باﺅنڈری کے اس جانب۔۔

٢٥مارچ کو پی ایس ایل کا فائنل ہوا اور اسی روز ٥٠ گھرانوں کے ٥٠٠ سے زائد افراد نے اسلام قبول کیا۔اسی حوالے سے لکھی جانےوالی خصوصی تحریر۔۔۔۔

اسلام قبول کرنے والے افراد کا گروپ فوٹو

وطن عزیز کی تاریخ کرکٹ میں جو مقام اس کھیل کو اس وقت حاصل ہوا ہے ماضی میں نہیں رہا۔ ہاں ماضی میں جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے عمران خان کی قیادت میں عالمی کپ کو جیتا تھا اس وقت عوامی جذبات کو قابل تعریف کہا جاسکتا ہے۔ بہرحال لفظ باﺅندڑی جب بھی سامنے آتا ہے تو ذہن میں کرکٹ کا میدان اور اس میدان کے گرد لگائی گئی حدود سامنے آجاتی ہیں۔ بلے بازی کرنے والے کی کاوش ہوتی ہے کہ وہ باﺅلر کی گیند کو اس باﺅنڈری کے باہر تک پہنچائے۔ اس عمل کے ذریعے اس بلے باز کے ذاتی اسکور کے ساتھ پوری ٹیم کے اسکور میں بھی اضافہ ہوگا۔ یہ معاملہ الگ ہے کہ گیند بلے باز کے بلے سے لگنے کے بعد باﺅنڈری کے باہر ٹپا کھا کر جاتی ہے یا بغیر ٹپے کے وہ باﺅنڈری کو کراس کرتی ہے۔رنز میں اضافہ دونوں صورتوں میں بلے باز، اس کی پوری ٹیم کا ہی ہوتا ہے۔ باؤلرکی اول تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ بلے باز کے پیچھے لگی وکٹ کو اڑا دے، اس بلے باز کو کسی بھی طرح سے آؤٹ کردے۔ ایک رن اور کئی رنز بنانے سے وہ بلے باز کو روکنا چاہتا ہے ۔باﺅنڈری کے باہر بلے باز کی لگائی گئی شاٹ کو روکنا میدان کرکٹ میں فیلڈرز کا کام ہوتاہے جن کی بھی یہی کاوش ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح سے بلے باز کو باﺅنڈری کے اندر ہی آوٹ کردے۔

گوکہ اس سے قبل پاکستان سپر لیگ کے دو ٹورنامنٹ ہوچکے ہیں تاہم جس طرح سے یہ تیسرا ٹورنامنٹ ہوا ہے اس کی نہ صرف بات ہے،تھی ،اور رہے گی۔ کرکٹ بورڈ سے لیکر ذرائع ابلاغ تک، صدر سے لے کر سپہ سالار تک، اک عام سیاسی و مذہبی جماعت کے کارکن سے لے کر رہنماﺅں تک غرض ہر اک اس پی ایس ایل کی کامیابی کیلئے دل کی اتھاہ گہرائی سے محنت کرتارہا اور اسی محنت کے نتیجے میں پی ایس ایل کا یہ ٹورنامنٹ کو انتہا درجے کی کامیابی حاصل ہوئی۔ زندہ دلان لاہور میں دو میچ اور شہر قائد میں ایک میچ وہ بھی فائنل نے پوری قوم کواپنی جانب مبذول رکھا ۔ پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد کے بعد یہ قوی امید ہے کہ اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔

کرکٹ کے کھیل میں لفظ باﺅنڈری اہمیت کا حامل تھا ، ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ اس لفظ باﺅنڈری کو پی ایس ایل کے فائنل کے دن راقم نے اک اور جگہ سنا اور وہ الفاظ کچھ اس طرح تھے کہ ہمیں بے حد خوشی ہے کہ ہم باﺅنڈری کے اس طرف آگئے ہیں۔ پہلے جس باﺅنڈری میں تھے وہاں ہم کھبی خوش نہ رہے ، مصائب ، مشکلات ، پریشانیاں اور ذات پات کی نہ ختم ہونے والی صعوبتیں ہم سہے جارہے تھے اور ان کے ختم ہونے کا کوئی امکان نہ تھا ۔ بہرحال ہم سب سے زیادہ تو اس باﺅنڈری کے اس طرف اور اس طرف ، اس سے بڑھ کر پاکستان کے، ہندوستان کے ، اس سے بھی بڑھ کر پوری دنیا کے اور اس سے بھی بڑھ کر کائنات کے خالق و مالک کا شکرادا کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں گے کہ جس نے ہمیں یہ شعور دیا یہ سمجھ دی اور فیصلہ کرنے کی بھی توفیق دی کہ ہم شعوری طورپر تنہا نہیں پورے گھرانے کے ساتھ اور اس میں چند گھرانے ان کے افراد نہیں بلکہ 50 گھرانوں کے 500 سے زائد افراد ہندومت کی باﺅنڈری کو توڑ کر ، چھوڑ کر اسلام کی باﺅنڈری میں آگئے۔ الحمداللہ ہم نے، ہم سب نے کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کرلیا اور اس طرح سے ہم آج جب کہ پی ایس ایل کا فائنل ہورہا ہے، ہم نے اس فائنل کے دن اسلام کی حدود میں آکر جیت کا اعلان کردیا ۔اب ہم اسلام کی باﺅنڈری میں آگئے ہیں ۔

