اُمیدوں کے خون میں’غوطہ‘

شام میں انسانی تاریخ کا بدترین المیہ جنم لے رہا ہے ۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر جنگ عظیم اول اور دوئم میں انسانی اخلاقیات کا قحط بانٹنے والا مغرب بھی چیخ اُٹھا ہے۔ خاص طور پر پچھلے چند ہفتوں میں غوطہ پر جو قیامت ڈھائی گئی اس کے بعد کشمیر ، برما اور فلسطین میں ہونے والے بدترین مظالم پر آنکھیں موند لینے والے بین الاقوامی ادارے UNOکے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے غوطہ کو ’’ زمین پر دوزخ ‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ وہ اُمت مسلمہ جس کے بارے میں ہم بچپن سے پڑھتے اور سنتے آئے تھے کہ وہ ایک جسم کی مانند ہے اور جسم کے ایک حصہ کو کوئی تکلیف پہنچے تو ا س کا درد سارے جسم میں محسوس ہوتا ہے آج غوطہ میں رقم ہونے والی بربریت ، خونریزی اور وحشت کی المناک تاریخ پر درد محسوس کرنے کی بجائے اس بحث میں اُلجھی پڑی ہے کہ آیا شام سے آنے والی ویڈیوز اصلی ہیں یا جعلی ۔ انا ﷲ وانا علیہ راجعون ۔خاص طور پر وہ پاکستان جس کے بارے میں پاکستانی فخر سے تذکرہ کرتے ہیں کہ یہ فلسطین اور شام کے مسلمانوں کی اُمیدوں کا مرکز ہے ، اُن پر کوئی بھی مشکل آتی ہے تو وہ پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں جو عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت اور اس کی فوج دنیا کی طاقتور ترین افواج میں سے ایک ہے ۔جس کے جدید ترین میزائلز کی رینج میں اسرائیل بھی آتا ہے ۔اُس پاکستان کے میڈیا میں کافی انتظار کے بعد شام کا تذکرہ تو خیر سے ہوا مگر شام کا ’’ درد‘‘ محسوس کرنے کے لیے نہیں بلکہ موضوع شام سے آنے والی جعلی ویڈیوز ہیں۔حالانکہ سارا شام اُجڑ گیا ، لاکھوں شامی مہاجر ہو گئے لاکھوں مٹی تلے پہنچ گئے ، ہزاروں بے گوروکفن لاشیں ملبے تلے دبی ہیں اور ہزاروں زندہ لاشیں اپنے پیارے بچوں،والدین ، بہن بھائیوں کو ایک بار دیکھ لینے کی حسرت آنکھوں میں سجائے شام کی تباہ حال گلیوں اور بازاروں میں گھومتی پھررہی ہیں ۔ ہزاروں والدین اپنے معصوم بچوں کی لاشیں اُٹھائے نم آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ کیا یہ سب کچھ جعلی ہے؟

جو لوگ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ شام میں انسانی تاریخ کا بدترین ظلم ہو رہا ہے اور مسلمان ممالک کچھ کرتے کیوں نہیں ؟ ان کے لیے اصلی اور جعلی ویڈیوز کی اس بحث میں کافی سوالوں کے شافی جوابات موجود ہیں مگر المیہ تو یہ بھی ہے کہ ہم مسلمانوں نے ذلت و پستی کا بوجھ اُٹھانا گوارا کر لیا لیکن اپنے دماغوں پرذراسا بوجھ ڈالنا گوارا نہیں کیا ۔ظلم کی سب داستانیں سن کر بھی سب کچھ اﷲ کے ذمہ لگاکر خود غفلت کا لحاف اوڑھ لیتے ہیں کہ اﷲ ہی کچھ کرے گا ۔حالانکہ بقول اقبال ؂
عمل سے زندگی بنتی ہے ، جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے دانشور زیادہ دور کی کوڑی لاتے ہیں تویہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ شام میں عالمی قوتیں اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں ۔کسی نے زیادہ دانشوری بھگاری تو یہ کہہ دیا کہ یہ سب کچھ گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے کے تحت ہو رہاہے ۔مگر کوئی حق کی بات کہنے کے لیے تیار نہیں کہ جب تک گھر کے رکھوالے چورں کے ساتھ نہ مل جائیں تب تک چور کھلی لوٹ نہیں مچا سکتے۔غوطہ میں روس نے نہتے شہریوں پر بمباری کی تو کس کے کہنے پر کی ؟امریکہ وہاں مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے تو کس کے لیے ہو رہا ہے ؟ سارا الزام امریکہ اور روس کے سرمنڈھ کر ہم دانشوری کا تمغہ اپنے سر سجا لیں گے تو پھر عالم اسلام کا ہر شہر غوطہ بنتا رہے گا ۔ ضرورت اس امر کی ہے اور وقت کا اہم ترین تقاضا بھی کہ ہم اپنے گھروں کے ان رکھوالوں کا بائیوڈیٹا معلوم کریں جن کی وجہ سے شام اُجڑ گیا ، عراق مسمار ہوگیا ، لیبیا لُٹ گیا ، افغانستان کا تورا بورا بن گیا اور پاکستان امریکن کالونی بن گیا ۔جب تک ہم اپنی بربادی کے اصل مہروں کا کھوج نہیں نکالیں گے تب تک نہ تو مسلم دنیا میں بہتا خون رکے گا ، نہ اُمت کی ذلت ورسوائی میں کوئی کمی آئے گی اور نہ ہی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہو سکے گا ۔ ذکر شام کا ہو رہا ہے تو آئیے دیکھتے ہیں شام کی بربادی کا اصل ذمہ داری کون ہے ؟

