خانوادۂ قاسمیؒ کا ایک اور ٹمٹماتا چراغ بجھ گیا!

آج مؤرخہ 14؍ اپریل سنہ 2018ء کو بعد از نمازِ ظہر سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ افسوس ناک خبر موصول ہوئی کہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کے فرزند ارجمند،حضرت نانوتویؒ کے پڑپوتے، اور حضرت تھانویؒ کے آخری شاگرد، خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحبؒ بھی سفرِ آخرت کے لئے روانہ ہوگئے۔ انا ﷲ واناالیہ راجعون۔ وہ گزشتہ چند دنوں سے بوجہ ضعف و نقاہت اور دیگر کئی عوارض و امراض کے بسبب شدید علیل اور ہسپتال میں داخل تھے۔

مولانا سالم قاسمی ؒ خانوادۂ قاسمیؒ کے گل سرسبد، حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی ؒ کے خلف اکبرو جانشین، حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ کے پڑپوتے، علوم قاسمیہؒ کے امین و پاسباں اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرت علی تھانویؒ کے شاگردِ رشید و صحبت یافتہ تھے۔ آپؒ مؤرخہ 22جمادی الثانی سنہ 1344 ء بمطابق 8جنوری سنہ 1926 ء بروز جمعۃ المبارک کو ہندوستان کے مشہور ضلع سہارن پور کے معروف قصبہ دیوبند میں پیدا ہوئے۔

سنہ 1351 ہجری میں مولانا سالم قاسمیؒ نے اپنی ابتدائی تعلیم قرآنِ مجید سے شروع کی اور حضرت قاری شریف حسن گنگوہی ؒ سے ناظرہ و حفظ قرآنِ کریم کی تعلیم مکمل کی۔ پھرفارسی کی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور فارسی کا چار سالہ نصاب کی تکمیل مولانا محمد عاقل ؒ، مولانا محمد ظہیر ؒ اور مولانا سید محمد حسن ؒ وغیرہ فارسی کے جید اور ممتاز اساتذہ سے کی۔فارسی کا نصاب مکمل کرنے کے بعد سنہ1362ہجری میں آپ ؒ نے عربی نصاب کا آغاز کیا اور اُس وقت کے ماہر اور جید اساتذہ کی زیر نگرانی مختلف علوم و فنون کی تکمیل کرکے سنہ 1367 ہجری بمطابق 1948 عیسویں میں ازہر الہند دار العلوم دیوبند سے آپؒ نے دورۂ حدیث کا امتحان دے کرکے سند فراغت حاصل کی۔

مولانا سالم قاسمیؒ نے جن مشائخ و اساتذہ سے تعلیم و تربیت حاصل کی اُن میں سے مشہور اساتذہ کے نام یہ ہیں: شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ، شیخ الادب مولانا اعزاز علی دیوبندی ؒ، جامع المعقول والمنقول مولانا محمد ابراہیم بلیاوی ؒ، حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی ؒ، مولانا سید اختر حسین میاں ؒ، مولاناقاری محمد اصغر ؒ، مولاناعبد السمیع ؒ، مولانا عبد الاحد ؒ، اورمولانا سید فخر الحسن صاحبؒ وغیرہم۔ علاوہ ازیں آپؒ کوشیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اور سعودی عرب کے محدث جلیل شیخ عبد اﷲ بن احمد الناخیی سے حدیث کی اجازت بھی حاصل ہے۔

مولاناسالم قاسمی ؒ نے شروع میں بیعت و ارادت کا تعلق حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ سے قائم کیاتھا لیکن وہ اصلاح و تربیت اپنے والد ماجد مولانا قاری طیب قاسمی ؒ سے ہی لیتے رہے اور آخر کار اُنہیں کے مجازِ بیعت و ارشاد ہوکر اُن کے متوسلین اور خلفاء کی اصلاح و تربیت فرماتے رہے۔چنانچہ آپؒ سے سلوک و ارشاد میں تربیت و اجازت پانے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے اور اجازت پانے والوں کی تعداد سو سے متجاوز ہے۔

مولانا سالم قاسمیؒ کا دار العلوم دیوبند سے فراغت کے معاً بعد دار العلوم دیوبند ہی میں بطورِ مدرس تقرر ہوا۔ شروع میں ابتدائی عربی درجات کے بعض اسباق نور الایضاح اور ترجمۂ قرآن پاک وغیرہ آپؒ کے ذمیلگے، جب کہ بعد میں بڑے اسباق شرح عقائد ، ہدایہ، مشکوٰۃ، ابوداؤد اور بخاری شریف کے اسباق پڑھانے کی سعادت آپ کے حصے میں آئی۔

