ایران اورامریکا،حریف یا حلیف ؟

ایرانی صدرحسن روحانی نے۱۷فروری کو اپنے دورۂ بھارت کے دوران چابہاربندرگاہ کے ایک حصے کاآپریشنل کنٹرول بھارت کو۱۸ماہ کی لیز کے معاہدے پردستخط کردیئے ہیں اور یوں خطے میں بھارت کوتوسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے ایرانی حکومت مسلم دشمن متعصب ہندومودی کی اتحادی بن گئی ہے۔دونوں ممالک نے دہشتگردی کے خلاف ساتھ دینے کااعلان بھی کیاہے ۔بھارت کے دورے کے موقع پرایران کے صدرحسن روحانی اوربھارتی وزیراعظم مودی کے مابین مذاکرات کے بعد دونوں ممالک نے چاہ بہارکے شاہدبہشتی پورٹ کی لیز،تحویل ملزمان، دہرے ٹیکسوں سے بچاؤاورتجارت ومواصلات کے ۹معاہدوں پردستخط کردیئے ہیں۔بھارت چابہارکے راستے افغانستان تک راہداری ہی نہیں،وسطی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی چاہتاہے۔بھارت کتنی تیزی کے ساتھ ایران کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف گھیراتنگ کرنے کی کوشش کررہاہے اس کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ بھارت اومان سے بھی اس کی ڈکم پورٹ کا کنٹرول حاصل کرنے کاایک معاہدہ کرچکاہے جواس امرکی عکاسی کیلئے کافی ہے کہ بھارت ایران اوراومان کی بندرگاہوں کوپاکستان کے خلاف بطورفوجی چھاؤنی استعمال کرے گا۔ایراان اوراومان کی بندرگاہیں بھارت کے پاس جانے سے گوادر پورٹ کوخطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ ایران کی چابندرگاہ گوادرسے صرف۹۰کلومیٹرکے فاصلے پر ہے۔ایرانی صدرحسن روحانی کے دورۂ بھارت کی تفصیلات سے پاکستان کی بدترین سفارتکاری کاتاثرملتا ہے جس کی وجہ سے ایک مسلم ملک نے پاکستان کے مفادات کو نظراندازکرکے اس کے بدترین دشمن بھارت کے ساتھ اتنے قریبی تعلقات بڑھانے میں کوئی عارمحسوس نہیں کی۔اہم ترین بات یہ ہے کہ ایران اور بھارت کی سرحدیں کہیں بھی نہیں ملتیں،اس طرح افغانستان اور بھارت کے درمیان بھی کوئی مشترکہ سرحدنہیں لیکن امریکی سرپرستی میں بھارت کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان کوچاروں طرف سے گھیرکرغیرمستحکم کیاجائے ۔ افغانستان پرجارحیت اوروہاں اپنے قیام کے دوران امریکانے افغانستان میں کٹھ پتلی حکومت قائم کی اوراس کے بعدبھارتی اوراسرائیلی ایجنسیوں کوافغانستان میں امن اورتعمیروترقی کی بحالی کے نام پرقدم جمانے کاموقع دیا۔ایرانی حکومت بخوبی جانتی ہے کہ بھارت ہرصورت میں پاکستان کونقصان پہنچانے کے درپےرہتاہے۔