شام ایک اسلامی ملک ہے ۔ اس کی 90فیصد آبادی مسلمان ہے لیکن 50سال سے اس پر ایک ایسا خاندان جبراً مسلط ہے جو اہل تشیع اور اہل سنت دونوں کے نزدیک مسلمان ہے ہی نہیں۔ شام کی اکثریت سول و سرکاری اداروں ،حکومت اور معیشت میں اپنا حق چاہتی ہے لیکن یہ چند فیصد آ بادی والا اقلیتی گروہ 90فیصد آبادی کو ان کے جائز حقوق دینے کے لیے تیار نہیں اور یہی شام کے تنازع کی اصل وجہ ہے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ یہ اقلیتی گروہ جو مسلمان بھی نہیں ہے ایک مسلم اکثریت والے ملک پر جبراً قابض ہے ۔تاریخ میں ہم اس کا جواب تلاش کریں تو پتا چلتا ہے کہ شام کا یہ علوی قبیلہ اپنی ابتداء سے ہی یہود ونصاریٰ کے مقاصد پورے کرتاآ رہا ہے ۔پہلی صلیبی جنگ (1099ء )میں علویوں نے شام کی ساحلی پٹی پر صلیبیوں کو قدم جمانے میں مدد دی جس کے نتیجے میں بیت المقدس پر قبضہ کرکے صلیبیوں نے قبلہ ٔ اول مسلمانوں سے چھین لیا ۔بدلے میں علویوں کو وہ قلعے واپس مل گئے جو اسماعیلیوں نے ان سے چھینے تھے۔ یہ ان کا شام پر قبضے کا پہلا قدم تھا ۔اس کے بعد اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ مل کر ان کا ہر قدم شام پرقبضہ کی طرف بڑھتا چلا گیا ۔1258 ء میں جب ہلاکو خان شام پر حملے کی تیاری کر رہا تھا تو یہی علوی تھے جنہوں نے اس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے شام پر اُس کا قبضہ مستحکم کرایا ۔اس جرم پر سلطان بیبرس نے نہ صرف انہیں سزا دی بلکہ انہیں اسلام لانے کی دعوت دیتے ہوئے ان کے علاقوں میں مساجد اور مدرسے بنوائے تاکہ یہ اسلام میں داخل ہو سکیں مگرا بن بطوطہ نے لکھا کہ علویوں نے ان مساجد و مدارس کو باقاعدہ اصطبل میں بدل کر دین کی بے حرمتی کی ۔مسلمان مورخین امام ابن کیثر ؒ و ابن بطوطہ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اسی قبیلے کے ایک شخص نے 1317 ء کے لگ بھگ مہدی ہونے کا اعلان کیا، اس کی آڑ میں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور مسلمان عورتوں کی عزتیں لوٹیں ۔ جس پر مصر کے سلطان الملک الناصر نے نصیریوں کے قتل کا حکم دیا۔خلافت عباسیہ کی طرح خلافت عثمانیہ کو بھی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے لہٰذا 1514 ء میں جنگ چلدران میں عثمانیوں کے مقابلے میں صفویوں کا ساتھ دیا اور جاسوسی کے فرائض سرانجام دیے ۔یہاں تک کہ کئی علوی بھیس بدل کر عثمانی اداروں میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچے اور یہود و نصاریٰ کے ساتھ مل کر خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی راہ ہموار کی ۔ انہی میں سے ایک ’’امین وحید آفندی‘‘ تھا جو 1806 ء میں فرانس میں عثمانیوں کا سفیر بنا اور یہی وہ شخص تھا جس نے فرانس کو شام پر قبضے کی رغبت دلائی ۔دوسری طرف خلافت عثمانیہ کے خلاف اُٹھنے والی ہر بغاوت میں یہ پیش پیش تھے ۔ اسی کے نتیجے میں 1817 ء میں بھی تریپولی لبنان کے عثمانی گورنر بربر کے ہاتھوں انہیں عبرت ناک سزا ملی ۔ لیکن اس کے باوجود 1820 ء میں انہوں نے یونانی قبرص کی آزادی کی تحریک میں باقاعدہ یونانیوں کا ساتھ دیا اور خلافت عثمانیہ کے خلاف اقلیتوں کو منظم کرنے میں یونانیوں کے ساتھی رہے۔ انہی سرگرمیوں کی بدولت یہ قبیلہ اور اس کا علاقہ عیسائی دنیا کے لیے پرکشش بن گیا ۔ یہاں تک کہ امریکی عیسائی مشنریوں کی اماجگاہ بن گیا ۔ ان عیسائی مشنریوں کے عزائم بھانپتے ہوئے سلطان عبدالحمید دوئم نے ان مشنریوں پر پر پابندی عائد کر دی اور 1870ء کی دہائی میں علویوں کو ایک بار پھر قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ان کے علاقوں میں مساجد بنائیں اور مدرسے قائم کیے ۔ لیکن ان مساجد اور مدارس کا انجام بھی وہی ہوا جو اس سے پہلے سلطان بیبرس کی کوششوں کا ہوچکا تھا کہ ان میں گھوڑے اور جانور باندھے گئے اور بے حرمتی کی گئی ۔ شام پر علوی قبضہ کے راستہ میں اب سب سے بڑی رکاوٹ عثمانی خلافت تھی لہٰذا انہوں نے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے لیے یورپ کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا ۔ یہاں تک کہ 1918ء میں فرانس کی فوجیں شام میں داخل ہو گئیں اور علویوں کی مدد سے شام کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔1919 میں73 علوی سرداروں نے فرانسیسی حکومت کو ایک ٹیلیگرام لکھا جس میں فرانس سے وفاداری کی یقین دہانی کراتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ چونکہ ہم مسلمانوں سے الگ قوم ہیں لہٰذا ہمیں الگ ریاست عطا کی جائے۔ چنانچہ جنگ عظیم اول کے خاتمہ پر فرانس و برطانیہ کے مابین بدنام زمانہ ’’ سائیکس پیکو ‘‘ معاہدے کے تحت شام کو فرانس کے قبضے میں دے کر اس کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا اور ایک ٹکڑے کا نام ’’ الاذقیہ‘‘ رکھ کر اسے علوی ریاست قرار دے دیا گیا ۔ اس ٹیلی گرام پر دستخط کرنے والے علوی سرداروں میں موجودہ صدر بشار الاسد کا داداسیلمان الاسدبھی شامل تھا۔بعدازاں فرانس نے شامی علاقوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ’’ سیرین سپیشل آرمی ‘‘ کے نام سے ایک فوج تشکیل دی جس میں خاص طور پر علویوں کو بھرتی کیا گیا ۔ 1946ء میں دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں فرانس کا شام پر قبضہ ختم ہوگیا لیکن فوج وہی رہی جو فرانس نے قائم کی تھی اوراسی فوج کی مدد سے 1971ء میں بالآخر حافظ الاسد شام کے اقتدار پر قابض ہو گیا اور اس کے بعد سے آج تک یہ خاندان شام کی اکثریتی مسلمان آبادی پرکسی بہت بڑے عذاب کی طرح مسلط ہے ۔

