اسلامی ہجری کیلنڈر اور ہماری غفلت

مولانا محمد منصور احمد
آج کل یہ رسمِ دنیا بن گئی ہے کہ کوئی مسئلہ ہو ‘ کوئی حادثہ ہو یا کوئی بھی اہم واقعہ ‘ بس اُس کا حل یہی ہے کہ مطالبات کیے جاؤ۔ حکومت سے مطالبہ ‘ حکمرانوں سے مطالبہ ‘ سیاسی لیڈروں سے مطالبہ ‘ قوی راہنماؤں سے مطالبہ ‘ مذہبی قائدین سے مطالبہ ‘ چیف جسٹس سے مطالبہ ‘ انتظامیہ سے مطالبہ ۔ پھر کبھی اس سے آگے بڑھ کر امریکہ سے مطالبہ ‘ برطانیہ سے مطالبہ ‘ اقوام متحدہ سے مطالبہ ‘ عالمی برداری سے مطالبہ ۔ اتنے بہت سارے مطالبات سن کر تو بلا اختیار ایک ٹرک کے پیچھے لکھا ہوا یہ شعر یاد آجاتا ہے ۔
ہمیں ہے اُن سے امیدِ وفا
جو جانتے ہی نہیں وفا کیا ہے

عرض کرنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ ان سب مطالبات کی بالکلیہ نفی کر دی جائے ۔ کہنا صرف یہ ہے کہ مطالبات کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے میں کوئی مطالبہ اپنے نفس یا اپنی ذات سے بھی ہے یا نہیں ؟ کہیں ہم نے ان مطالبات کو اپنی کام چوری اور غفلت شعاری کیلئے ڈھال تو نہیں بنا لیا ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم دوسروں کو ان کے فرائض یاد کرواتے کرواتے اپنا فرض ادا کرنا بھول گئے ہیں ؟

گزشتہ دنوں ایک جگہ ’’ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام میں حاضری ہوئی ‘ جہاں فیشن کے مطابق مطالبات کی تسبیح پڑھی جا رہی تھی ۔ بندہ کی باری آئی تو میں نے عرض کیا کہ یہ تمام مطالبات اپنی جگہ برحق ہیں اور میں ان سب کی تائید کرتا ہوں لیکن ان سب مطالبات کے بعد آئیں ‘ ایک مطالبہ میں آپ تمام حضرات سے بھی کرتا ہوں اور چاہیں تو آپ سب مجھ سے کریں ۔ پھر ہم سب اپنے گھر والوں ‘ اپنے متعلقین اور اپنے جان پہچان کے لوگوں سے کریں اور آخرکار یہ مطالبہ ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے ضمیر ‘ اپنے نفس اور اپنی ذات سے کریں ۔

وہ ایک مطالبہ یہ ہے کہ آخر ہم خود اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں اور اُن کے پاکیزہ طریقوں پر کیوں عمل نہیں کرتے ؟ ہم جو ساری دنیا کے حکمرانوں کو اپنے سامنے ایک ٹانگ پر کھڑا کر کے اُنہیں للکارتے ہیں ‘ ہمیں خود آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ہدایت پر عمل کرنے کی توفیق کیوں نہیں ہوتی ؟ آخر ہمیں داڑھی رکھنے سے امریکہ نے روک رکھا ہے ؟ ہماری خواتین کو پردہ کرنے سے کیا یہودی سازش رکاوٹ بنی ہوئی ہے ؟ ہمارے گھروں میں آلاتِ فحاشی کو نسا ملک رکھ گیا ہے ؟ ہم نے اپنی اولادوں کو کس کافر کے کہنے پر دینی تعلیم سے محروم کیا ہے ؟ ہماری شادیوں پر ہندوانہ رسومات بجا لانے کیلئے کب بھارتی ایجنٹ آتے ہیں ؟