سنہ 1966 عیسویں میں مراسلاتی طریقۂ تعلیم کی بنیاد پر اسلامی علوم و معارف کو عصری جامعات کے طلبہ و طالبات کے لئے آسان بنانے کی غرض سے ’’جامعہ دینیات دیوبند‘‘ کے قیام میں، دار العلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے کام یاب انعقاد میں، اسی طرح آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام و تخطیط میں اور سنہ 1983 عیسویں میں بعض باہمی اختلافات کی بناء پر دار العلوم (وقف) دیوبند کے قیام و استحکام میں مولانا سالم قاسمیؒ کا انتہائی عظیم اور اہم ترین کردار رہا ہے۔

علاوہ ازیں مولانا سالم قاسمیؒ کے دورانِ تدریس دار العلوم دیوبند میں ایک تحقیقی شعبہ ’’مرکز المعارف‘‘ کا قیام عمل میں آیا جس کے آپؒ ذمہ دار مقرر ہوئے۔ اسی طرح سنہ 1983 ء سے لے کر سنہ 2014 ء تک دار العلوم (وقف) دیوبند کے مہتمم رہے۔ سنہ 2014 ء سے لے کر تاحال دار العلوم (وقف) دیوبند کے صدر مہتمم رہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عامل کے سابق رکن اور موجودہ سینئر نائب صدر رہے ۔ آل انڈیا مجلس مشاورت کے سابق صدر اور موجودہ سرپرست رہے۔آل انڈیا رابطۂ مساجد کے سرپرست رہے۔ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سرپرست رہے۔ مجلس شوریٰ مظاہر العلوم (وقف) سہارن پور کے سرپرست رہے۔ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی مجلس انتظامیہ و شوریٰ کے رکن رہے۔علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کاؤنسل کے سابق رکن رہے۔ ششماہی عربی مجلہ محکمہ ’’وحدۃ الامۃ‘‘ ، ماہنامہ اردو ’’ندائے دار العلوم (وقف) دیوبند، سہ ماہی انگریزی مجلہ ’’وائس آف دار العلوم‘‘ اور اندرون و بیرون ملک مختلف دینی و ملی مراکز اور اداروں کے نگران اور سرپرست رہے ۔

مولانا سالم قاسمی ؒ کی انہی دینی و علمی خدمات کو دیکھ کر مصر کے صدر جناب حسنی مبارک نے مصری حکومت کی طرف سے مصر کا سب سے بڑااعزاز ’’نوط الامتیاز‘‘ یعنیبرصغیر کے ممتاز عالم دین کا نشانِ امتیاز کا ایوارڈ آپؒ کو عطاء کیا۔ دوسرا اعزاز ’’جائزۃ الامام محمد قاسم النانوتویؒ (ترکی) آپؒ کو عطا کیا گیا اور تیسرا اعزاز ’’حضرت شاہ ولی اﷲؒ‘‘ آپؒ کو عطاء کیا گیا۔

مولانا سالم قاسمیؒ نے دیگر دینی و علمی خدمات کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا خوب مظاہرہ کیا ہے اور مندرجہ ذیل کتابیں تصنیف فرمائی ہیں: (۱) قرآنِ کریم کے اردو تراجم کا جائزہ (۲)تاج دارِ ارضِ حرم کا پیغام (۳) مردِ غازی (۴) ایک عظیم تاریخی کارنامہ (۵) رسالۃ المصطفیٰ (۶) سفر نامۂ برما (۷) مجاہدین آزادی (۸) مبادیٔ الترجمۃ الاسلامیۃ (عربی)

انسان دُنیا میں جتنا چاہے زندہ رہے لیکن ایک نہ ایک دن اُسے موت ضرور آنی ہے اور اُس نے آگے جاکر اپنے رب کے حضور پیش ضرور ہونا ہے، مولانا سالم قاسمی صاحبؒ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا کہ تقریباً نصف صدی تک قال اﷲ اور قال الرسول کی صدائیں لگاتے لگاتے آخر کار اُنہوں نے بھی آج مؤرخہ 14 ؍ اپریل سنہ 2018 عیسویں بمطابق 27 رجب المرجب سنہ 1439 ہجری بروز ہفتہ داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیا ا ور سفرِآخرت کے لئے روانہ ہوگئے۔ انا ﷲ واناالیہ راجعون۔ اب جب کہ یہ سطور لکھی جارہی ہیں یقینا مولانا سالم قاسمی ؒ کی نمازِ جنازہ کی ادائیگی اور اُن کی تدفین کا عمل کیا جارہا ہوگا۔ اِس لئے اِس خاص موقع پر اﷲ تعالیٰ سے دُعاء ہے کہ وہ اُنہیں کروٹ کروٹ سکھ ، چین اور راحت والی زندگی نصیب فرمائے اور پیچھے اُن کے لواحقین و متوسلین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم۔

Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 254057 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.