ہم کیا کرسکتے ہیں ؟

ہم کیا کرسکتے ہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جسکے پیچهے ہماری ترقی، خوشحالی اور تبدیلی چهپی ہے، میرے ہم وطنوں ! ہمارے ملک کی کل بائیس کروڑ آبادی ہے

دنیا کی سب سے بڑی طاقت عوام ہوتے ہیں، یہ ایک ایسی طاقت ہوتی ہے، جو متحد ہوکر کچھ بهی کرسکتے ہیں، تاریخ میں جتنی بھی تبدیلیاں آئیں، انقلاب آئے، یا نظریات بدلے، ان تبدیلیوں، نظریات اور انقلابوں نے اسی طبقے سے جنم لیا، عوام سے ہوتے ہوئے یہ اشرفیہ اور حکمرانوں تک پہنچتی ہیں، کیونکہ عوامی فیصلہ ایک اٹل، غیرجانبدار مستند اور حتمی ہوتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک کی عوام کے اندر وہ جذبات، احساسات اور امنگیں نہیں، جو ایک انقلابی قوم کے اندر ہوتی ہیں، آپ المیہ ملاحظہ فرمائیں کہ پچهلے 71 سال سے ہماری ترقی، تبدیلی اور انقلاب کا محور حکومت رہی ہے، ہم ہر آنے والی حکومت سے ترقی اور بہتری کی امید کرتے ہیں، لیکن چه ماہ بعد ہی ہم ریاست کے اندر دهرنے، فسادات اور جلاو گهیراو شروع کردیتے ہیں، ہم کہتے ہیں یہ حکومت ٹهیک نہیں، کوئی اور آئے اور ہمارا حال بدلے، لیاقت علی خان سے لیکر شاہد خاقان عباسی تک ہماری امیدیں، امنگیں اور خواب صرف ایک شیروانی سے دوسری شیروانی میں ٹرانسفر ہوجاتے ہیں، لیکن ہمارے مسائل جوں کے توں اپنی جگہ قائم رہتے ہیں.

آپ پاکستان کے مسائل کی تاریخ نکال لیجئے، مہنگائی، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ، دہشتگردی اور فرقہ واریت 1947 سے لیکر 2018 ہر آنے والی حکومت اور ادوار میں ملیں گے، ہم ہمیشہ حکومتی طبقے پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں، کے فلاں نے یہ کیا فلاں نے وہ کیا، فلاں یہ کردے گا، فلاں وہ کردے گا، لیکن ساتھ ہی ہم یہ بهول جاتے ہیں کہ اگر صوبائی و قومی اسمبلیوں کے ایک ہزار ارکان، پانچ ہزار سیاستدان، ایک سو دس وفاقی وزیر، چار ہزار اعلی سرکاری افسر اگر اس ملک کا مقدر نہیں بدل سکے تو پهر ہم نے کیا کیا ؟ ہم لوگ منہ دهونے سے لیکر کچرا اٹهانے تک حکومت کا انتظار کرتے ہیں، آپ دنیا کی کسی بهی ریاست میں چلے جائیں، وہاں آپکو حقوق اور فرائض میں فرائض کو قانون کا درجہ ملے گا، جو شخص اپنا فرض ادا نہیں کرتا اسکو حق بهی نہیں ملتا، ہم فرائض تو ادا کر نہیں رہے، حقوق کا رونا 71 سالوں سے رو رہے ہیں، 22 کروڑ میں 14 کروڑ لوگ سکون سے گهروں میں بیٹھ کر کسی معجزے کا انتظار کر رہے ہیں، جسکی بدولت حالات بدلیں، یہ اللہ تعالیٰ سے بهی شکوہ کرتے ہیں، دعا کرتے ہیں اپنے حالات کی ایویلیوشن کا، لیکن اللہ تعالیٰ کسی بھی قوم کی حالت تب بدلتے ہیں، جب وہ قوم اپنی حالت خود نہیں بدلتی، خود کوشش نہیں کرتے.