یاد رکھیں ! یہ طرز ِ عمل کہ صرف جلسے جلوسوں سے کام لیا جائے اور اپنے اندر کوئی مثبت تبدیلی نہ لائی جائے ، قرآن و سنت کے موافق ہے نہ قیامت کے دن ہم اس کے ذریعے بارگاہِ الٰہی میں سرخرو ہو سکیں گے۔ آج بے عملی اور بد عملی کی اسی روش کی بنا پر کفار ہم پر مسلط ہیں ۔ آج ہم کفار کی سازشوں کا رونا تو بہت روتے ہیں لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اسلام کے تحفظ اور بقا کیلئے اپنے اپنے حصہ کا کام کیا ہے اور ہم اپنے عظیم اسلاف جتنے نہیں ‘ اسلام کے ساتھ اتنے بھی مخلص ہیں جتنے آج کفار اپنے کفر کے ساتھ مخلص ہیں ۔ آج کفار کی خواتین بھی اپنے مردوں کے شانہ بشانہ مسلم ممالک کی تباہی کیلئے سرگرمِ عمل ہیں ‘ جب کہ مسلمان مرد بھی جہاد و قتال کا نام سنتے ہی حیرت و اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ بات اتنی سی ہے کہ کفار کی تمام سازشیں اور تدبیریں مکڑی کے جالے کی طرح ہیں ‘ آپ گھر کی صفائی نہ کریں ‘ جھاڑو نہ لگائیں اور غفلت و سستی میں پڑے رہیں ‘ وہ جالے ہر سمت بڑھتے رہیں گے ۔ آپ اُن جالوں کے خلاف نعرے لگائیں ‘ اُن مکڑیوں سے فوری طور پر اپنی کاروائیاں روک دینے کا مطالبہ کریں بلکہ ان کے پس ِ منظر پر پوری کتابیں لکھ ڈالیں ‘ یہ جالے اتریں گے اور نہ ہی مکڑیاں اپنے کام سے باز آئیں گی ۔ آپ ہمت کریں ‘ جھاڑو اور برش اٹھائیں ‘ اپنے حصے کا فرض ادا کریں ‘ انشا اللہ سارے جالے ختم ہو جائیں گے اور ہر طرف اجالے پھیل جائیں گے ۔

یوں تو ہماری غفلت اور سستی کی داستانیں ہر سمت بکھری پڑی ہیں لیکن تازہ ترین بات کے طور پر اسی کو لے لیں کہ آج شام سے نئے اسلامی ہجری قمری سال کا آغاز ہو رہا ہے لیکن ہمارے گردو پیش اس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ۔ تھوڑے دن بعد عیسوی شمسی سال شروع ہونے والا ہے ‘ اُس موقع پر کیا طوفانِ بد تمیزی برپا ہو گا ‘ سب کو بخوبی اس کا اندازہ ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمان اپنی صحیح ‘ مستند اور معقول روایات بھی بھلا رہے ہیں اور دیگر اقوام اپنی بے سروپا ‘ من گھڑت اور نا معقول قسم کی روایات بھی نبھا رہے ہیں ۔

مسلمانوں کا سنہ ہجری ‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ ہجرت کی طرف منسوب ہے ‘ جو صرف ایک واقعہ ہی نہیں بلکہ دینی جدوجہد کرنے والوں کیلئے بالخصوص اور تمام مسلمانوں کیلئے بالعموم وہ عظمت و کامیابی کا ایک مکمل باب ہے ۔ دوسری طرف عیسوی کیلنڈر کے بارے میں تمام محققین کی رائے یہ ہے کہ اس کا سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ دراصل ’’ گریگوری ‘‘ کیلنڈر ہے اور ۱۸۵۱ئ تک اس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کوئی نسبت نہیں تھی ۔ ایک عیسائی راہب ڈینس ایگڑیکٹوس نے اس کو مذہبی رنگ دینے کیلئے بلاوجہ یہ نسبت دے ڈالی ۔ یہاں یہ سوال ابھی بھی حل طلب ہے کہ جن کے نزدیک سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ﴿نعوذ باللہ﴾ تین خداؤوں میں سے ایک ہیں تو پھر کیا خدا بھی پیدا ہوتے ہیں اور اُن کے سنۂ ولادت سے کیلنڈر بنائے جاتے ہیں ۔ جو خود پیدائش کا محتاج ہو وہ انسان تو ہو سکتا ہے ‘ خدا نہیں۔

