آزادی نہیں حق

سوشل میڈیا کے حوالے سے آئے دن نت نئے سوال اٹھائے جاتے ہیں. ظلم زیادتی جبر اور دیگر معاشرتی ،سیاسی علاقائ ملکی اور بین الاقوامی مسائل پر احتجاج بھی بلند کیا جاتا ہے. کئ نعرے سوشل میڈیا پر مقبولیت کا درجہ بھی حاصل کرلیتے ہیں.کہیں انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہیں ان کی مشروط اور غیر مشروط حمایت بھی کی جاتی ہے..یہاں میں ایک ایسے ہی نعرے "میرا جسم میری مرضی "پر آپ سے ڈسکشن کرنا چاہتی ہوں.اور امید کرتی ہوں کہ آپ ذاتیات سے بالاتر ہو کر غیر جانبدارانہ ،حق اور سچ پر دلالت کرتی گفتگو کو ترجیح دیں گے.

سب سے پہلی بات ہم مشرق اور مغرب کو ہمیشہ الگ زاویوں سے دیکھتے آئے ہیں.مشرق اور مغرب دونوں ہی سمتوں میں بسنے والے جداگانہ تہذیب اور معاشرت کے حامل باشندے ہیں.ان کی اور ہماری زندگی گذارنے کے لیئے ترجیحات اور ترغیبات میں زمین آسمان کا فرق ہے.مذہبی، معاشرتی،لسانی، معاشی،سیاسی،سماجی اقدار کسی بھی طرح آپس میں میل نہیں کھاتیں.تو کیا وجہ ہے کہ ہم ان کی زبان ،ان کےلباس و اطوار اپنانے میں فخر اور خوشی محسوس کرتے ہیں.بلکہ خود کو ان کے چند باغیانہ خیالات اپنا کر نام نہاد سوسائٹی میں ایک لبرل معاشرے کے فرد کے طور پر پیش کرتے ہیں. میں عورت کے لیئے قطعا ایسی آزادی کی قائل نہیں جو اسے صرف بے پردہ چست لباس میں ملبوس چند مرد تماش بینوں کی نگاہ کی مرکز بننے کے لیئے سرراہ آنے کا درس دے.اور یقیننا اس نعرے کا مقصد محض یہی نہیں جو لیا جارہا ہے.

یہ نعرہ تخلیق کرنے والوں سے بھی میں یہی کہنا چاہوں گی کہ عورت محض ایک جسم نہیں ہے. ہاں،یہ حقیقت ہے کہ عورت کو ہمارے معاشرے میں محض ایک جسم سے زیادہ کوئ درجہ دیا ہی نہیں جاتا. برائے مہربانی میری بات پر فی الفور کوئ فتوی جاری کرنے سے پہلے میری پوری بات توجہ سے ضرور سنیئے گا.