انسان جھوٹ بول سکتا ہے لیکن تاریخ کبھی جھوٹ کا ساتھ نہیں دیتی ۔ شام کی تاریخ سے ہر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ شام کی تباہی و بربادی کا اصل سبب کیا ہے ۔امریکہ اور روس بھلے ہمارے دشمن ہیں اور دشمن کا کام وار کرناہے ،لیکن اپنا دفاع کرنا ہمارا اپنا کام ہے اور دفاع اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنے ملک اورقومی ادارے چوروں ، لٹیروں ، ڈاکؤں اور غداروں کے حوالے کیے رکھیں گے۔ بدقسمتی سے ایک صدی قبل اسلامی دنیا کو تقسیم کرتے وقت ہر ملک میں مسلمانوں پر ایسے ہی لوگوں کو مسلط کیا گیا ہے ۔ جب تک مسلمان ان سے نجات حاصل نہیں کریں گے تب تک اُمت واحدہ کا تصور اور اس کے ایک حصہ کا ’’درد‘‘ دوسرے حصے میں محسوس ہونا خواب و خیال بنا رہے گا ۔اُمت کا ایک حصہ اگر جل بھی رہا ہوگا تو دوسرے حصوں میں اس پر بحث ہوتی رہے گی کہ آگ اصلی ہے یا جعلی ۔ اس طرح اُمت کے ایک حصے کو دوسرے حصے سے اگرکچھ اُمیدیں وابستہ بھی ہوں گی تو اُن کا خون ہوتا رہے گا اور اس خون میں کوئی نہ کوئی غوطہ ڈوبتا رہے گا ۔

Rafiq Chohdury
About the Author: Rafiq Chohdury Read More Articles by Rafiq Chohdury: 38 Articles with 47056 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.