قاضی محمد سلیمان منصور پوری(رح) نے اپنی کتاب ’’ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ میں دنیا کے دیگر تمام کیلنڈروں کے مقابلے میں اسلامی ہجری تقویم کی برتری بہت تفصیل سے ثابت کی ہے ۔ اسلامی ہجری کیلنڈر کے بارے میں مختلف کتابوں سے مرتب کر کے چند اہم معلومات نذرِ قارئین ہیں۔

مسلمان اپنے کیلنڈر کا آغاز رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس یاد گار سفر سے کرتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، دین اسلام کی سربلندی کیلئے اپنے آبائی علاقے اور بیت اللہ کے پڑوس کو چھوڑ کر کھجوروں والی سرزمین یعنی ’’مدینۃ النبویۃ المنوّرۃ‘‘ کی طرف فرمایا۔

چند ضعیف روایات سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ ہجری کا آغاز خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہوا اور زمانۂ رسالت میں ہی اس کی ابتدا ہوچکی تھی لیکن مشہور روایات یہی بتاتی ہیں کہ سنہ ہجری کا باقاعدہ آغاز امیر المؤمنین حضرت عمر (رض) بن خطاب کے دورِ حکومت سے ہوا۔

اس سلسلے میں جتنی روایات ہمارے سامنے ہیں اُن کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری(رض) نے جو ایک صوبے کے حاکم اور گورنر تھے انہوں نے حضرت عمر (رض) کو خط لکھا کہ ہمارے پاس آنجناب کے جو خطوط پہنچتے ہیں اُن پر تاریخ نہیں لکھی ہوتی اس لئے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کونسا حکم پہلے کا ہے اور کونسا بعد کا؟ اور کس حکم کو جاری ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہے؟

حضرت عمر(رض) نے ۷۱ھ میں حضراتِ صحابہ کرام (رض) کو تاریخ متعین کرنے کے بارے میں مشورہ کیلئے مدعو کیا۔ اس مجلس مشاورت میں اکابر صحابہ (رض) شریک تھے۔ جب مشورہ شروع ہوا تو چند لوگوں نے یہ رائے دی کہ مسلمانوں کی تاریخ کی ابتدائ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے ہونی چاہئے مگر حضرت عمر(رض) نے اس بات کو پسند نہیں فرمایا اس لئے کہ اس میں عیسائیوں کے ساتھ مشابہت تھی کہ وہ اپنی تاریخ کا آغاز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادتِ طیبہ سے کرتے تھے۔ مجلس میں ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے سنہ وار تاریخ شروع کی جائے۔ اس بات کو بھی حضرت عمر(رض) نے پسند نہیں فرمایا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ساری دنیا کیلئے بالعموم لیکن خاص طور پر جانثار صحابہ(رض) کیلئے بہت بڑا حادثہ اور عظیم مصیبت تھی اور اس طرح اس جان فگار حادثے کی بار بار یاد دہانی ہوگی اس لئے یہ رائے بھی قبول نہیں ہوئی۔ بحث ومباحثہ کے بعد اس پر سب کا اتفاق ہوگیا کہ ’’ہجرت‘‘ سے تاریخ مقرر ہونی چاہئے۔

یہ تو طے ہوگیا کہ اسلامی کیلنڈرکا آغاز واقعۂ ہجرت سے ہوا لیکن مہینوں کی ترتیب میں سب سے پہلے کس مہینے کو رکھا جائے، یہ مسئلہ بھی حل طلب تھا۔ حضرت عبدالرحمن(رض) بن عوف نے رجب المرجب سے ابتدا کرنے کی رائے دی کیونکہ حرمت والے مہینوں میں یہ سب سے پہلے آتا ہے۔ حضرت طلحہ(رض) نے رمضان المبارک کی رائے دی کیونکہ اس ماہ کی بہت فضیلت ہے۔ بعض حضرات نے ربیع الاوّل کی رائے دی کیونکہ اصل سفرِ ہجرت اسی ماہ میں ہوا تھا۔