18سال کے اسلام کی باﺅنڈری میں آنے والے اب رحیم بحش ہوگئے ہیں جو کہ اس باﺅنڈری میں رام سنگ تھے، اور 22سالہ ہاشم اب محمد ہاشم ہوگئے ہیں اسی طرح ضلع بدین میں ماتلی شہر کے ماشاءاللہ شادی ہال میں خواتین و بچوں سمیت جوان و نوجوان بڑی تعدا میں موجود تھے جو کہ 25مارچ کو اسلام کی باﺅنڈری میں مدرسہ قاسمیہ کے مفتی رمضان سومرو سے کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد داخل ہوئے۔ اس پررونق شاندار اور انسانیت کے احساسات سے مزین محفل میں ماتلی کی معروف سماجی، سیاسی شخصیت پیر سجاد سعید جان سرہندی اور امتیاز شیح سمیت خدمت امت فاﺅنڈیشن کے محمد علی شیخ، عزیز بروہی، مولاناطاہر اشرف بندھانی، حافظ ناصر اور شہزاد بھی موجود تھے۔ 40ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی کے باوجود اس وقت کا موسم دین کی محبت میں اچھا محسوس ہورہا تھا ۔ سبھی اس اقدام پر انتہا درجے کی خوشی محسوس کررہے تھے کہ ان کی محنتوں کے نتیجے میں ہندوﺅں نے اپنے بتوں کی پوجا پاٹ کو چھوڑ کر اسلام قبول کیا اور اسلام کو قبول کرنے کے بعد ان کی خوشی دیدنی تھی۔ انہیں جب تحفے میں قرآن عظیم شان دیا جاتا تو وہ اسے بوسہ دیتے اور سروں پر ٹوپی رکھ کر اسٹیج سے نیچے آتے۔ ان کے چہروں پر خوشی ان کے جذبات کی ترجمان تھی۔

پی ایس ایل کا فائنل 25مارچ کو شہر قائد میں منعقد ہوا اور ماضی میں جب عمران خان کی قیادت میں کرکٹ ٹیم نے فائنل میں برطانیہ کی ٹیم کو شکست دی تھی وہ دن بھی وہ تاریخ بھی 25مارچ کی ہی تھی۔ اس طرح سے ذرائع ابلاغ اس تاریخ کو ماضی کی تاریخ ساز تاریخ سے جوڑ کر اپنا کردار ادا کر رہے تھے ۔ جذبات احساسات اس بات سے عاری تھے کہ کون سی ٹیم میدان میں فتح مند ہوئی بلکہ سب کے ہی احساسات تو یہ تھے کہ جیت پاکستان کی ہوئی ہے۔ طویل مدت سے دہشت گردی کی جنگ کے خلاف لڑتے لڑتے جس انداز میں کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں اسی طرح اس فائنل میچ کو منعقد کرکے پوری قوم نے نہ صرف میچ جیتا ہے بلکہ دہشت گردی کو بھی شکست دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وطن عزیز میں آئے ہوئے غیر ملکی کرکٹرز بھی دل جیت کے گئے ہیں اور عوام کے بھی دل کر گئے ہیں ۔

اس تاریخ ساز دن کی اہمیت اس طرح سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ماتلی میں 50 گھرانوں کے 500سے زائد افراد نے بھی بھارت کی، ہندﺅمت کی، باﺅنڈری کو چھوڑ کر اسلام کی باﺅنڈری میں شمولیت حاصل کی ہے۔ اپنے عمل کے جنون کو نو مسلموں نے اس طرح سے اجاگر کیا کہ ہم باﺅنڈری کے اس طرف آگئے ہیں۔ لہذا 25مارچ کا دن اک تاریخ ساز دن بن گیا ہے، اس دن ماضی میں جہاں دنیائے کرکٹ کی سب سے بڑی ٹرافی پاکستان کے ہاتھ میں آئی اسی طرح اسی تاریخ کو پی ایس ایل کا فائنل بھی کامیابی و کامرانی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا اور اسی تاریخ کو پانچ سو سے زائد ہندوﺅں نے بھی ہندو مت کو چھوڑ کر اسلام کی باﺅنڈری میں شمولیت اختیار کی۔

خدمت امت فاﺅنڈیشن کراچی نے نومسلم گھرانوں کیلئے جہاں طعام کا اہتمام کیا وہیں پہ انہیں قرآن پاک سمیت ٹوپی و دیگر اک ماہ کا راشن تک ہدیتہ و تحفتہ دیا ۔ تاریخی مذہبی تقریب میں شرکت کیلئے شہر قائد سے متعدد صحافی و دیگر شعبہ زندگی کے افراد ماتلی گئے۔ شدید گرمی کو ایک جانب رکھ کر متعدد حضرات نومسلموں سے ملاقات اور ان کے احساسات و جذبات کو دیکھنے ان کے خیالات کو سننے کیلئے کلمہ شہادت کی اس تقریب میں شریک ہوئے اور یہ تقریب ان کیلئے ان سبھی کیلئے تاریخ ساز رہی ۔

امید واثق ہے کہ جس طرح محنت کر کے پی ایس ایل کو کامیابی حاصل ہوئی ہے اسی طرح نو مسلموں کو باﺅنڈری کے اس طرف لانے کی محنت بھی کامیاب ہوئی ہے ۔ اس کے دور رس مثبت نتائج جہاں میدان کرکٹ میں مرتب ہونگے وہیں پہ اسلام کی باﺅنڈری میں آنے والوں کے لئے مثبت اثرات نہ صرف ان کی زندگی میں مرتب ہونگے بلکہ عام معاشرے میں سامنے آئیں گے۔ اسلام انسانیت کا دین ہے اور اسی دین پر عمل پیرا ہونے میںکامیابی و کامرانی ہے۔

YOU MAY ALSO LIKE:

25th March has become a milestone in the history of Pakistan for all the right reason. It is the day when Pakistan lifted the world cup back in 1992, and then in present year on the same date two other significant events took place. Pakistan was able to host PSL 3 final in Karachi with peace and harmony, and 500 people of 50 families of Matli accepted Islam.