ہمارے یہاں جو خواتین پردہ کرتی ہیں وہ پردے میں بھی شہوت بھری نظروں اور ارادوں سے محفوظ نہیں، گھر سے تلاش معاش کے لیئے نکلنے والی خواتین کو اپنی دہلیز سے لے کر اپنے روزگار تک کن طنزیہ نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان پہ کیسے کیسے آوازے کسے جاتے ہیں،پبلک پراپرٹی جان کر ان کے ساتھ سرراہ اور ملازمت کے دوران کس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے. کیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی ہے. عورت تعلیمی اداروں،بازاروں اور دیگر پبلک مقامات پر بھی محفوظ نہیں نہ ہی گھر کی چار دیواری اسے مکمل پروٹیکشن مہیا کرتی ہے. ہمارے یہاں خاوند کو مجازی خدا کا درجہ دیا جاتا ہے. وہ عورت کے نان و نفقے اور اس کی عزت کے تحفظ کہ مکمل ذمے داری اٹھاتا ہے. لیکن اگر وہ اس کے حقوق کی مکمل ادائیگی نہیں کرتا،اگر وہ اس پر بلاجواز اور غیر منطقیانہ پابندیاں عائد کرتا ہے تو جائز اگر وہ اس پر شوہر اور باپ اور بھائ ہونے کی حیثیت سے تعلیم کے مواقع بند کرتا ہے تو جائز اگر وہ شرعی رو سے اس سے اپنا مجاز چننے کا اختیار چھینتا ہے تو جائز، اگر وہ کسی قصاص یا دعیت کے بدلے بھیڑ بکریوں کی طرح اس کا لین دین کرتا ہے تو جائز، اگر وہ اپنا جرم چھپانے کے لیئے اسے کاروکاری قرار دیتا ہے تو جائز، اگر چوپالیں، جرگے، پنڈالیں مل کر کسی عورت کی اجتماعی عصمت دری کا حکم دیتی ہیں تو کیوں آپ کے اندر ایک انصاف پسند انسان بیدار نہیں ہوتا کیوں ہمارے ملک کے اندر سوارا اور ونی اور پیرنی کی اونٹنی جیسی قبیح رسمیں موجود ہیں.کیوں شرعی رو سے غلط ہونے کے باوجود عورت کا عقد قرآن سے کردیا جاتا ہے. ہمارے معاشرے کی غیرت اسی وقت کیوں جوش میں آتی ہے جب ایک عورت اپنے حق کی آواز بلند کرتی ہے. کیوں عورتوں پر ہوئے ظلم زیادتی ناانصافی کی بات کرنے والی خواتین کی بجائے ساتھ دینے کے ذاتیات پہ کیچڑ اچھالی جاتی ہے. ہمارے یہاں جب ان جرائم کی روک تھام کے لیئے کوئ بل منظور کیا جاتا ہے یا کسی قسم کی اصلاحات کی جاتی ہیں تو ان پر اعتراضات کیئے جاتے ہیں.کیا آپ جانتے ہیں ہمارے معاشرے میں پسند کے مطابق شادی کرنے والی اکثر خواتین کو موت کی سزا دی جاتی ہے.ان کے اعلی تعلیم حاصل کرنا جرم ہے اگر اولاد نرینہ ہو تو ہر چیز میں وہ ترجیحی بنیاد پر نوازی جاتی ہے. ہمارے یہاں آج بھی بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کا رواج ہے.ہمارے یہاں آج بھی رشتے سے انکار کرنے والی بیٹیاں تیزاب گردی کا نشانہ بنتی ہیں.گھروں کی معاشی حالت سے مجبور ہوکر آفس جوائن کرنے والی خواتین کو کن شرائط کا سامنا کرنا پڑتا ہے. کیا ان کے پاس کوئ اور چوائس موجود ہے.جنسی ہراسمنٹ کا شکار خواتین صرف دہلیز سے قدم نکالنے کے بعد ہی نہیں بنتیں،ان شرمناک حقائق سے بھی سب واقف ہیں.

ہمارا مذہب دنیا کا واحد مذہب ہے جو عورتوں کو مکمل آزادی دیتا ہے لیکن اس کی حفاظت کے لیئے کچھ حدود اور قیود بھی مقرر کرتا ہے.ہمارے دین میں عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے پر بھی کوئ پابندی نہیں،بے شک ہمارا دین ہمیں اس بات کا پابند کرتا ہے کہ ہماری آواز کسی نامحرم کے کانوں تک نہ جائے لیکن وہ ہم پر یہ روک بھی نہیں لگاتا کہ ہم کسی ظلم،جبر اور زیادتی کے خلاف اپنا احتجاج بلند نہ کرسکیں. ہمارے مذہب میں زکوة،قرض حسنہ، صدقات کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے، ہمارا مذہب ہمیں اپنے قریبی رشتہ داروں، دوستوں،قریبی پڑوسیوں، اہل محلہ کی خبر گیری کا بھی حکم دیتا ہے اورحقوق العباد کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اخلاق حسنہ کی تعلیم بھی دیتا ہے کیا ہم اس پر عمل کرتے ہیں.یقین مانیئے اس کا کچھ حصہ پر بھی عمل درآمد ہو تو کسی عورت کو مجبوری کی حالت میں اپنی دہلیز پار کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے. کوئ بچہ تعلیم اور بنیادی ضروریات سے محروم نہیں رہے معاشرے سے عدم برداشت کا خاتمہ ہوجائے. آپ کا اعتماد اور تعاون عورت کو معاشرے میں احساس تحفظ دینے کے لیئے کافی ہے بلکہ اس کی ترقی میں بھی معاون ثابت ہوگا مشرقی عورت مغربی عورت سے یکسر مختلف ہے وہ ایک علیحدہ اور جداگانہ معاشرت اور مذہبی اقدار کی مالک ہے اپنی حدود کا تعین کرنا جانتی ہے.جن آزاد خیال لبرل خواتین کی خیالات اور طرز زندگی اور لباس کی بنیاد پر اسے مجموعی طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ تو شاید پندرہ فیصد بھی نہیں...
عورت کا اس کے ہر روپ میں عزت اور اس کا حق دیجیئے.
گھر، رستوں میں،پبلک مقامات پہ،کام کرنے والی جگہوں پہ، تعلیمی اداروں میں ہر جگہ اس کی حفاظت کو یقینی بنایئے
جوا خانوں، قحبہ خانوں، منی بلیو سینما گھروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیئے.
چیزوں کی طرح عورت کے لین دین پر پابندی عائد کی جائے اور یہ صرف کاغذی دستاویز میں جرم نہ ہو بلکہ اسکی روک تھام کے لیئے بھی پریکٹیکل ورک کیا جائے.
کسی پہ بھی بلاجواز الزام تراشی اور بہتان تراشی قابل سزا جرم ہے تو اسے صنف نازک پہ استعمال کرنے والے موجب سزا سمجھیں جائیں.

