کشمیر مناظرہ بازوں کے نشانے پر

 پوری مسلم دنیا اس وقت خون میں لت پت ہے۔لاکھوں شہید ہوئے ہیں اورکروڑوں مسلمان بے گھر ہو چکے ہیں۔جنگ زدہ علاقوں میں محصور مسلمانوں اور دردر کی ٹھوکریں کھانے والے مہاجرین کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔مسلمان بہو بیٹیوں کی عزتیں داؤ پر لگی ہیں۔فلسطین سے لیکر برما تک اور شام و یمن سے لیکر کشمیر تک اس کو کفار اور مسلمان مل کر قتل کر رہے ہیں ۔کہیں یہ دہشت گردی کے نام پر مارا جاتا ہے تو کہیں مسلکی اور فکری اختلافات کے نام پر ۔دنیا کو خون مسلم کی لت لگی ہے گویا کفار اور بعض مسلمانوں کے منہ کو مسلمانوں کاخون لگا ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ اس ساری منحوس اور انسانیت کش جنگ کا نام بعض کم بختوں نے جہاد رکھا ہے ۔حیرت ہوتی ہے کہ ہم بھی کس دنیامیں پھنس گئے ہیں جہاں عقل و دانش کا جنازہ قاتل ہی نہیں اٹھا چکا ہے بلکہ یہ المناک حالت اس مسلمان کی بھی ہے جو اسی نام پر مارا جاتا ہے ۔عوام الناس اب مسلمان مولویوں کے حالات دیکھ کر تنگ آچکی ہے ۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر مولوی لوگ ایک دوسرے کے خلاف اس قدر مشتعل کیوں ہیں ۔ حیرت یہ کہ یہی مولوی ممبر و محراب پرعام مسلمانوں کو اتحادکی تعلیم دیتا ہے جبکہ یہی شخص اتحاد واتفاق کوپارہ پارہ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔

’’حقیر مالی مفادات اور واہ واہ‘‘ کے لئے کچھ شر پسند عناصر کشمیر کے خرمن میں آگ لگانا چاہتے ہیں اور اندھوں کو پہلے سے کشمیر میں چہار سو پھیلی وحشتناک آگ نظر نہیں آتی ہے ۔ان شر پسند عناصر کا خیال یہ ہے کہ ’’مناظروں‘‘سے کسی کو شکست دی جا سکتی ہے اور جب کسی کی شکست ہو جائے گی توان کے خیال ہے کہ وہ اپنا مسلک یا مکتبہ فکر چھوڑ کر ان کے دائرے میں آجائے گا ۔ماہرین نفسیات کی تحقیق یہ ہے کہ انسان آخری درجے کاردعمل اس وقت پیش کرتا ہے جب اس کے عقائد پر حملہ کیا جاتاہے یہ دیکھے بغیر کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ؟کشمیر کے عوام برصغیرکے لوگوں کے برعکس مناظرانہ مزاج سے نفرت کرتے ہیں ۔جب کہ برصغیر پاک و ہند میں عوام مناظروں کو نہ صرف سراہتی ہے بلکہ ان طریقوں سے لطف اندوز ہوتی ہے ۔ کشمیری ہر ایک کا نقط نگاہ بہت ٹھنڈے پیٹوں سنتے ہیں اور اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنا مسلک یا مکتبہ فکر چھوڑنے پر آمادہ ہو چکے ہیں بلکہ یہ ان کی شرافت اور اعلیٰ ظرفی کی دلیل ہے ۔بین المسلمین مناظروں کو نفرت کی نظر سے دیکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں داعی کے برعکس مناظر میں ہمدردی کا عنصر غائب ہوتا ہے وہ صرف اپنے مخالف کو کسی طرح ہرانے اور شکست سے دوچار کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے ۔