حضرت عثمان(رض) اور حضرت علی(رض) نے ماہ محرّم الحرام سے آغاز کرنے کی رائے دی اور اسی کو حضرت عمر(رض) نے پسند فرمایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا پختہ ارادہ اور عزم محرّم کے مہینے میں ہی فرمایا تھا کیونکہ اس سے پہلے ذی الحجہ کے مہینے میں اہل مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ اقدس پر ’’بیعت عقبہ ثانیہ‘‘ کی تھی۔ محرّم میں ہی حضراتِ صحابہ کو ہجرت کی اجازت مل گئی تھی۔

حضرت عمر(رض) نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ لوگ فریضۂ حج کے بعد محرّم میں ہی واپس پہنچتے ہیں اس لئے محرم الحرام سے ہی سال کا آغاز ہونا چاہئے۔ بہرحال اس پر سب صحابہ (رض) کا اتفاق ہوگیا۔

اسلامی ماہ و سال کی حفاظت کرنا اور اسے کم از کم اس حد تک رائج رکھنا کہ قمری تاریخوں کا حساب ضائع نہ ہو جائے یہ مسلمانوں کے ذمہ ایک لازمی فریضہ ہے۔

حضرت مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:’’اس کے یہ معنی نہیں کہ شمسی حساب رکھنا یا استعمال کرنا، ناجائز ہے بلکہ اس کا اختیار ہے کہ کوئی شخص، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور عدّت کے معاملہ میں تو قمری حساب شریعت کے مطابق استعمال کرے مگر اپنے کاروبار تجارت وغیرہ میں شمسی حساب استعمال کرے۔ شرط یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسلمانوں میں قمری حساب جاری رہے تاکہ رمضان اور حج وغیرہ کے اوقات معلوم ہوتے رہیں، ایسا نہ ہو کہ اسے جنوری فروری کے سوا کوئی مہینے ہی معلوم نہ ہوں، فقہا(رح) نے قمری حساب باقی رکھنے کو مسلمانوں کے ذمہ فرض کفایہ قرار دیا ہے، ہاں، اس میں شبہ نہیں کہ سنت انبیا اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفائے ِ راشدین میںقمری حساب استعمال کیا گیا ہے، اس کا اتباع موجب برکت و ثواب ہے۔‘‘﴿معارف القران ۴/۷۰۵﴾

آج پوری دنیا میں ’’ شناخت اور پہچان ‘‘ کا معرکہ برپا ہے ۔ مغربی ممالک مساجد کے میناروں اور عورتوں کے حجاب پر پابندی عائد کر رہے ہیں کہ یہ ہماری تہذیب کیلئے خطرہ کی علامت ہیں ۔ کیا ہمارا یہ فرض نہیں بنتا ہے کہ ہم اسلامی شعائر کی بقا اور تحفظ کیلئے عملی اقدام کریں ‘ ہم اپنی شناخت اور پہچان پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کریں اور کم از کم اپنے معاشرے میں تو اسلامی ہجری سال کو اجنبی نہ بننے دیں ۔ اگر ہم سب اپنی نجی اور ادارتی خط و کتابت میں ہی قمری تاریخ لکھنے کا اہتمام کر لیں تو یہ ایک عملی دعوت بھی ہو گی اور ایک فرض کی ادائیگی بھی !

آئیں ! ہم سب نئے اسلامی سال ۲۳۴۱ھ کا استقبال اس طرح کریں کہ اسلامی سال کے بارہ مہینوں کے نام یاد کر لیں ۔ اپنے گھر کے لیے ایک ہجری کیلنڈر خرید کر لے آئیں اور اسے مناسب جگہ پر آویزاں کر دیں ۔ بچوں کو ان مہینوں کے نام یاد کرانا شروع کر دیں اور نیت کر لیں کہ ہر مہینے کا چاند دیکھنے کی کوشش کریں گے اور اس موقع کی مسنون دعائوں کا اہتمام کریں گے۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 192775 views A Simple Person, Nothing Special.. View More