ہم کیا کرسکتے ہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جسکے پیچهے ہماری ترقی، خوشحالی اور تبدیلی چهپی ہے، میرے ہم وطنوں ! ہمارے ملک کی کل بائیس کروڑ آبادی ہے، جس میں سے آپ چه کروڑ نکال دیں، جن میں تین کروڑ بچے اور باقی تین کروڑ بیمار ہیں، پیچهے 16 کروڑ لوگ بچتے ہیں، ان میں سے بهی آپ 11 ان میں سے آپ پانچ کروڑ لوگ لیں جو پڑهے لکهے ہوں، یہ پانچ کروڑ لوگ اس ملک کی ترقی، خوشحالی اور تبدیلی میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں، ہمارے ملک میں تقریباً 2 کروڑ ایسے بزرگ اور ریٹائرڈ لوگ جن کے پورا دن سوائے بچوں کو ڈرانے کے اور کوئی کام نہیں، اگر ہر محلے میں موجود ایسے دس لوگ ایک گروپ بنائیں اور اپنے محلے کی محافظت خود کرنا شروع کردیں تو پهر زینب اور عاصمہ جیسے واقعات شاید نہ ہوں، اگر دس پندرہ پڑهے لکهے لوگ ملکر فارغ وقت میں ان بچوں کو پڑهانا شروع کر دیں جو افورڈ نہیں کر سکتے، اگر دس ڈاکٹر لوگ ملکر فارغ وقت میں اپنے ارد گرد کے مریض لوگوں کا فری چیک اپ شروع کردیں، ایسے لوگ جنکی ماہانا تنخواہ پچاس ہزار سے زیادہ ہے، اگر ایسے لوگ ماہانہ چار ہزار جمع کریں اور اپنے علاقے میں ایک چهوٹی سی ڈسپنسری کهول لیں، جہاں ادویات مفت فراہم کی جائیں، اگر دس انجینئر ملکر ایک گروپ بنائیں، اور اپنے علاقے کے لوگوں کو فنی تعلیم دینا شروع کر دیں، اگر دس بیگمات ملکر اپنے علاقے کی خواتین کو بنیادی تعلیمات یعنی ہانڈی بنانا، کپڑے سینا، اسطرح کے بنیادی کام سکهانا شروع کردیں، اگر دس بڑے صنعت کار اپنے علاقے کے لوگوں کو چهوٹی چهوٹی گهریلو صنعتیں لگا دیں، اگر دس کهلاڑی اپنے علاقے کے بچوں کو کهیلوں کی بنیادی تیکنیں سکهانا شروع کردیں، اگر علاقے کے علماء ملکر آپس کے اختلافات ختم کریں اور ایک ایسا کیمپ ہر ہفتے اپنے علاقے میں لگائیں جہاں قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات دی جائیں، دس ذہین طالب علم ملکر نئی چیزیں ایجاد کرنا شروع کر دیں، علاقے کے دس ایسے لوگ جنکی تهوڑی بہت ریسرچ ہے، علم ہے، تجربہ ہے، ایسے لوگ علاقے کے لوگوں کو موٹی ویشنل لیکچر دینا شروع کر دیں، حکومت کے بجائے اپنی صلاحیتوں پر بهروسہ کیا جائے، چهٹ ٹپکنے کے بجائے اپنے زور بازو پر بهروسہ کیا جائے، تو سوچیں اس ملک کا کیا ہوگا ؟ کتنی بڑی تبدیلی آئے گی ؟ کتنے بچے پڑھ لکھ جائیں گے ؟ کتنی صنعتیں وجود میں آئیں گی، کتنے گهر سنور جائیں گے، کتنے مرض ختم ہو جائیں گے، کتنی فرقہ واریت کم ہوجائے گی، کتنے لوگ خود کشی اور درندگی چهوڑ دیں گے، کتنے لوگ اسلام کی طرف راغب ہوں گے.

جی ہاں جناب یہ پانچ کروڑ لوگ اس ریاست کا حلیہ بدل دیں گے، ریاست کی معیشت کو کہاں سے کہاں لے جائیں گے، اس کا اندازہ بهی ہم نہیں کرسکتے، ریاست کو نان پروگرس سے سپر پاور بنا دیں گے، جی جناب بالکل ! یہ لوگ تبدیلی لائیں گے، انقلاب لائیں، یہ پانچ کروڑ لوگ کوئی الگ نہیں، ہم میں سے ہی ہیں، میں آپ سب اس کا حصہ ہیں، اگر آج سے ہی ہم اپنے اپنے کاموں میں محنت اور لگن شروع کر دیں، بحثوں مباحثوں سے ہٹ کر عملی دنیا میں آجائیں، اپنے اور ریاست کے فیوچر کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں، خود کی صلاحیتوں کو پرونا شروع کردیں پهر آپ دیکهنا کیسی شاندار تبدیلی آئے گی، اس ریاست کی تقدیر بدل جائے گی، ہمیں سستی اور بے حسی کو خیر آباد کہہ کر عملی زندگی سے ناطہ جوڑنا ہوگا، خودکار اور خودمختار بننا ہوگا، ہم اسی ریاست کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں، ہمارا مرنا اور جینا اسی ریاست کے ساتھ ہے، ہمیں کچھ کرنا ہوگا، اس ریاست، اس ریاست کے بقاء، اپنی آنے والی نسلوں، اور اپنی ابدی زندگی کو سنوارنا ہوگا، کل ہمیں دنیا محض ہمارے انتقال والے دن کے بجائے ہمیں ہر سانس میں یاد کرے، ہمیں ہر لمحے پروئے، ہمیں ہر وقت دعا دے، ہمیں تبدیلی کے لئے ترقی کے لئے، انقلاب اور خوشحالی کے لئے اپنے ناموں اپنی قوتوں پر بهروسہ کرنا ہوگا بجائے عمران خان، آصف زرداری، نواز شریف یا کسی بھی حکومتی ادارے کے، یہ مٹی ہماری ماں ہے، ہمیں اپنی ماں کیلئے کچھ کرنا ہوگا.

Danish Ali Awan
About the Author: Danish Ali Awan Read More Articles by Danish Ali Awan: 3 Articles with 2426 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.