جموں و کشمیر گذشتہ کئی سو سال سے غیر یقینی صورت حال کے ساتھ دوچارہے ۔یہاں روز نوجوانوں کے جنازے اٹھتے ہیں ۔ روزبچوں سے لیکر بوڑھوں تک انسان گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالے جاتے ہیں ۔یہاں معرکہ آرائیوں سے گھر اجڑتے ہیں ۔ احتجاجوں اورہڑتالوں نے یہاں کے رہنے والوں کی معیشت تباہ کر کے رکھدی ہے ۔کشمیری ان حالات سے پہلی مرتبہ دوچار نہیں ہوئے ہیں بلکہ یہ اب ان کا معمول بن چکا ہے جبکہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ جنگ کے برعکس امن چاہتا ہے اورلڑائیوں کے بجائے پرسکون زندگی تلاش کرتا ہے ۔ ستر برس کے قلیل وقت میں پانچ لاکھ انسانوں کی لاشیں اٹھانے والی قوم کو امن اور خوشحال دینا ترجیح ہونی چاہیے نہ کہ ایک جنگ سے دوسری جنگ کی طرف منتقل کرنا۔مسلمان بحیثیت مجموعی کئی مرتبہ غیروں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو چکے ہیں مگر ہر تباہی میں اس کے اپنے بھی پیش پیش تھے اور ہیں۔آپ بنو اُمیہ کے دور سے لیکر آج کی شام ،عراق ، یمن ،افغانستان ،فلسطین اور کشمیرکی جنگ کو لے لیجیے ہر جگہ مسلمانوں کی بربادی میں آپ کو مسلمان بھی کافر وں کے دوش بہ دوش نظر آئیں گے اور پھرالمیہ یہ کہ ہر فرد اپنے موقف کی بھی تاویل کرتا ہوا نظر آئے گا۔

یہ قوم حالت جنگ میں ہے اس کو ایک جنگ سے دوسری جنگ کی طرف لے جانے کی کوشش کا مطلب اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہو سکتا ہے کہ اس مظلوم ترین قوم کو بہ یک وقت دو جنگوں میں پھنسا کر مکمل طور پر فنا کے گھاٹ اتارا جائے !جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو پہلے ستر برس پر پھیلی جنگ سے نجات دلائی جائے ۔مناظروں سے کبھی کسی بھی فرد نے نا ہی اپنا مسلک ترک کیا نا ہی مکتبہ فکر بلکہ الٹا اس کا منفی اثر یہ پڑتا ہے کہ فریقین میں مزید شدت اور سختی پیدا ہو جاتی ہے ۔محبت نفرت میں اور پیار بغض میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔سازشوں اور خفیہ طریقوں کے ذریعے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں ۔زچ کرنے والے مضامین اور کتابیں لکھی جاتی ہیں ۔دق کرنے والے بیانات ریکارڈ کرائے جاتے ہیں ۔دونوں طرف کی نفرت عروج پر پہنچنے کے بعد ایک دوسرے کے مال و جان کو حلال کئے جانے کے فتوے دئے جاتے ہیں ۔مفتی صاحبان پہلے فاسق و فاجر اور پھر کافر و مرتد ہو نے کے فتوے لکھ کر شائع کرتے ہیں ۔نوجوانوں کے خون کو مزید گرمانے کے لئے ’’شعلہ بیان مقررین‘‘روتے بلکتے ہو ئے اپنے عقائدوایمان اور اسلاف کے ناموس کے تحفظ کی دہائی دینے لگتے ہیں ۔’’کافر اور مرتد ‘‘قرار دینے کے بعد مخالفین کی لڑکیا ں حلال بلکہ لونڈیاں بنانے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے ۔زندہ رہنے کی صورت میں غازی اور مرنے کی صورت میں ’’شہیدِ اعظم‘‘قراردیکر طوفانِ بدتمیزی کو جنم دیا جاتا ہے ۔

جب قوم اس طرح کی فتویٰ بازی سے جنون میں مبتلا ہو کر اس پر عمل کرنے کا آغاز کرتی ہے تو’’سیاسی مولوی صاحبان‘‘ رنگ بدلتے ہو ئے ’’اتحاد واتفاق‘‘کی دہائی دیکرجلسوں اور جلوسوں میں اپیلیں کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں۔نوجوان اس لٹریچر پرعمل کرتے ہو ئے جب ملکوں کو تاراج کرنے لگتے ہیں تو مجھ جیسے کمزور دل قلمکار اس میں ’’یہودو ہنودکا ہاتھ‘‘تلاش کرنے میں جٹ جاتے ہیں اور تواور بعض تنگ نظر کوٹ کچہریوں اور محکمہ ریکارڈ کی گلیوں میں گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں کہ سنا ہے ’’ابوبکر بغدادی اور ایمن الظواہری‘‘یہودی ایجنٹ ہیں ممکن ہے ’’ابن صباح‘‘کے رشتہ دار ہوں !لہذا ایک زیرک محقق کی طرح میں پہلی فرصت میں شجرہ دیکھنے آیا ہوں ۔جس قوم کی حالت اتنی پتلی ہوکہ انہیں ہر گمراہ بچے اور بوڑھے کے پیچھے یہودی ہاتھ نظر آجائے اور پھر تمام حدود عبور کرتے ہو ئے وہ کبھی ایرانی اور سعودی عربیہ کی غلط پالیسیوں کو بھی یہودی بالادستی کا حصہ قراردیکر ایک کو مجوسی النسل اور دوسرے کو یہودی النسل قرار دینے کے لئے دور کی کوڑی لانے میں بھی تردد ناکرتا ہو تو اس قوم کو بھلا کشمیر کے دوردراز خطے میں بھی اگر چند جذباتی مولویوں کے پیچھے یہودی ہاتھ نظر آجائے تو آ پ منع نہیں کر سکتے ہیں اس لئے کہ یہ بھی ایک فوبیا جس کے اکثر مسلمان شکار ہیں ۔

