوًا تَدَاعَی لَه سَائِرُ جَسَدِہٖ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّی 6
''تو مسلمانوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے ،محبت رکھنے اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی مانند دیکھے گا۔ اگر ایک عضو بیمار ہو جاتا ہے تو جسم کے تمام اعضا بخار اور بیداری میں اس کے شریک ہوتے ہیں ۔ ''

ایک موقع پر حضرت عمرؓنے فرمایا تھا کہ اللہ کی قسم اگر اللہ تعالی یہ قحط ختم نہ کرتے تو
مَا تَرکتُ أَهل بَیتٍ مِن المُسلمین لَهم سِعةً إِلا أَدخلتُ مَعهم أَعدادَهُم مِن الفُقراء 7
''میں ہر صاحب ِحیثیت مسلمان گھرانے میں اتنے ہی غربا داخل کر دیتا۔''
یعنی ایک امیر خاندان میں جتنے افراد ہو تے اتنے ہی غربا کی کفالت ان پر لازم ہوتی۔

اسلامی تکافل کی ہمہ گیریت
اسلام کانظامِ تکافل اسلامی اُخوت ،معاشی احتیاج و ضرورت اور تکریم انسانیت پر استوار ہے۔ اسلام اس سوچ کا قطعاً حامی نہیں کہ ہم پرصرف ان مستحقین کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو ہمارے ہم عقیدہ ہوں ۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے :
لَّا يَنْهَىٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ لَمْ يُقَـٰتِلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَلَمْ يُخْرِ‌جُوكُم مِّن دِيَـٰرِ‌كُمْ أَن تَبَرُّ‌وهُمْ وَتُقْسِطُوٓا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾...سورة الممتحنہ
''اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں سے حسن سلوک کرنے اور ان کے حق میں انصاف کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کی بابت نہیں لڑے اورجنہوں نے تم کوتمہارے گھروں سے نہیں نکالا،بلا شبہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔''

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادِ گرامی ہے :
فِي کُلِّ ذَاتِ کَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ 8
ََ''ہر جاندار میں ثواب ہے۔ ''
یعنی ہرجاندار کے ساتھ احسان کرنا باعث ِثواب ہے۔
’تکافل‘ کی بنیاد بھائی چارے، امدادِ باہمی اور ’تبرع‘ کے نظریے پر ہے، جو شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہے۔ دورِ جدید میں تکافل کو روایتی انشورنس کے متبادل کے طور پر بطور اسلامی انشورنس کے استعمال کیا جارہا ہے۔اس نظام میں تمام شرکا باہم رسک شیئر کرتے ہیں اور شرکا باہمی امداد و بھائی چارے کے اس طریقے سے مقررہ اصول و ضوابط کے تحت ممکنہ مالی اثرات سے محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ روایتی انشورنس کے مقابلے میں تکافل کا نظام ایک عقدِ تبرُع ہے کہ جس میں شرکا آپس میں ان خطرات کو تقسیم کرتے ہیں ، تکافل نظام کے عقد تبرع کے نتیجے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی قسم کا سود کا عنصر موجود نہیں ۔

قرآن و سنت میں تکافل کا تصور

تکافل کا تصور کوئی نیا ایجاد کردہ تصور نہیں ہے ،بلکہ واضح طور پر قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں یہ تصور موجود ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں باہمی امداد اور تعاون کی بڑی ترغیب دی گئی ہے اور یہی باہمی امداد ہی تکافل کی بنیاد ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے:

وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی(المائدہ ۵:۲)

ترجمہ: نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔
اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ (الحجرات ۴۹: ۱۰)

ترجمہ:مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
اس تعاون اور باہمی بھائی چارے کا تقاضا یہی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بن جائیں ، اور مصیبت میں کام آئیں جیسا کہ بھائی آپس میں کرتے ہیں ۔ انھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے دنیا میں بھائی چارے ، اخوت، ہمدردی اور باہمی تعاون کی خوش گوار فضا قائم ہو سکتی ہے اور یہی نظریہ تکافل کی بنیا د ہے۔یہ بات بھی ملحوظ خاطررہے کہ تکافل صرف مسلمانوں کے لیے نہیں۔ کوئی بھی فرد جو اس کا ممبر بنے گا وہ اس سے استفادہ کر سکے گا۔ ملائشیا میں مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی اسلامی بنکوں اور تکافل کمپنیوں کے ساتھ معاملات کرتے ہیں۔ یہ معاہدہ باہمی تعاون و تناصر پر مبنی ہے ، چنانچہ اس میں ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ ’’ہر گروہ کو عدل ا نصاف کے ساتھ اپنی جماعت کا فدیہ دینا ہوگا‘‘ یعنی جس قبیلے کا جو قیدی ہوگا، اس قیدی کے چھڑانے کا فدیہ اسی قبیلے کے ذمے ہوگا۔

