بے قراری سی بے قراری ہے ( قسط نمبر ١٣)

بے قراری سی بے قراری ایک سماجی رومانوی و روحانی ناول ہے جس کی کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ عبیر جو ایک فیشن ڈیزائنر ہے اور اسلامی فیشن میں کچھ نیا کرنا چاہتی ہے۔ تیمور درانی جو ایک ملحد ہے جس کے خیال میں محبت اور زندگی بے معنی ہے۔

اگلے ہفتے کو میں بھاری قدموں کے ساتھ بنگلے کے اندر داخل ہوئی۔ میں نے خود کو بہت سمجھانے کی کوشش کی۔ مجھے نہیں جانا چاہیے۔
لیکن میرا تجسس مجھ پر حاوی آ گیا۔ تیمور درانی کی شخصیت اور ماضی سے زیادہ مجھے اس بات کو جاننا ہے، میری اصل نیچر کیا ہے؟
اب تھی تو یہ سٹوپڈ سی بات، جس کا کوئی معنی نہیں تھا۔
تجسس ہم سے بہت کچھ کروا لیتا ہے۔ تیمور درانی نے کہا کہ میں اگلے ہفتے اس کے گھر آؤں تو بات ہو گی۔
مجھے ایلیس ان ونڈر لینڈ جیسی فیلنگ آنے لگی، جس میں ایک لڑکی خرگوش کے بل میں جاتی ہے اور اسے ایک انوکھی دنیا سے پالا پڑتا ہے۔ میں بھی تیمور درانی کی انوکھی دنیا میں قدم رکھنے جا رہی تھی۔ مجھے بیک وقت ڈر بھی تھا اور تجسس بھی۔ نہ جانے وہاں میرے ساتھ کیا ہو گا۔ گھر میں تو میں نے یہ بتا یا کہ آفس میں ورک لوڈ زیادہ ہے۔
ویسے تو وہ ہر چیز سے اکتایا ہوا اور سرد مزاج لگتا تھا۔ پر آج تیمور درانی کے انداز سے بہت ہلکی سی ایکسائیٹمنٹ نظر آئی۔
میں خوفزدہ ہو گئی۔ نہ جانے اسے کس بات کی ایکسائیٹمنٹ ہے۔ لائبریری کا وہی ماحول جہاں وقت رک سا جاتا ہے۔ ایسا ماحول کہانیاں سننے اور سنانے کے لیے بہت اچھا ہوتا ہے۔
اس نے بغیر کسی تمہید کے بات کرنا شروع کی۔
مس عبیر! اگر آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہیں تو کر لیں۔ کیوں کہ، آج کے بعد آپ کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔
اس بات کا کیا مطلب ہے تیمور صاحب؟ میں نے تھوڑی تشویش سے پوچھا۔
مس عبیر یہاں آپ جو باتیں سنیں گی۔ یا جو کام کریں گی۔ ان کا ذکر مرتے دم تک کسی سے نہیں کر سکتیں۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو مجھے افسوس ہے اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ اس نے سرد لہجے میں کہا۔
میرا سانس خشک ہو گیا۔ دل کی دھڑکن اپنی فل سپیڈ پر چلی گئی۔
عبیر! یہاں سے چلے جانا ہی مناسب ہے۔ لیکن کسی نے مجھے باندھ کر بٹھادیا۔
میرا تجسس اور بڑھ گیا۔ وہ کہتے ہیں نا، تجسس اور خوف کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جتنا خوفناک کوئی کام ہو اس میں اتنی ہی تھرل محسوس ہوتی ہے۔
میں نے رکنے کا فیصلہ کیا۔
اس کے چہرے پر کچھ طمانیت آئی۔
مس عبیر اس گھر میں آپ جب تک ہیں آپ کو میری کہی ہوئی باتوں کو بغیر کسی حجت یا سوال کے ماننا ہو گا۔ اگر آپ کو یہ منظور ہے تو ٹھیک ورنہ واپسی کا دروازہ ابھی کھلا ہے۔
اس کی شرطیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ کیا کروں میں؟
جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
پہلی بات ہم یہاں باس اور ملازم کا رول ادا نہیں کریں گے۔ آپ مجھے صرف تیمور کہیں گی۔ جیسے کسی بھی عام آدمی کو کہتی ہیں۔ میں بھی آپ کو صرف عبیر کہوں گا۔
کیونکہ، لوگ اپنا اصل چہرہ مختلف رولز کے پیچھے چھپاتے ہیں۔
ہیں !! یہ کیا بات ہوئی؟ یہ یہاں باس نہیں بننا چاہتا تو پھر کیا کرنا چاہتا ہے۔
ٹھیک ہے تیمور صاحب۔ آئی مین۔۔ تیمور۔ ۔ ۔۔ بہت ہی عجیب لگ رہا تھا۔
باقی باتیں وقت کے ساتھ کھلیں گی۔
تو عبیر کہاں سے شروع کریں؟
میں چونک گئی ! تیمور صاحب۔ آئی مین تیمور۔ ۔ آپ۔ ۔ سوری۔ ۔ تم۔ ۔ اپنی کہانی سناؤ۔
تم ایسے کیوں ہو جیسے تم ہو؟
تمھارا ماضی کیا ہے اور تم خود کیا محسوس کرتے ہو؟
میں ابھی تک اس کے ساتھ اس برابری اور بے تکلفی کو ہضم نہ کر سکی تھی۔۔
میری کہانی؟؟؟
میں کیا محسوس کرتا ہوں؟؟
اس کی نظریں خلا میں کچھ ڈھونڈنے لگیں۔۔
جیسے لائبریری کی چھت پر اس کی زندگی کہ فلم چل رہی ہو۔ یہ فلم مجھے ایک انجان دنیا میں لے گئی۔ ایک ایسی دنیا جس کے بارے میں صرف تیمور درانی جانتا ہے۔ اس کہانی نے وقت کا پہیہ اپنی مرضی سے گھمانا شروع کیا۔
میں اس کہانی میں ڈوبتی چلی گئی۔
٭٭٭

 

گوہر شہوار
About the Author: گوہر شہوار Read More Articles by گوہر شہوار: 23 Articles with 28999 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.