بعض مسائل مکمل طور پر مقامی نوعیت کے ہوتے ہیں انہیں بین الاقوامی ایجنڈے سے جوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔جیسے دیوبندی ،بریلوی اور جماعت اسلامی کے اختلافات !نالائقی یہ کہ بعض مبلغین نے نہ صرف چین اس اختلاف کو منتقل کیا ہے بلکہ اب ملیشیا اور انڈونیشیا میں بھی لوگ انہی ناموں سے اپنے آپ کو یاد کرتے ہو ئے سنے گئے ہیں ۔امت مسلمہ میں اختلافات نہ کوئی پہلا معاملہ ہے نا ہی دیوبند یا ندوہ کے وجود میں آنے کے بعد ان کا انکشاف ہوا ہے بلکہ یہ سلسلہ سالہاسال سے جاری ہے ۔اختلافات کی حقیقت جو بھی ہے اس پس منظر سے بچتے ہو ئے جب آپ ان کے ابھارنے والوں سے پوچھیں گے کہ آپ انہیں ’’غیر شائستہ‘‘انداز میں کیوں باربار اٹھاتے ہیں تو ان کا جواب ہوگا کہ ہم حق پر ہیں اور فریق مخالف برباطل ۔جب آپ دوسرے فریق سے پوچھیں گے تو من و عن اس کا بھی جواب یہی ہوگا ۔اب کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ دونوں میں حق پر کون ہے اوربہ یک وقت دونوں حق پرنہیں ہوسکتے ہیں ؟ توآپ مخمصے میں پھنس جائیں گے اور پھر جب فتویٰ کی زبان میں مناظرباز آپ کے راستے تنگ کرتے ہو ئے ’’کرو یا مرو‘‘والی پوزیشن پیدا کرتے ہو ئے یہ کہے گا کہ ’’جو فلاں کو کافر نہ مانے وہ بھی کافر‘‘اور جو ’’اس کے کافر ہونے میں شک کرے ‘‘وہ بھی کافر تو ڈرتے کانپتے آپ فوراََ توبہ کرتے ہو ئے مناظر کے قدموں میں پناہ لینے پر مجبور ہوں گے ۔ہر معاشرے میں اعتراض کرنے والے ایک فیصد سے کم ہوتے ہیں اور پھر جب معاملہ دین کا ہو تو لاعلمی کی وجہ سے ہزار میں بھی ایک نہیں ہوتا ہے ۔مناظر کو وسیع علم کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ مخالف کو توڑنے کے لئے اس فن کے داؤپیچ جاننا کافی ہوتا ہے مگر وہ تاثر یہ دے گا کہ دنیا جہاں کے علوم اس کے سینے میں ہیں ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چودہ سو سال میں مناظروں کی خدمات کیارہی ہیں اور داعیانِ اسلام کی کیا خدمات ہیں ؟ہم دور کیوں جائیں ہمارے جموں و کشمیر ،لداخ ،آزاد کشمیراور گلگت بلتستان میں اسلام کی اشاعت کا وسیع پھیلاؤکسی ’’مناظر‘‘کی نہیں داعی اسلام حضرت العلام سیدی حضرت میر سید علی ہمدانی رحمۃ اﷲ علیہ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔جنہوں نے اپنی ایمانی قوت ،قرآنی علوم پر کامل دست رس اورروحانی کمالات کے نتیجے میں برصغیر کی ذہین ترین پختہ مذہبی ہندو اور برہمن قوم کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرتے ہوئے بے مثال کامیابی حاصل کی ۔ہمارے اسلاف کی یہی تاریخ رہی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ غیروں سے بحث و مباحثے اور مناظروں میں حق کی طرف لوگوں کو آمادہ کیا ،رہا اپنوں کی غلطیوں پر متوجہ کرناتو یہ نہ صرف محمود ہے بلکہ مقصود بھی مگر اس کے لئے مناظرانہ زبان کارگر نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کے لئے ہماری نئی نسل کو ’’مصلحین‘‘کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہوگا کہ کس طرح انھوں نے بڑے بڑے جباروں اور متکبروں کو راہ راست پر لایا ۔اس کے لئے بھی ہمیں کسی افریقہ یا عرب جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آج بھی وہ اﷲ والا ’’سرہندکی مٹی میں دفن‘‘ہے جس نے مغلیہ سلطنت کو ارتداد کے آخری کنارے سے واپس لاکر اسلام کی دہلیز پر پہنچا کر ہی دم لیا ۔بین المسلمین اختلافات کے پھیل جانے کے بعد اور عوام کے دوتین فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہونے کے بعد یہ تصور کرنا کس قدر نالائقی ہے کہ میری تقریر یا فتویٰ بازی سے کوئی اپنا مسلک یا مکتبہ فکر چھوڑ دے گا ۔یہ صرف عوام ہوتی ہے جو مقررین یا واعظین سے متاثر ہو کر دینی جماعتوں یا افراد سے جاکر شامل ہوتی ہے وہ لکھے پڑھے نہیں جن سے کسی مسلک کا پھیلاؤ ہوتا ہے یا کسی مکتبہ فکر کا ؟

