ڈپریشن

تحریر۔۔۔ ڈاکٹر فیاض احمد لندن
زندگی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ ہے اس میں اتار چڑھاؤ تو بہت آتے ہیں جو اس کو خوبصورت بناتے ہیں اور ان کو خوش اسلوبی سے حل کرنا ہی ہمارے ایمان کا حصہ ہے جو ہونا ہے وہ ہو کر ہی رہے گا اور جو نہیں ہونا وہ نہیں ہو گا اس کے لیے چاہے ہم جتنی بھی کوشش کر لیں اس لیے ہمیں ہر حال میں خوش رہنا چاہیے زندگی میں پچھتاوا نام کی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے یہ پچھتاوا ایک ایسی چیز ہے جو بظاہر تو کچھ بھی نہیں لیکن اس کا زندگی میں بہت گہرا تعلق ہے یہ زندگی کی رنگینیوں کو تباہ کر دیتی ہے اگر یہ مسلسل رہے تو ایک ذہنی تناؤ پیدا کر دیتی ہے اور مختلف قسم کی منفی سوچیں جنم لیتی ہیں جن میں زیادہ تر کا وجود ہی نہیں ہوتا زیادہ دیر تک منفی سوچوں کا اکٹھا رہنا انسانی دماغ کے خلیوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے جس سے دماغ ڈپریشن کا شکار ہو جاتاہے ڈپریشن دراصل ایک ذہنی دباؤ یا تناؤ کا نام ہے اگر انسان ایک لمبے عرصے تک اس میں مبتلا رہے اس سے بہت سی قسم کی بیماریاں جنم لیتی ہے یہ لگاتار ذہنی دباؤ کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے مثال کے طور پر ناخوش رہنا احساس کمتری ۔ نیند کا نہ آنا ۔ انرجی کی کمی اور دوسرے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں
اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشان کیوں
وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دے

ڈپریشن کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں اور ان سب کی وجہ سے انسان احساس کمتری کا شکار ہونا شروع ہو جاتا ہے قوت ارادی ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے لیکن یہ سب کچھ کسی خاص وجہ سے ہوتا ہے ڈپریشن کا شکار رہنے سے انسان میں بے چینی ۔ ناامیدی۔ بے بسی اور منفی سوچ آنے لگتی ہے ڈپریشن ہر انسان کو ہر عمر میں لاحق ہو سکتا ہے جب انسان اس کی لپیٹ میں آتا ہے تو دنیا کی تمام سہولیات کے باوجود بھی انسان کو سکون نہیں ملتا کچھ لوگوں کی زندگی میں یہ ایک دفعہ ہوتا ہے لیکن بعض لوگوں کی زندگی میں اس کے اثرات باربار مرتب ہوتے ہیں ڈپریشن کے ایک دفعہ کے جھٹکے کے اثرات کم از کم چھ ماہ سے لے کر ایک سال تک رہتے ہیں ڈپریشن میں رہنے والا اپنے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے مثلاً فیملی اور قریبی دوستوں پر بھی گہرے اثرات پڑتے ہیں آجکل ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے بہت سے لوگ ڈپریشن کا شکار ہورہے ہیں ان میں سرفہرست معاشرتی سماجی خاندانی اور بہت سے جہیز اور بے روزگاری جیسے مسائل جو ہماری خوشگوار زندگی کو ناخوش بنا کر ہمیں ڈپریشن کا شکار کر دیتے ہیں جیسے کہ والدین کا اولاد کے لیے۔ عورتوں کا شادی کے لیے۔ بے روزگاری وغیرہ وغیرہ اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں پر حد سے زیادہ پڑھائی کا دباؤ اور والدین کی ضرورت سے زیادہ بچوں پر امیدیں جیسا کہ ہر والدین خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ بڑا آفیسر بنے یا ڈاکٹر یا انجینیئر بنے حالانکہ ہر بچے کی دماغی صلاحیت دوسرے بچے سے مختلف ہوتی ہے والدین کی بے جا خواہشات کی وجہ سے بچہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے اور یہی احساس کمتری ڈپریشن کا باعث بنتی ہے ہمیں چاہیے کہ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو پہچانے اور اس کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت کریں تو بچے ڈپریشن کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بچپن کا ڈپریشن عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے اور جوانی میں بہت سی بیماریوں اور مسائل کا سبب بنتا ہے مثال کے طور پر اس میں خود اعتمادی تو بالکل ہی نہیں ہوتی اور وہ اکیلے پن کا شکار ہوجاتا ہے
رہی تعلیم مشرق میں ، نہ مغرب میں رہی غیرت
یہ جتنے پڑھتے جاتے ہیں ، جہالت بڑھتی جاتی ہے

ڈپریشن کا شکار لوگوں میں تھکن ۔قوت برداشت میں کمی۔ حد سے زیادہ بے چینی۔ دوسروں سے لاتعلقی۔ بے خوابی۔ کوئی کام نہ کرنے کو دل کرنا۔ مرنے کی خواہش ۔ موت کا خوف۔ مردانہ طاقت میں کمی۔ بلڈپریشر اور جسم میں دردیں وغیرہ جیسی علامات ہوتی ہیں اگر ان میں سے کوئی سی بھی چار علامت پائی جائیں تو فوری طور پر قریبی ڈپریشن سنٹر سے رابطہ کریں ڈپریشن بعض دفعہ جسمانی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن عام طور پر مختلف مزمن امراض یعنی دل کی بیماریاں اور کینسر وغیرہ کے مضر اثرات کے نتیجے میں ہوتا ہے بعض دفعہ بظاہر اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی ڈپریشن کی علامات ہوتی ہیں یہ ایک خاص قسم ہوتی ہے جو دماغی تناؤ سے ہوتی ہے یعنی حد سے زیادہ اعتماد ہونے پر ٹوٹنا پیارومحبت میں ناکامی اور بہت سے اندرونی مسائل وغیرہ ڈپریشن کی نوعیت اور دورانیے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو بہت سی قسموں میں تقسم میں کیا جاتا ہے