ایک واقعہ

ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! میں اپنے اونٹ کو باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا اس کو چھوڑ دوں، پھر اللہ پر توکل کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسانہ کرو، بلکہ پہلے اونٹ کو باندھو ، اور پھر اللہ تعالٰیٰ پرتوکل کرو۔(صحیح ترمذی 2771)

تکافل کا طریقۂ کار

تکافل کے نظام میں کمپنی کی حیثیت وکیل یا مینیجر کی ہوتی ہے۔ ’تکافل نظام‘ میں سب سے پہلے کمپنی کے شیئر ہولڈر کچھ رقم باقاعدہ وقف کرتے ہیں۔ اس رقم سے ایک وقف پول یا فنڈ (Participant's Takaful Fund )قائم کیا جاتا ہے۔جہاں ان شیئر ہولڈروں کی حیثیت وقف کنندہ کی ہوتی ہے۔ وقف فنڈ سے ممبران کا تعلق محض ’عقدِ تبرع‘ کا ہوتا ہے۔ وقف فنڈ کی ملکیت وقف کنندہ سے وقف کی طرف منتقل ہوجاتی ہے، البتہ اس وقف کے منافع سے وہ استفادہ کرتے ہیں ۔اس وقف فنڈ کو PTF کا نام دیا گیا ہے۔

فقہ سے استدلال
فقہا کی رائے میں جو اہل ذمہ اپنے معاش کے حصول سے عاجز ہو جائیں گے ان کی ضرورت کے مطابق بیت المال سے وظیفہ جاری کیا جائے گا۔ امام ابن قیم رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں :
''حضرت عمرؓسے مروی ہے کہ اُنہوں نے ایک ذمی بوڑھے کو دروازوں پر مانگتے دیکھا تو بیت المال سے اس کا وظیفہ جاری کر دیا اور عمر بن عبدالعزیز نے بھی ایسا کیا تھا۔ ''9

حضرت خالد بن ولید ؓنے اہل حیرہ سے کہا تھا کہ
''تم میں سے جو بوڑھا ہو جائے گا یا جس پر کوئی آفت آجائے گی یا جو مال دار رہنے کے بعد غریب ہو جائے گا، وہ جب تک دار الاسلام میں رہے گا، اس کی اور اس کے بیوی بچوں کی کفالت بیت المال کرے گا۔ '' 10
ثابت ہوا اسلام کے نظامِ تکافل کا فیض انتہائی وسیع ہے جس سے اسلامی ریاست کا ہر مستحق شہری بلاتخصیصِ عقیدہ بقدرِ ضرورت مستفید ہوتا ہے۔

تکافل کی مختلف صورتیں
اسلامی نقطہ نظر کے مطابق درجاتِ معیشت میں تفاوت اپنی جگہ مگراس طرح سادہ زندگی گزارنے کا حق سب کو یکساں حاصل ہے کہ اس کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو تی رہیں ۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے زکوٰة ،عشر اور صدقہ فطر وغیرہ کا نظام دیا گیا ہے۔ اور معاشرہ میں دولت کو زیر گردش لانے اور غربا کی بہبود میں زکوٰة کا کردار بڑانمایاں ہے۔سید قطب شہید رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
إن الزکاة فرع من فروع نظام التکافل الاجتماعي في الإسلام 11
''زکوٰة اسلام میں تکافل اجتماعی کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔''