کشمیر کو جان بوجھ کر شیعہ سنی ،دیوبندی بریلوی اور سلفی جماعت اسلامی یااخوانی اختلافات کی جانب دھکیلنے کی کوششیں کی جاتی ہیں بلکہ یہ کوششیں اب کچھ عرصے سے عروج پر ہیں اور سوشل میڈیا جب سے عوام الناس کی دسترس میں آچکا ہے تب سے صورتحال بہت ہی مایوس کن ہے ۔اختلافات سے انکار ممکن نہیں ہے ۔یہ تھے یہ رہیں گے یہاں تک کہ بڑے مفکرین آکر نئے مسائل کو قبول کرتے ہو ئے نئی تخم ریزی نہ کریں ۔تب تک موجودہ لٹریچر اور کتابوں کا دبدبہ رہے گا ۔نئے مسائل پر نئے لٹریچر آنے کے بعد یہ لٹریچر اور اس کی اہمیت آپ سے آپ ختم ہوجائے گی ۔یہ اختلافات کم یا زیادہ پہلے بھی مختلف ناموں پر موجود رہے ہیں اور نام اور مکاتب فکر بدلنے سے شاید ان کا نام بدل جائے گا نہ کہ اصلیت ۔البتہ ہمارا ماننا یہ ہے کہ ہم پہلے سے ایک جنگ میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے ہماری ہر شئی داؤ پر لگی ہوئی ہے اگر ہم نے اسے توجہ ہٹا کر اس آگ کو بھڑکا دیا تو یقیناََ اس کے نتائج بالکل ویسے ہی ہوں گے جیسے ’’سقوطِ بغداد‘‘کے وقت پوراگلشن اس حال میں چنگیزیوں کے ہاتھوں اجڑاکہ مظلومین کی دلدوز چیخوں کے بیچ یہ آواز بھی سنی گئی ’’اے کافرو !ان فاسقوں کو قتل کردو‘‘جو اپنے اصل دشمن سے بے خبر ہو کرایک دوسرے سے علمی اور کلامی مباحث کا دروازہ کھول کر دراصل حقیقی دشمن کو اندر آنے کی راہ ہموار کر چکے تھے اور وہ سمجھ رہے تھے کہ چنگیزی اصل دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو بعض مسائل میں ان سے اختلاف کرتے تھے ۔ یہ ذمہ داری ہمارے بزرگ علماء ،حریت لیڈران اور دینی جماعتوں اور دانشوروں کی ہے جو اس سب سے آنکھیں تب تک پھیر لیتے ہیں جب تک وہی فتنہ ان کی گھر کی دہلیز تک نہیں پہنچتا ہے۔فوری ضرورت اس امر کی ہے کہ بزرگ حضرات نوجوانوں کے بیانات اور تقاریر کو نظرانداز نا کریں بلکہ ان پر اپنے اپنے دائرے اور حلقہ اثر میں پابندی لگا کر انہیں مستقبل میں جوابدہ بنائیں اور مستقبل میں جو بھی کہنا یاکرنا ہو وہ بڑے لوگ چھوٹوں کو بیچ میں لانے کے بجائے خود انجام دیدیں تاکہ غلط زبان اور ناشائستگی کا دروازہ بند ہونے کے ساتھ ساتھ یہ قوم بے لگام اور غیر شائستہ نظر نا آئے ۔

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 83618 views writer
journalist
political analyst
.. View More