وعدہ کریں جب وہ آپ کے سامنے کسی بھی روپ میں آئے قابل تقدیس ہو آپ کی نظریں اس کا احترام کریں.آپ کے ہاتھ اس غلط طریقے سے چھونے کی جسارت نہ کریں.یہی مطالبہ میں اپنی بہنوں سے بھی کرتی ہوں کہ وہ بلاجواز اور بے محل کسی کو خود سے بے تکلف ہونے کا موقع نہ دیں.آپ کا لباس آپ کی آزادی نہیں آپ کی شخصیت اور کردار کا آئینہ دار ہوتا ہے خدارا کسی کو کیچڑ اچھالنے کا موقع فراہم نہیں کیجیئے.

جن خواتین کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے یا سیکسوئیل ہراسمنٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان کو بلا مشروط انصاف مہیا کیا جانا ازحد ضروری ہےاول تو ایسی خواتین ہمارے یہاں انصاف کے لیئے عدلیہ کا دروازہ نہیں کھٹکٹھاتیں اور اگر عدالت سے داد رسی کی طلب گار بھی ہوتی ہیں تو دوسری بار عدالتی کاروائ ان کا جنسی استحصال کرتی ہے..ہمارے یہاں ایسی خواتین کی گواہی تمام تر ثبوت کے باوجود مکمل تصور نہیں کی جاتی اور ملزم پھر سے جرم کرنے کے لیئے آزاد ہوجاتے ہیں ایسا نہیں ہے تو کراچی کی سمیرا کو ابھی تک انصاف کیوں نہیں ملا صرف ایک زینب کا مجرم گرفتار کرکے آپ ان لاکھوں مجبور بچیوں کے ساتھ ہوئ زیادتیوں کا ازالہ نہیں کرسکتے تو آئے دن اس جارحیت کا نشانہ بنتی آئ ہیں اور بن رہیں ہیں. ہمارے یہاں یا تو ایسی بچیاں خودکشی کرلیتی ہیں یا ان کے والدیں ہی انھیں ختم کردیتے ہیں.اور ہمارا معاشرہ مجرم سے زیادہ انہی کو قصور وار گردان کر زندگی بھر کے لیئے ان کا جینا مشکل کردیتا ہے.خدارا اس ظلم کو روکیئے. صرف گھر کی چھت کے نیچے بیٹھی ہوئ عورت آپ کی عزت نہیں، صرف آپ کی اپنی بیٹی آپ کی ذمے داری نہیں ایک مسلمان ہونے کے ناطے ملت اسلامیہ کی ہر بیٹی آپ سے اپنی حفاظت اور جائز حق کا مطالبہ کرتی ہے.پلیز میرے ہیش ٹیگ کا حصہ بنیئے.
I WANTJUST MY RIGHTS, NOT FREEDOM#
حیاغزل

Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 87837 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More