رمضان المبارک کے اختتام پر صدقہ فطر بھی تکافل اجتماعی کی ایک شکل ہے تاکہ چھوٹے سے لے کربڑے تک ہر شخص فقراء ومساکین کی دیکھ بھال میں حصہ دار بنے۔ ایسے ہی مال داروں کو فقیرعزیز واَقارب کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ٹھہرانا بھی تکافل میں شامل ہے جبکہ نفلی صدقات اور ہنگامی حالات میں اِنفاق کا حکم اس سے الگ ہے۔ اسی طرح غیر ارادی طور پر قتل ہوجانے کی صورت میں دیت تنہا قاتل پر ڈالنے کی بجائے عاقلہ (قاتل کے بھائی ،چچااور ان کی اولاد) کو شریک کرنے کاحکم تکافل کی ہی عکاسی کرتا ہے۔ علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة اللہ علیہ اس کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
وَالْمَعْنٰی فِي ذٰلِکَ أَنَّ جِنَایَاتِ الْخَطَأِ تَکْثُرُ وَدِیَةَ الآدَمِيِّ کَثِیرَةٌ،فَإِیجَابُهَا عَلَی الْجَانِي فِي مَالِهِ یُجْحِفُ بِهِ، فَاقْتَضَتْ الْحِکْمَةُ إیجَابَهَا عَلَی الْعَاقِلَةِ عَلَی سَبِیلِ الْمُؤَاسَاةِ لِلْقَاتِلِ وَالإِعَانَةِ لَهُ تَخْفِیفًا عَنْهُ 12
''اس میں حکمت یہ ہے کہ غیر ارادی طور پر ہونے والے جرائم بکثرت ہوتے ہیں اور آدمی کی دیت بھی کافی زیادہ ہے۔ لہٰذااس کو اکیلے خطاکارکے مال میں واجب قرار دینا اس پراس کے مال میں ناقابل برداشت ذمہ داری ڈالنے کا باعث ہے۔ چنانچہ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ قاتل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بطورِ ہمدردی اور اعانت اس کی دیت عاقلہ پر واجب قراردی جائے۔''
بلکہ غیر ارادی قتل میں دیت کا حکم بذاتِ خود تکافل کی ایک صورت ہے اور وہ یوں کہ بعض دفعہ مقتول کے بچے کمسن ہوتے ہیں جن کی تعلیم و تربیت کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو گویا اسلام نے دیت مقرر کر کے ان کی کفالت کا انتظام کیا ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ اسلام نے تکافل کا ایک مضبوط نظام دیا ہے، اگر اس پر عمل ہو جائے تو تمام محتاجوں کی معاشی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں ۔ لیکن بایں ہمہ اگرضرورت پوری نہ ہو تو غنی مسلمانوں پر مزید خرچ کرنا لازم ہو جاتا ہے۔

اسلامی تکافل کی خصوصیت
اسلامی تکافل کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کابنیادی مقصد اپنے مستقبل کے خطرات کا تحفظ اور نقصانات کی تلافی ہرگز نہیں ۔ اور نہ ہی اس کوبطورِ کاروبار اختیارکیا جاتا ہے بلکہ اسلامی معاشرے کا یہ شعار ہونا چاہیے کہ اس کے تمام افراد باہم مددگار ومعاون ہوں اور ضرورت مندوں اور مجبوروں کی مدد کریں ، لیکن اگر کچھ ادارے تکافل کے نام سے یہ مطالبہ کریں کہ ہم آپ کے بیوی بچوں کی مدد تب کریں گے جب آپ اتنے سالوں تک ہر ماہ ایک متعین رقم ہمیں وکالة یا مضاربةکی بنیاد پر کارو بار اور وقف فنڈ میں بطور چندہ دیں گئے تو اس سے اسلام کے تکافل اجتماعی کا مقصد حاصل نہیں ہوگا۔

فقہ کا مشہور اصول ہے کہ شرط الواقف کنص الشارع ، یعنی وقف کرنے والے کی شرط صاحبِ شریعت کے فرمان کی مانند ہے ۔ اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے واقف ، وقف فنڈ میں کچھ شرائط عائد کرتے ہیں ۔ جس میں ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ جو شخص بھی اس وقف فنڈ کو عطیہ دے گا ، اس وقف فنڈ سے وقف شرائط کے مطابق وہ فوائد کا مستحق ہوگا۔

وقف کے اندر چوں کہ اس بات کی گنجایش ہے کہ وہ مخصوص طبقے یا افراد کے لیے ہو ، مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کو اس شرط کے ساتھ وقف کرے کہ اس کا پھل صرف فلاں شخص کو یا میری اولاد کو دیا جائے یا میری زندگی میں مجھے ملتا رہے، وغیرہ تو یہ شرائط لگا نا نہ صرف جائز بلکہ مندرجہ بالا اصول کی روشنی میں ان کی پابندی بھی لازمی ہے۔اسی طرح تکافل سسٹم میں وقف کرنے والا، وقف کے مصالح کے پیش نظر وقف کے دائرے کو مخصوص افرا د تک محدود اور وقف فنڈ سے استفادہ کرنے کی مخصوص شرائط مقرر کرسکتا ہے۔

