داستان لازوال

دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
عبد الصمد چاچا 91سال کے سفید ریش، صحت مند بوڑھے تھے، پورا محلہ ہی انھیں بابا عبدالصمد کہہ کر پکارتا تھا شام ہوتے ہی گھر کے باہر سیمنٹ سے بنی منڈیر پر بیٹھ جاتے اور تسبیح پڑھتے رہتے۔ محلے کے خواتین گزرتے ہوئے ادب سے سلام کرتے گزرتیں اور بزرگ و مرد حضرات وہیں فیض یاب ہونے کو ٹھہرجاتے۔ گزے حالات پر خوشی اور موجودہ حالات پر افسوس کرلیتے۔ نور و حکمت کی باتیں سیکھ لیتے، اپنے گھروں کے مسائل میں مشورے لیتے، بعض اوقات گلی میں کرکٹ کھیلنے والے بچے اور نوجوان بھی بابا عبد الصمد کی باتیں سننے کے لیے گھیرا ڈال لیتے تھے اور پھر مغرب کی اذان شروع ہوتی تب ہی یہ محفل برخاست ہوتی۔ فوزان بھی بابا عبد الصمد کے گھر کے سامنے ہی رہتا تھا۔ اور ایک ذہین، نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا لڑکا تھا۔

23 مارچ قریب تھی فوزان کو اپنے اسکول میں یوم قرار داد پاکستان پر تقریر کرنا تھی۔ نہ جانے کر کٹ کھیلتے کھیلتے یہ بات کہاں سے ذہن میں آگئی کہ بابا عبد الصمد سے مدد لوں گا اور یہی کیا۔ شام میں عصر کے بعد ان کے بیٹھتے ہی کاپی قلم اٹھایا اور پہنچ گیا۔

سلام و دعا کے بعد مدعا بیان کیا، مدعا سن کر جھریوں سے بھرے شفیق چہرے پر تبسم پھیل گیا اچھا تو تمہارا موضوع ہے "وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے واہ یعنی تعلیمی اداروں میں اچھا رحجان ہے۔ واہ بھئی اﷲ کا کرم ہے۔بہت خوشی ہوئی برخوردار جی بابا۔ بس مجھے آپ ایسے واقعات بتائیں جو آپ نے خود دیکھے تھے جب آپ پاکستان آئے پھر میں انھیں لکھوں گا دیکھئے گا میری تقریر کو ہی پہلا انعام ملے گا۔ جوش و جذبے سے فوزان نے کہا۔

یہ الفاظ سنتے ہی بابا عبد الصمد کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا ’’کیا کہا بیٹا! پہلا انعام۔ تقریر۔ انعام کے لیے تقریر؟ لہجہ خود کلامی سا تھاجھریوں زدہ بوڑھے چہرے پر کرب سا پھیل گیا۔ ۔ بہت دکھ تھا بہت افسوس تھا ان بوڑھی آنکھوں میں۔۔
اے وطن جب بھی سر دشت کوئی پھول کھلا
دیکھ کر تیرے شہیدوں کی نشانی رویا

تو میرے بچے تمہیں صرف تقریر کے لیے وہ کربناک واقعات سننے ہیں جو جب سہہ تو روح تڑپی تھی۔ جو یاد کرو تو آج بھی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں یہ کیسی محبت کرتا ہے میرے بچے تواپنے وطن سے وطن سے محبت تو ایمان کا حصہ ہے ایسی محبت جو، ایمان کے لیے تھی ، انعام کے لیے کیسے بن گئی میرے بچے اور اس انعام کے لیے میں کیا کیا بتاؤں گا؟ کیا یہ بتاؤں گا کہ آزادی کی طلب میں کہ بچہ بچہ، ہر نوجوان، بوڑھا گلی گلی پھرا تھا، وطن عزیز کے لیے گھروں میں آگ لگوائی تھی یا یہ بتاؤں کہ اس ایمان اس پاکستان کو بنانے کے ہمارے ایمانوں تک پر حملہ کیا گیا تھا۔۔ ہمیں سکھ بلوائی پاگل کتوں کی طرح ڈھونڈ تے تھے ہم داڑھیاں منڈا کر پھرتے تھے صرف اس لیے کہ یہ معلوم نہ ہو ہم مسلمان ہیں، اپنے گھر کی عورتوں کی عزت بچانے کے لیے۔ یا یہ بتاؤں کہ مسلمانوں نے اس وطن کو ایمان بنانے کے لیے وہ اذیت ناک دن بھی دیکھا تھا جسے آج بھی سوچو تو دل تڑپتا ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ جس مقدس کتاب کو ہم ایمان والے آنکھوں سے لگاتے ہیں، سینے میں رکھتے ہیں، لبوں سے چومتے ہیں۔

