توحید باری تعالی : اہل سنت کی نظر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
توحیدِ باری تعالیٰ ۔۔۔اَہلِ سنت کی نظرمیں

اِفادات: محققِ اہلِ سنت شیخ نزار بن علی حمادی تیونسی حفظہ اللہ تعالیٰ
تشریح و ترجمانی: مدثر جمال تونسوی ۔ استاذ العقیدۃ و الحدیث جامعۃ الصابر، بہاولپور

اس پر تمام ملل و مسالک کا اتفاق ہے کہ دین و مذہب میں سب سے اہم چیز ’’عقیدہ توحید‘‘ ہے۔ یہی باقی پورے دین و مذہب کی بنیاد و اساس ہے اور اسی پر شریعت ومذہب کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر علمائے اسلام نے عقیدہ توحید کی وضاحت میں انتھک کوششیں فرمائی ہیں اور مختلف انداز سے اس عقیدے کو پیش کیا ہے تاکہ ہر سطح ذہن کے انسان کے لیے اس اہم ترین عقیدے کو اپنے ذہن میں جگہ دینا اور اس میں صحیح منزل تک پہنچنے کا سامان ہوسکے۔

عقیدہ توحید باری تعالیٰ جس قدر آسان ہے ، علمی تحقیق و تدقیق میں اُسی قدر پیچیدہ بھی ہے اور ہر عام فہم چیزکا معاملہ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ وہ ایک طرف سے بہت ہی آسان ہوتی ہے اور دوسری جانب سے وہ کافی پیچیدہ ہوتی ہے۔

چنانچہ مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مثال یوں دی : جیسے ’’گلاس‘‘ ایک ایسی حقیقت اور بدیہی چیز ہے کہ بچے اور اَن پڑھ لوگ بھی اس کی حقیقت اور مصداق کو اچھی طرح جانتے ہیں لیکن اگر اسی ’’گلاس‘‘ کی فنی و علمی تعریف کسی بڑے سے بڑے صاحبِ علم سے بھی پوچھ لی جائے تو وہ کافی سوچ و بچار کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔

بس یہی حال کچھ عقیدہ توحید کا بھی ہے، ایک طرف اس کی حقیقت اس قدر بدیہی ہے کہ جو انسان بھی اس لفظ کو سنتا ہے تو اس کا ایک مفہوم فوراً اُس کے ذہن میں آجاتا ہے جب کہ دوسرے لمحے اگر اس کی علمی تعریف پوچھ لی جائے تو کافی سوچ بچار کرنا پڑتی ہے اور یہی سبب ہے کہ اگر آپ علمائے اسلام کی کتب تفسیر ، کتب حدیث، کتب فقہ اور کتب تصوف و کلام میں ’’توحید‘‘ کی تعریف دیکھنا شروع کریں تو بلاشبہ درجنوں تعبیرات آپ کو سامنے آموجود ہوں گی۔