نارمل ڈپریشن
یہ ایک عام قسم کا ڈپریشن ہے جس میں ہر دوسرا فرد مبتلا ہے لیکن یہ کچھ وقت کے لیے ہوتا ہے اس سے کچھ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور فوری طور پر غائب ہوجاتے ہیں

خاص
یہ ڈپریشن کی ایک خاص قسم ہے جس کے روزمرہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں مثلاً کھانے پینے اور سونے وغیرہ یہ بعض لوگوں میں صرف ایک دفعہ اور بعض میں کئی دفعہ واقع ہوتا ہے یہاں تک کہ ہسپتال تک کی نوبت آجاتی ہے

بی پولر ڈپریشن
یہ ڈپریشن کی بہت ہی خاص اور خطرناک قسم ہے اس میں انسان خودکشی کی طرف راغب ہوتا ہے اور بعض دفعہ تو اپنے آپ کو کنٹرول ہی نہیں کر سکتا یعنی مایوسی کا حد سے زیادہ بڑھ جانا

پوسٹ ناٹل ڈپریشن
اس قسم کا ڈپریشن زیادہ تر بچہ پیدا کرنے کے بعد اکثر عورتوں میں ہوتا ہے یہ ان عورتوں میں ہوتا ہے جو بہت حساس ہوتی ہیں ان میں قوت برداشت بہت کم ہوتی ہے ان میں بے خوابی پائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ موت کا خوف بھی ہوتا ہے بعض عورتوں میں یہ خوف ہوتا ہے کہ ان کے بچے کو کوئی مار دے گا یہ تقریباً دس فیصد عورتوں میں پایا جاتا ہے اور اس کے اثرات دو سے تین ہفتے تک رہتے ہیں

علاج
ڈپریشن کے علاج کے لیے بہت سے طریقے اپنائے جاتے ہیں اور بہت سی قسم کی ادویات کا بھی استعمال کیا جاتا ہے اس میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل علاج تھراپی کا ہوتا ہے

علاج بذریعہ تھراپی
بات چیت۔ اس میں روزمرہ کے مسائل کو بات چیت کے ذریعے سے حل کیا جاتا ہے جس سے مریض کے ابتدائی منفی اثرات کو باتوں سے ختم کیا جاتا ہے

کنیٹو تھراپی
اس میں مریض کے اندر حد سے زیادہ مایوسی اور منفی اثرات ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا دورانیہ بھی زیادہ ہوتا ہے اس کی بنیادی وجہ تلاش کرکے علاج کیا جاتا ہے

سائیکوتھراپی۔ اس میں مریض کی نوعیت اور مرض کا دورانیہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے مریض کو اس کی مرض کے مطابق ماحول دیا جاتا ہے اور اس کی پچھلی زندگی کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے مریض اندر سے مکمل ٹوٹ جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے اس کو اندر سے مضبوط بنانا اور اس میں مثبت اثرات کو مرتب کرنا اور بعض دفعہ اس کے ساتھ کچھ ادویات کا استعمال بھی کرنا پڑتا ہے

علاج بذریعہ ہومیوپیتھک ادویات
ہومیو پیتھک کی ان ادویات آرسنکم البم ،آرم میٹیلیکم ،کلیکیریاکاربونیکم ،کاسٹیکم ،اگنیشیا،کالی فاس ۔پلساٹیلا،نیٹرم کارب ،نیٹرم میورسے اس بیماری سے نجات ممکن ہے اس کے ساتھ مریض کو مکمل آرام دیا جائے جتنا ہوسکے اس کو سولایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو گہری سانسیں لینی چاہیں جس سے جسم سے منفی اثرات نکل جاتے ہیں زیتون کے تیل کے ساتھ مساج بھی کرتا بہت مفید ہوتا ہے نارمل ورزش اور صبح کی سیر بہت مفید ہوتی ہے

روحانی علاج
ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں احکامات خدا وند کریم کو لازمی لاگو کرنا جاہیے جس سے ہمیں ذہنی سکون ملتا ہے اور روح کی بے چینی ختم ہو جاتی ہے مثال کے طور پر جب ہم دن میں باقائدہ طریقے سے وضو کر کے نماز ادا کرتے ہیں تو اس وقت بہت سی بیماریاں ہم سے دور ہوجاتی ہیں جیسا کہ سجدے میں جانے سے دماغ کی طرف خون کا تیزی سے حرکت کرنا یہی ایک بنیادی وجہ ہے جس میں دل دماغ کے اوپر ہوتا ہے ثواب بھی اور سکون بھی۔

نکالا ہم کو جنت سے فریب زندگی دے کر۔۔دیا پھر شوق جنت کیوں یہ حیرانی نہیں جاتی

 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 470295 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.