جس کتاب کے سائے میں اپنی بیٹیوں کو ان کی نئی زندگی میں وداع کرتے ہیں اسی پاک کتاب قرآن پاک تک کی بے حرمتی کی گئی قرآنِ پاک کے اوراق شہید کر کے مساجد کے راستے میں بکھیرے گئے کہ جو ان مقدس اوراق سے قدم بچا کر چلا وہی مسلمان ہوگا، اسی کے گھر کی عزت سکھوں، ہندوؤں کے ہاتھوں بھینٹ چڑھے گی اور یہی نہیں اس خوف سے کہیں قرآن کی بے ادبی نہ کر جائیں کء کء دن مسجدیں ویران رہیں۔ ان میں صدا ِ اﷲ اکبر بلند نہ ہوئی یا یہ بتاؤں کہ بوڑھے باپوں کے سامنے ان کے جوان سالہ بیٹوں کی گردن میں نیزے اتارے گئے پر وہ بوڑھا اس وطن ِ ایمان کے لیے آنسو صاف کر کے، درد ودکھ سے بھرے دل اور آنکھوں میں وطنِ پاک کی امید لییآگے بڑھ گیا یا وہ واقعہ بتاؤں جب باپ نے پاک زمین پر سجدہ کرنے کے لیے یہاں پہنچنے کے لیے عزت کی خاطر بیٹیوں کے آگے ہاتھ جوڑدیے اور وہ خوشی خوشی کنوئیں میں چھلانگ لگا کر اپنے آپ کو موت کے سپر د کر گئیں یہ سوچ کر کہ ہم نہیں ہمارے بہن بھائی آنے والی نسلیں اس پاک دھرتی کو پالیں گے ۔۔ اس ایمانِ پاک کو پالیں گے وہ آزادی سے عزت کے ساتھ رہ لیں گے یا بیٹا تمہیں تمہاری تقریر کے لیے وہ واقعہ بتاؤں جسے سن کر ماؤں کا کلیجہ پھٹ جائے۔ جسے سن کر پتھر سے پتھر دل نم ہوجائے کہ جب پاکستان آنے کے لیے سفر شروع کیا تو لاری پر سکھوں نے حملہ کردیا،،، ان مسافروں میں نو ماہ کی حاملہ بھی تھی اور ایک دن کی زچہ بھی لیکن اس محبت ِ وطن میں وہ اپنی تکلیف نظر انداز کیے ہوئیں تھیں اور جب ان سکھوں سے بچنے کے لیے سخت گرمی میں جھاڑیوں کی پناہ لی تو وہ نو نومولود جس نے ابھی سورج نہیں دیکھا تھا گھبرا کر رونے لگا، بلکنے لگا اور اس ماں نے اپنی کوکھ اپنے ہاتھوں سے اجاڑ دی اس نے اپنے خون سے سینچے اس بچے کا گلہ خود اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیا۔ مامتا حیرت زدہ ہوگئی۔ وقت انگشت بدنداں اور وہ نومولود بے جان۔

اور پھر اس مردہ وجود کو سینے سے لگا کر تڑپ کر بنا آواز کیے وہ ماں بین کرنے لگی اس ماں کی عظمت کو سلام کروں یا افسوس جو اپنی مامتا کا گلہ گھونٹ کر کھل کے غم بھی نہیں منا سکی تھی یہ یہ سوچ کر کہ قافلے میں موجود اس وطن کو پانے کی امنگ لیے اس کی جوان بہنوں کی عزت پر آنچ نہ آجائے قافلے پر کوئی مصیبت نہ آجائے۔