الغرض عقیدہ توحید کی اہمیت کے پیش نظر مناسب معلوم ہوا کہ بندہ ناچیز کے سامنے اس کی جو جامع تحقیق و تفصیل آئی ہے ، اس کو قلم بند بھی کرلوں اور اگر ہوسکے تو اپنے دیگر طلبہ علم اور مسلمان بھائیوں کی خدمت میں بھی پیش کردوں۔ بس اسی لیے یہ چند سطور لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ و اللہ الموفق و ھو الہادی
توحید کی چار بنیادی اَقسام ہیں:
(۱)توحیدِ عبادت
(۲)توحیدِ الوہیت
(۳)توحیدربوبیت
(۴)توحیدِ اسماء و صفات
۔۔۔۔۔۔
اب ان میں سے ہر قسم کی قدرے تفصیل ملاحظہ کیجیے۔
توحیدِ عبادت:
اس کی تعریف ان الفاظ میں کئی گئی ہے:
افرادہ تعالیٰ باستحقاق التوجہ الیہ بمنتہی التذلل و الخضوع و الانقیاد مع اعتقاد انفرادہ بالاتصاف بصفات الالوہیۃ و الربوبیۃ واستحقاقہ للاسماء الحسنیٰ
اللہ تعالیٰ کو صفاتِ الوہیت، صفات ربوبیت اور اچھے ناموں اور صفات سے متصف ہونے میں یکتا سمجھتے ہوئے، اپنی انتہاء درجے کی تذلل و عاجزی اور پیروی کے ساتھ فقط اُسی کی طرف متوجہ ہونا۔
ممکن ہے کہ اس اردو ترجمے سے بات پوری واضح نہ ہوئی ہو، اس لیے اس درج ذیل نکات میں سمجھیے:
اللہ تعالیٰ کو صفاتِ الوہیت(اس کی وضاحت دوسری قسم میں آرہی ہے)میں یکتا سمجھنا
اللہ تعالیٰ کو صفاتِ ربوبیت (اس کی وضاحت تیسری قسم میں آرہی ہے) میں یکتا سمجھنا
اللہ تعالیٰ کے اچھے ناموں اور اچھی صفات میں اسے یکتاسمجھنا(اس کی وضاحت چوتھی قسم میں آرہی ہے)
ان تین باتوں کا یقین اور عقیدہ رکھتے ہوئے یہ عقیدہ رکھنا کہمجھے جس ذات کے سامنے انتہاء درجے کی ذلت، انتہاء درجے کی عاجزی اور انتہاء درجے کی پیروی کرتے ہوئے متوجہ ہونا چاہیے وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
مزید آسانی کے لیے اسے درج ذیل چار باتوں میں دیکھیے:
رب صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھنا
اِلہ صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھنا
اچھے ناموں اور اچھی صفات کا حقیقی مستحق صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھنا
ان تین باتوں کایقین رکھتے ہوئے پھر انتہائی تذلل ، انتہائی عاجزی اور انتہائی پیروی کرتے ہوئے صرف اُسی کی طرف متوجہ ہونا
یہ چار باتیں ملتی ہیں تو ’’توحید عبادت‘‘ متحقق ہوتی ہے اور اگر کوئی ان چارباتوں میں سے کسی بھی بات میں خلل ڈال دے تو اس کی ’’توحید عبادت‘‘ متحقق نہیں ہوسکتی۔
توحیدِ اُلُوہِیَّتْ:
اس کی تعریف درج ذیل ہے:
افرادہ تعالی بوجوب الاتصاف بالصفات الدالۃ علی استغناۂ عن کل ماسواہ
یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اُن تمام صفات سے ، ہمیشہ سے متصف ہے اور ہمیشہ متصف رہے گا، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے ماسواء ہرچیز سے بے نیاز اور مستغنی ہے۔
ایسی صفات جو اللہ تعالی کے ماسواء سے مستغنی اور بے نیاز ہونے کو ظاہر کرتی ہیں درج ذیل ہیں:
واجب الوجودہونا
قدیم (جس کی ابتداء نہ ہو)ہونا
باقی (جس کی انتہاء نہ ہو) ہونا
مخلوقات اور مُحدَثات کی مشابہت و مماثلت سے پاک ہونا
اپنی ذات سے قائم ہونا(اپنے وجود میں کسی اور کا محتاج نہ ہونا)
سمیع ہونا
بصیر ہونا
متکلم ہونا
توحیدِ ربوبیت:
اس کی تعریف درج ذیل ہے:
افرادہ تعالیٰ بوجوب الاتصاف بالصفات الدالۃ علی افتقار کل ماسواہ الیہ
یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اُن تمام صفات سے ہمیشہ سے متصف ہے اور ہمیشہ متصف رہے گا جواس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اُس کے ماسواء جو کچھ بھی ہے وہ سب کا سب اس کا محتاج ہے۔
ایسی صفات جو یہ بتلاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ اُسی اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے ، درج ذیل ہیں:
اللہ تعالیٰ کی قدرت
اللہ تعالیٰ کا اِرادہ
اللہ تعالیٰ کا علم
اللہ تعالیٰ کی حیات
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت: پھر اس وحدانیت کی چھ قسمیں ہیں:
اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی سے کم منفصل فی الذات کی نفی
اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی سے کم متصل فی الذات کی نفی
اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی سے کم منفصل فی الصفات کی نفی
اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی سے کم متصل فی الصفات کی نفی
اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی سے کم منفصل فی الافعال کی نفی
اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی سے کم متصل فی الافعال کی نفی
یہ کم متصل اور کم منفصل علمی اصطلاحات ہیں اور ان کی تفصیل سمجھنا قدرے مشکل بھی ہے اور مفصل بھی۔ اس لیے یہاں صرف خلاصے کی بات عرض کرتا ہوں کہ کم عربی لغت میں مقدار کو کہتے ہیں اور اصطلاح میں یہ عوارض کی اَقسام میں سے ایک قسم ہے اور عوارض جمع ہے عرض کی اور عرض اُس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے وجود کے ساتھ قائم نہ ہو بلکہ اپنے وجود میں کسی محل کی محتاج ہو۔ مثلا مختلف رنگ چنانچہ سفید رنگ ہویا سیاہ تو وہ کسی نہ چیز کے ساتھ مل کر پائے جاتے ہیں مثلا پتھر میں یا کپڑے میں وغیرہ وغیرہ۔
تو اب خلاصہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو، صفات کو، اور افعال کو، سب کو ہر قسم کے ’’عوارض‘‘ سے پاک سمجھاجائے۔
توحیدِ اَسماء و صفاتِ حُسنیٰ:
اس کی تعریف درج ذیل ہے:
اعتقاد انفرادہ تعالیٰ باستحقاق کمال معانیہا و عدم استحقاق غیرہ لایّ اسم منہا حقیقۃ و اعتقاد انہ سمی نفسہ بہا ازلا بکلامہ القدیم ا لازلی
یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اسماء وصفاتِ حسنی کے ساتھ یکتااور کامل طور پر متصف ہے، اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی اُن اسماء وصفات میں سے کسی اسم و صفت کا حقیقی طور پر مستحق نہیں ہے، اور یہ اعتقاد بھی رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے ازل میں ہی اپنے ازلی قدیم کلام کے ساتھ اپنے یہ نام رکھے ہیں اوروہ ان کے ساتھ متصف ہے۔
اس کی مزید وضاحت درج ذیل چار نکات میں دیکھیے:
اللہ تعالیٰ اپنے اسماء و صفاتِ حُسنیٰ کے ساتھ کامل اور یکتا طور پر متصف ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں سے کسی بھی اسم و صفت کے ساتھ اُس کے ماسوا میں سے کوئی بھی حقیقی طور پر متصف نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے جو اچھے نام اور اچھی صفات بیان فرمائی ہیں یہ نام اُسے کسی اور نے نہیں دیے بلکہ خود اسی نے ازل سے ہی اپنے لیے یہ نام رکھے ہیں اور مخلوق کو بتلائے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ازل سے اپنے لیے جو اچھے نام رکھے ہیں وہ اپنے ہی کلام سے رکھے ہیں جو کلام کہ اَزلی بھی ہے اور قدیم بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بحث بظاہر بہت پیچیدہ اور مشکل معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ علمائے اسلام نے اس مسئلے کی تہہ میں اس قدر باریکی تک اس لیے اُترے ہیں تاکہ اسلام کے اس اہم ترین عقیدے کاکوئی گوشہ تشنہ نہ رہ جائے ، اور حقیقت یہ ہے کہ جو طالب علم اور جو بھی صاحبِ علم اس تحقیق کو اچھی طرح دیکھے گا، اور دل میں اخلاص رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اس کی سمجھ مانگے گا تو وہ یقیناًایک خزانہ مثالیہ سے مالا مال ہوجائے گا۔
یہ تحقیق کوئی عام سی اور سرسری سی تحقیق نہیں ہے بلکہ محقق جلیل شیخ نزار حمادی حفظہ اللہ تعالیٰ کی برسوں کی کاوشوں اور اہل سنت و مخالفین اہل سنت کے تراث عقدیہ سے پرگہری نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد پیش کی گئی تحقیق ہے۔
مجھے امید ہے کہ اہل علم اسے اپنے غور و فکر اور تحقیق و تدقیق کی جولانگاہ بنائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت و توحید کے بحر بے کنار میں غوطہ زن ہوں گے۔
و اللہ الموفق وھو الہادی
وصلی اللہ علی سیدنا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
۔۔۔۔۔۔
کتبہ ببنانہ : مدثر جمال تونسوی
۶رجب ۱۴۳۹ھ۔ بروز ہفتہ
 

mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 340734 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.