پاکستان کے ساتھ ایران کے مسئلے پراختلافات ہوسکتے ہیں لیکن بھارت تو مذہبی،تہذیبی،ثقافتی،نسلی،لسانی اورمعاشرتی لحاظ سے متضادہے اس کے باوجود ساڑھے آٹھ کروڑڈالرکے چابہارکے منصوبے پردستخط کرکے پاکستان کیلئے خطرات میں اضافہ کردیاگیاہے۔بھارت کی جانب سے اس معاہدے کامقصد بظاہرپاکستان کوبائی پاس کرکے بھارت ، ایران اور افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ روٹ قائم کرناہے لیکن معیشت میں یہ پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کونقصان پہنچانے کی ایک کڑی ہے۔پاکستان اورچین کے درمیان اقتصادی راہداری منصوبے سی پیک سے بھارت اورامریکا ناخوش ہیں، اگرایران بھی خوش نہیں تویہ دو مسلم ممالک کے درمیان خواہ مخواہ وجہ تنازعہ بن جائے گا۔اس لئے۱۸ ماہ تک چابہار کے آپریشنل کنٹرول پربھارتی تسلط کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ بحری تجارت کے نئے تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں اوربھارت کااصل مقصودبھی یہی ہے۔
اس موقع پرایران نے سلامتی کونسل میں بھی بھارت کی رکنیت کی حمائت کا اعلان کیاہے اورمطالبہ کیاہے کہ ایک ارب سے زائدآبادی کے ملک کو ویٹوکا اختیاردیاجائے۔پاکستان سے بظاہردوستی اوررواداری کادم بھرتی ایرانی سیاسی ومذہبی قیادت کی جانب سے بھارت کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت اوراس کے ویٹوپاورکے مطالبے نے پاکستانی کے رہے سہے اعتمادکوبھی شدیدٹھیس پہنچائی ہے۔بھارت کے ساتھ سلسلہ جنبانی بڑھانے کی ایرانی پالیسی اس حقیقت کواجاگرکرتی ہے کہ استعماری قوتیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کاگھیراتنگ کررہی ہیں اوراس کیلئے بھارت اور افغانستان کے بعدایران کوبرؤئے کارلایاجارہاہے۔گوادرسے صرف۹۰کلومیٹرکے فاصلے پرواقع چابہار بندرگاہ کاٹھیکہ بھارت کو دینے کامطلب اس کے سواکیاہو سکتاہے کہ بھارت اور ایران مستقبل میں گوادرکی ابھرتی تجارتی اورمعاشی اہمیت پر کاری ضرب لگانے کی سازش میں شریک کارہیں۔

ایران کابھارت کی طرف تیزی سے بڑھتاہوارحجان کوئی آج کی بات نہیں۔عرب وعجم میں کشمکش کی کہانی پرانی ہے مگرایران کے مسلکی حکمرانوں کی بتکدہ ریاست پرمہربانی سے حیرانی ضرورہوتی ہے۔۱۹۷۹ءکےمسلکی انقلاب کے بعد "تقیہ" کے ہتھیارسے لیس ایران نے پاکستان کی پیٹھ میں مارچ۱۹۹۴ءمیں بھی چھراگھونپ کربھارت کی شرمناک مدد کی تھی۔ جموں وکشمیرکی حقوق انسانی کی ابترصورتحال کے حوالے سے تنظیم اسلامی کانفرنس(اوآئی سی) نے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن میں ایک قراردادپیش کرنے کافیصلہ کیاتھا جس میں کشمیرمیں حقوق انسانی کی شرمناک خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھارت کی زبردست سرزنش اوراس کے خلاف اقدامات کی سفارش کی گئی تھی۔ منظوری کی صورت میں یہ قرار داد براہِ راست اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سپردکردی جاتی جہاں بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائدکرنے کے قواعدتقریباًتیارتھے مگراس دوران کوہ البرزکے دامن میں واقع تہران ائیرپورٹ پرشدیدسردی میں بھارتی فضائیہ کے ایک طیارے نے برف سے ڈھکے رن وے پرلینڈنگ کی ۔