قافلے سوہنی دھرتی پر پہنچنے سے محروم نہ رہ جائے قافلہ اپنے ایمان، اپنی جانِ پناہ میں جانے سے محروم نہ ہوجائے۔ لکھو بیٹا لکھو ۔ اس ماں کا چند گھنٹوں کا بچہ بھی تحریک پاکستان کے شہداء میں شامل ہے ۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

نہیں پتا تھا بیٹا اسے نہیں پتا تھا کہ 20 لاکھ جانوں کا نذرانہ، خون کو پانی کا پانی کی طرح بہانا بیٹیوں کی عزت بچانے کے لیے انھیں کنوئیں میں دھکیلنا۔ جوان بیٹے کا سینہ چھلنی چھلنی دیکھنا۔ اپنا زر، زن، زمین سب کچھ لوٹاکر جس وطن پاک کو حاصل کیا تھا۔ آج اس وطن کے معماروں کو قربانیاں جاننی بھی ہیں تو انعام کے لیے۔ نہیں معلوم تھا۔ نہیں معلوم تھا۔

سفید داڑھی پر موتی چمک رہے تھے عبدالصمد بابا کی لرزیدہ بھرائی ہوئی آواز ابھی بھی اس درد کو بیان کر رہی تھی جو انھوں نے نو جوانی میں آنکھوں سے دیکھا فوزان یک ٹک سن سا بیٹھا ہے سنتا جارہا تھا۔

ارے نہیں معلوم تھا بیٹا نہیں معلوم تھا ان سرشار محب وطن کے سادہ دل لوگوں کو۔ نہیں معلوم تھا کہ جس پاک سر زمین کو لاکھوں جانوں کو بے جان کر کے ، لہو کو آب بنا کر حاصل کریں گے،ساٹھ سال کے بوڑھے سے لے کے ایک دن کے بچے تک کی زندگی نثار کر کے اس جس وطن پاک کے خواب دیکھے تھے وہ شرمندہ تعبیر ہو کر شرمندہ ہوجائے گا کہ اس ملک میں پاکستانی آج دو دو روپے میں ایمان فروخت کر رہی ہوگی۔ جو اپنا نام گھر بار اولاد لوٹا کر آئے تھے اسی وطن میں گیس، پانی، بجلی، چوری ہوگا اسی وطن میں آج بھائی، بھائی کا گلہ کاٹ رہا ہوگا جس وطن کو ایمان۔ کا نشان بنا کر حاصل کریں گے۔ اس پاک وطن کی صدارت ایسے لوگ کریں گے جو منافقِ وقت، فرعون وقت ہوں گے۔

جو کبھی وطنِ پاک کا سودا کر لیں گے، کبھی خود بک کر پاک وطن کو بکاؤ بنا دیں گے، کبھی اسلامی تعلیم کے خلاف جانے والوں کو صدر بنا دیں گے، کبھی گستاخان اسلام کے حامی ہوں گے۔ کبھی عاشقانِ رسول ﷺ کو پھانسی چڑھا دیں گے۔ کبھی گستاخان کو پناہ دیں گے، کبھی وطن کی بیٹیوں کے آنچل تار تار ہوں گے، کبھی جدیدیت کے لباس میں پاک وطن کی بیٹیوں کو بے لباس کر دیں گے، کبھی کلچر کے نام پر بے حیائی کو فروغ دیں گے ۔

بیٹا فوزان ! بہت درد سہے اس زمین نے بہت تب یہ حاصل کیا ہم نے۔ تمہیں اﷲ کامیاب کرے جاؤ۔ لیکن لوگوں یہ اپنی تقریر میں یہ سمجھانے کی کوشش کرنا کہ یہ وطن ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملا نہیں ملا۔ نہیں ملا۔
مغرب کی اذان ہونے لگی تھی اور باباعبد الصمد وہاں سے شکستہ قدموں سے آنکھیں صاف کرتے مسجد کی جانب چل پڑے۔

مگر فوزان وہیں بیٹھا رہ گیا جو کاپی قلم نوٹ کرنے کے لیے لایا تھا اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ بابا عبد الصمد کا لفظ لفظ زخم تھا جو دل پر نقش ہوگیا تھا ۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

Dur Re Sadaf Eemaan
About the Author: Dur Re Sadaf Eemaan Read More Articles by Dur Re Sadaf Eemaan: 49 Articles with 46172 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.