تکافل کی اقسام

تکافل کی دو اقسام ہیں : 1۔ جنرل تکافل 2۔ فیملی تکافل

عمومی (جنرل) تکافل
عمومی تکافل میں اثاثہ جات ، یعنی جہاز ، موٹر اور مکان وغیرہ کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تکافل کی رکنیت فراہم کی جاتی ہے۔ اگر اس اثاثے کو جس کے لیے تکافل کی رکنیت حاصل کی گئی ہو کوئی حادثہ لاحق ہوجائے تو اس نقصان کی تلافی ’وقف فنڈ‘ (پی ٹی ایف) سے کی جاتی ہے۔کمپنی اس وقف فنڈ کو منظم کرتی ہے اور وکالہ فیس وصول کرتی ہے۔ نیز اس فنڈ میں موجود رقم کو سرمایہ کاری کی غرض سے شرعی کا روبار میں لگاتی ہے ، جس کی مختلف شرعی شکلیں اور صورتیں ہوتی ہیں۔ اس میں فنڈ رب المال ہوتا ہے ، اور کمپنی مضارب ہوتی ہے، جب کہ نفع کا خاص تناسب طے ہوتاہے۔ اس تناسب سے کمپنی کو بحیثیت مضارب اپنا حصہ ملتا ہے، اور باقی نفع و قف فنڈ میں جاتا ہے ،جو فنڈ کی اپنی ملکیت ہوتا ہے۔

فیملی تکافل یا لائف تکافل
تکافل کی اس قسم میں انسانی زندگی کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تکافل رکنیت فراہم کی جاتی ہے۔ اس میں شرکا کو تکافل تحفظ کے ساتھ ساتھ حلال سرمایہ کاری کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ شریک تکافل جب کسی تکافل کمپنی میں رکنیت حاصل کر لیتا ہے تو ایک مخصوص مدت کے لیے ایک خاص رقم (پریمیم) ماہانہ یا سالانہ بنیاد پر ادا کرتا ہے جس میں سے کچھ رقم وقف فنڈ میں جمع کی جاتی ہے، اس میں وقف فنڈ کے علاوہ ایک اور فنڈ ہوتا ہے جس کا نام پی آئی اے (Participant's Investment Account) ہے۔ یہ شریک تکافل کا سرمایہ کاری فنڈ ہوتا ہے، جب کہ جنرل تکافل میں شریک تکافل کا پی آئی اے اکاؤنٹ نہیں ہوتا۔

خلاصہ المختصر یہ ھے کہ

شریک تکافل کی جانب سے ادا کر دہ زر تعاون دو مدات میں تقسیم ہوتا ہے۔ رقم کا کچھ حصہ بطور تبرع وقف فنڈ میں چلا جاتا ہے اور باقی ماندہ حصہ سر ما یہ کاری میں لگایا جاتا ہے۔
تکافل تحفظ کے سلسلے میں تما م کلیمزکی ادایگی وقف پول سے کی جاتی ہے۔
اسی طرح سال کے آخر میں کلیمز کی ادایگی اور اخراجات منہا کرنے کے بعد شریعہ بورڈ سے منظوری لے کر سرپلس (بچ جانے والی رقم) کو شرکا کے درمیان تقسیم کیا جاتاہے۔
ہر سال کے اختتام پر تمام ادایگیوں کے بعد بچ جانے والی رقم کو ’سر پلس‘ کہتے ہیں۔
نقصان کی صورت میں تکا فل آپریٹر اپنی وکالہ فیس میں کچھ اضافہ کیے بغیر وقف فنڈ کو قرض حسنہ فراہم کرتا ہے۔
شرعی نقطۂ نظر سے انشورنس قابل تجارت عمل نہیں ہے اس لئے اسے کاروباری بنیادوں پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اس لئے ہے کہ اس میں غیر شرعی عناصر موجود ہیں مثلاً غیر یقینی صورت حال(غرر) سود (ربا) اور جوا (میسر) تاہم ایک وقف فنڈ میں شراکت یا سرمایہ کاری کی اجازت ہے جو کہ خاص طور سے امداد باہمی کے مقصد کے لئے وجود میں لایا گیا ہو ، اسے تکافل کہتے ہیں جس میں شرکاء تبرع یا عطیہ کی صورت میں مالی شمولیت کرتے ہیں۔اس خاص سرمایہ کی انتظامی دیکھ بھال ایک تکافل کا ماہر کرتا ہے،جو اپنی خدمات اجرت کے عوض مہیا کرتا ہے۔ اس سرمایہ سے حاصل ہونے والا اضافیہ شرکاء میں تقسیم یا خیراتی کاموں کی مد میں خرچ کھے جا سکتا ھے....

(اس کے اگلے فیچر میں آپکو چیچہ وطنی شہر میں تکافل کے حوالہ سے پیش آنے والے ایک واقعہ سے آگاہ کرو گا)
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 447219 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More