یہ طیارہ اس وقت کے وزیرخارجہ دنیش سنگھ اوردیگرتین مسافروں کولیکرآیاتھا ۔دنیش سنگھ ان دنوں دہلی کے ہسپتال میں زیرعلاج تھے اورچارپائی پر پڑے زندگی کی گھڑیاں گن رہے تھے ۔چلنے پھرنے سے بھی معذورا ور اسٹریچر پر ایرانی صدرعلی اکبرہاشمی رفسنجانی کے نام نرسمہاراؤکااہم مکتوب لیکرآئے تھے اورذاتی طورپر ان کے حوالے کرناچاہتے تھے۔ اس وقت بین الاقوامی طور پر بھارت کی پوزیشن مستحکم نہیں تھی ۔اقتصادی صورتحال انتہائی خستہ تھی کہ سرکاری خزانہ بھرنے کیلئے بھارتی حکومت نے ساراسونابیرون ملک گروی رکھ دیا تھا ۔ نرسمہا راؤ نے بڑی چالاکی سے ایران کو مطمئن کرکے اس بات پرآمادہ کرلیاکہ وہ او آئی سی میں مذکورہ قراردادکی منظوری کے وقت غیرحاضررہے۔ مکاراور چالاک بنیاء راؤسمجھتاتھاکہ ایران کے غیرحاضررہنے کی صورت میں یہ قراردادخودبخودناکام ہوجائے گی۔اوآئی سی کئی بین الاقوامی اداروں کی طرح ووٹنگ کی بجائے اتفاق رائے سے فیصلے کرتی ہے ۔ ایرانی حکام کوبھارتی وزیرخارجہ کے اچانک تہران میں نزول اوراپنے وزیرخارجہ علی اکبر ولائتی کے پروٹوکول اصول کوبالائے طاق رکھتے ہوئے خودہوائی اڈے پرپہنچ کر بھارتی وزیرخارجہ دنیش سنگھ کوصبح سویرے سردی سے ٹھٹھرتے وہیل چیئر سے اترتے ہوئے استقبال کرتے ہوئے حیرانی ہوئی تھی۔ دنیش سنگھ کی مکاری، عیاری اورفنکاری کامیاب ٹھہری اور ایران نے پاکستان کی پیٹھ میں چھراگھونپ دیا۔ بھارتی وزیر خارجہ کامشن پوراہواتوکچھ عرصہ کے بعدوہ دیہانت بھی کرگیا۔
اب پھرایران بھارت کاگٹھ جوڑ،بات سمجھ میں یہ آتی ہے کہ یہ پھراسلام دشمن روّیہ قراردیاجاسکتاہے۔دشمن اسلام کا دوست کیسے اسلام دوست قراردیا جا سکتا ہے۔اسلامی حکمران بت شکن رہے ہیں،بت پروان نہیں۔بھارت چابہاربندرگاہ کو ۷۲۰۰کلومیٹرطویل انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈورکے ساتھ جوڑکر آرمینیا،آذربائیجان،روس اور یورپ تک رسائی حاصل کرکے چین کے ون بیلٹ ون روڈ کے مقابلے میں کھڑاکرنے کے فراق میں ہے۔اس سلسلے میں اسے امریکااوراسرائیل کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اوریوں (بناہے شاہ کامصاحب پھرے ہے اتراتا)مگرایران اورامریکاتوحریف ہیں،یہاں حلیف کیسے؟

ایران نے پاکستان کی آزادی پرسب سے پہلے اسے تسلیم کرنے کاجواحسان کیاتھا اسی طرح صدرمحمدضیاء الحق نے اسلامی انقلاب کے بعددنیامیں سب سے پہلے امام خمینی کی حکومت کوتسلیم کرکے یہ قرض چکادیاتھااور۱۰مارچ کوسب سے پہلے ایران میں اپنے وزیرخارجہ آغا شاہی کوایران بھیج دیا جنہوں نے۱۱ مارچ کوامام خمینی سے ملاقات کرکے جنرل ضیاء الحق کی نیک خواہشات اور ہرقسم کی امدادکی یقین دہانی کاخصوصی پیغام پہنچایاکہ پاکستان امام خمینی کو اسلام کاعظیم سرمایہ سمجھتاہے مگرخمینی انقلاب کے پیروکارتوشہنشاہ کہلانے والے رضاشاہ پہلوی کی اسلام دوستی کی رویات بھی برقرارنہ رکھ سکے۔

ایران عراق جنگ میں امریکااورسعودیہ دباؤ کے باوجودعراق کی حمائت سے گریزکیابلکہ درپردہ اس جنگ میں حکومتی سطح پرایران کومسلک وارم اور سٹنگرمیزائل کی فراہمی کابندوبست بھی کیاجوایران کی سلامتی کے ضامن بنے مگرآج پاکستان کواس کے عوض ایران،بھارت کے ہاتھوں کھیل کرخوب پریشان کرنے میں مصروف ہے۔بھارتی''را''کاحاضرسروس کلبھوشن چابہارمیں بیٹھ کر پاکستان میں دہشتگردکاروائیاں کرتارہا۔لہومسلم بہتارہااورایران یہ تماشہ دیکھتارہا ،گرفتاری پراس نے سارے رازکھول دیئے۔ بھارت اورایران کے درمیان توسیع پسندانہ عزائم اورمتشددانہ ذہنیت قدرمشترک ہیں۔ایران گزشتہ آٹھ برسوں سے پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ میں فرقہ وارانہ بنیادپردخیل ہے اوراس کے عسکری ومالی تعاون کے بل پرہی بشارالاسدانتہائی بیدردی سے مسلمانوں کاخون بہارہا ہے۔ایران جنوبی ایشیاسے مشرقِ وسطیٰ تک غیر منقطع اورمحفوظ طرح داری قائم کرناچاہتاہے جس میں اسے تمام استعماری طاقتوں کی مددحاصل ہے۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349924 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.