کوہستان میں خواتین کے لیے موبائل فون موت کی علامت

خیبر پختونخواہ کے شمالی ضلع کوہستان میں خواتین کو موبائل فون رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔

علاقائی روایات کے مطابق اس ضلع میں خواتین کے لیے موبائل فون کا استعمال ممنوع ہے جبکہ اس کی سزا موت بتائی جاتی ہے جسے غیرت کے نام پر قتل قرار دیا جاتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اب تک اس علاقے میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں لیکن سزا آج تک کسی کو نہیں ہوئی ہے۔
 

image


پٹن کے علاقے پالس سے تعلق رکھنے والے فیاض نے بی بی سی کو بتایا کہ چند سال قبل ان کے چچا زاد بھائی قاری الیاس اور ایک لڑکی کو موبائل فون پر بات کرنے کے الزام میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ جس کے بعد اب یہ ایک بڑا تنازع بن گیا ہے جس میں اب تک فریقین کے سات افراد قتل ہو چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ملزمان جیل سے باہر ہیں جبکہ کیس تا حال عدالت میں زیر سماعت ہے جس میں عنقریب راضی نامہ ہونے کا امکان ہے-

کوہستان لوئر کے ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس علاقے میں ایسے کئ واقعات پیش ائے ہیں۔ تاہم علاقائی روایات کو جواز بنا کر کوئی بھی مقدمے کے اندراج کے لیے تھانے میں نہیں آتا اور نہ پولیس کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔

پولیس اہلکار کا مذید کہنا تھا کہ پولیس اس روایت کو ختم کرنے کے لیے اسی صورت میں اقدامات کر سکتی ہے جب کوئی متاثرہ خاندان یا خاتون پولیس کو رپورٹ کریں۔ چونکہ اس علاقے میں خواتین کا بغیر مردوں کے گھروں سے نکلنا بھی ممنوع ہے اس لیے آج تک کسی نے پولیس کے پاس شکایت درج نہیں کی۔

محمد حفیظ کا تعلق کوہستان کے علاقے داسو سے ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ کوہستان میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح دیگر اضلاع کی نسبت اسی وجہ سے کم ہے کہ یہاں خواتین کو موبائل فون رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن یہاں کی خواتین اپنے شوہر کے موبائل سے اپنے والدین سے بات تو کر سکتی ہیں لیکن اِس کے علاوہ وہ موبائل فون استعمال نہیں کر سکتیں۔ محمد حفیظ کا کہنا تھا کہ اگر کسی خاتون کے پاس موبائل فون مل جاتا ہے اور تحقیق سے پتہ چل جاتا ہےکہ یہ باہر سے آیا ہے تو پھر معاملہ سنگین صورت حال اختیار کر لیتا ہے۔

کوہستان پولیس کے ڈپٹی سپرینٹینڈنٹ الطاف مشوانی نے بی بی سی کو بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل کے چار کیسز پولیس کے پاس آئے ہیں لیکن یہاں زیادہ تر کیس مقامی طور پر بنے ہوئے جرگے ہی حل کرتے ہیں اور اس میں راضی نامے ہو جاتے ہیں۔ اس سوال پر کہ اب تک غیرت کے نام پر قتل میں ملوث کسی ملزم کو گرفتار کیا گیا اور سزا ہوئی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ پولیس کوشش تو کرتی ہے کہ گرفتاریاں ہوں لیکن علاقے دور دراز اور پہاڑی ہیں جہاں پہنچنے کے لیے دس دس گھنٹے لگتے ہیں تو واقعے کے بعد ملزم فرار ہو جاتے ہیں۔

دوبیر سے تعلق رکھنے والے جاوید کہتے ہیں کہ اب بدلتے وقت کے ساتھ رویوں میں بھی تبدیلی آ رہی ہے اور اب بعض دیہات میں کچھ لوگ گھروں میں موبائل رکھنے لگے ہیں لیکن زیادہ تر گھر کی بڑی عمر کی عورتیں ہی استعمال کرتی ہیں۔
 

image


پٹن میں سڑک کنارے کھڑے چند نوجوانوں نے بتایا کہ پہلے یہاں موبائل فون کے استعمال کی اتنی سختی سے ممانعت نہیں تھی لیکن چند واقعات اور خصوصا ایک ویڈیو سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوئی۔

خیال رہے کہ سنہ 2012 میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے ایک گاؤں میں ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں کچھ لڑکے رقص کر رہے تھے اور پانچ لڑکیاں تالیاں بجا رہی تھیں جنھیں مبینہ طور پر مقامی جرگے کے فیصلے کی روشنی میں قتل کر دیا گیا تھا۔


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE:

It has been many years since a case of ‘honour’ killing in Kohistan shook the nation – not only for the senseless murders but also for the mystery surrounding the case and the cover-ups that ensued. It all started after shaky footage, seemingly shot on a mobile phone, showing a group of young women clapping and singing as two men danced during a wedding ceremony in 2012, became public.