حضور مفکّرِ اسلام پروفیسر محمد حسین آسی رحمۃ اﷲ علیہ

از قلم: علامہ سعید آسوی۔نارووال (0306-8420977)
شمس العرفاء ، بدر الاولیاء ،مفکّرِ اِسلام پروفیسر محمد حسین آسی ؒ ۱۹۳۹؁ء کو مزارات سے گھری ایک بستی ’بکنور‘(بقعۂ نور سے)تحصیل پٹھان کوٹ ضلع گورداسپور(انڈیا) میں پیدا ہوئے۔جب پاکستان بنا تو آپ کا خاندان ہجرت کر کے شکرگڑھ ضلع نارووال آ کر آباد ہو گیا۔حضور مفکّرِاِسلام قدس سرہ کے خاندان میں بکثرت صالحین و کاملین ہوئے۔اور آپ خوداپنے دور میں آسمانِ ِمعرفت کے ستاروں میں آفتابِ نصف النّہار بن کر چمکے۔
حضور مفکّرِ اِسلام ؒ کا مبارک بچپن آپ کی عظمت ِشان کا مظہر ہے ۔عموماً دیکھا گیا ہے کہ دیہاتی فضا میں پرورش پانے والے بچے گالی گلوچ کے عادی اور شائستگی سے دور ہوتے ہیں ۔ان کا شعور بھی عموما ًپست ہوتا ہے۔مگر ہمارے حضرت فطرتا ًخوش اطوار، شائستہ ،نہایت صفائی پسند اور پختگی ٔشعور سے مزیّن تھے ۔ آپ کی عادات عا م دنیا داروں کی سی نہ تھیں ۔اپنی پسندیدہ عادات اور حُسنِ اَخلاق کی بدولت اپنوں بیگانوں اور چھوٹوں بڑوں میں یکساں ہر دلعزیز تھے۔صبر وقناعت ،تسلیم و رضا اور محبت و مشقت کی طرف ابتداء ہی سے طبیعت مائل تھی۔کبھی والدین کو رنجیدہ تو کیا معمولی پریشان بھی نہ کیا ۔
آپ کے خاندان کے بزرگ بیان کرتے ہیں کہ شِیر خوارگی میں جب بھی ماہِ رمضان آیا ،دن بھر میں آپ نے دودھ نہیں پیا ۔پھر عمر مبارک بمشکل چار پانچ سال تھی،جب تہجدکے وقت اٹھ کر بیٹھ جاتے اور جس طرح سے ہوتا مصلّیٰ بچھا کر نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ بچپن اور یونہی لڑکپن میں بھی عام بچوں سے الگ تھلگ ہی رہتے تھے۔ کھیل کوُد میں کبھی بھی رغبت نہ رہی۔یہی وہ دور تھا جب کثرت سے مزارات پہ جانے کا آغاز ہو چکا تھا ۔اپنے علاقے کے بڑے مزارات کی حاضری کا گہرا شغف تھا۔ ٹوپی اور سُنّت کے مطابق سفید لباس پہننے کا آغاز بھی اسی دورسے ہو چکا تھا۔سگریٹ حُقّے وغیرہ سے سخت نفرت تھی یہاں تک کہ حقہ کپڑے کو لگ جاتا تو خوب اچھی طرح سے دھوتے۔ذہانت و فطانت کی یہ صورتحال تھی کہ ایف اے میں تمام مغربی پاکستان میں سیکنڈ پوزیشن حاصل کی۔نیز اسی دور میں اپنے پروفیسرز سے دو دو گھنٹے انگریزی میں گفتگو کر لیا کرتے تھے۔ عربی اور فارسی میں بھی آپ کو عبور حاصل تھا۔آپ اس دور کی وہ با کمال شخصیت تھے جنہوں نے اردو ،پنجابی،فارسی،عربی،انگریزی پانچ زبانوں میں نعتیہ کلام لکھا ۔جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ اور گورنمنٹ ڈگری کالج شکرگڑھ میں بحیثیت پروفیسر تعیناتی کے باوجود عاجزی و انکساری آپ کی طبیعت میں غالب تھی۔
حضور مُفکّرِ اِسلام رحمۃؒکا دورِ شباب ذہنی و قلبی تطہیر اور فکری و عملی پاکیزگی میں اپنی مثال آپ تھا ۔آپ باجماعت نمازِ پنجگانہ ہی نہیں تہجّدکے پابند (اور وہ بھی ہمیشہ غسل کر کے)، نہایت عابد وزاہد اور اپنے خداورسول کو راضی رکھنے کے لیے رات رات بھر جاگنے والے تھے۔کثرت ِعبادت سے ایڑیوں اور ٹخنوں پر نشانات بن چکے تھے۔جو انیاں اَور وں نے بھی گذاریں مگر یہ کیسی جوانی تھی کہ جس میں سراسر اطاعت ِخُداوندی، عشقِ مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء، خدمت ِشیخ اور تبلیغ و اشاعت ِدینِ محمّدی صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مشاغل ہی تھے ،اس کے سوا کچھ نہ تھا ۔حقیقت یہ ہے کہ ایسی ہستیاں کہیں صدیوں کے بعد منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہیں ۔ان کی آمد سے پہلے روحِ فطرت ان کی منتظر رہتی ہے اور ان کے ارتحال کے بعد زمانہ ان کے گُن گاتا ہے۔
آپ کے شیخ تاجدارِ ولایت پیر سید علی حسین شاہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ(علی پور سیداں شریف) نے آپ کو فیض اوررُشد وہدایت کا منبع بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ۔وہ اکثر اس خواہش کا کسی نہ کسی شکل میں اظہار فرمایا کرتے تھے کہ ’’ میرا دل ہے کہ جو کچھ میرے پاس ہے انہیں (حضور مفکرِ اسلام کو)دے دوں‘‘۔سالانہ عرسِ مقدّس ۲ اکتوبر ۱۹۸۶؁ء کے موقع پر شیخِ کریم نے سب سے پہلے ہمارے حضور ہی کو دستارِ خلافت عطا فرمائی یوں آپ ان کے خلیفۂ اعظم کہلائے۔چنانچہ ُاس آفتابِ ولایت نے اِس ماہِ ولایت کو روشن کیا تو چہار دانگ عالم میں ان کی تابانیوں کے جلوے نظر آئے اور ایک زمانہ ان کی روحانیت کی کرنوں سے مستنیر ہوا۔
حضورخلقِ خدا کو راہ ِحق کی طرف بلانے کے جذبے سے سرشار تھے اور دنیا کی کوئی مصلحت یا حالات کی کوئی تبدیلی آپ کے جوشِ تبلیغ میں حائل نہ ہوسکی۔اور جوانی سے پیری تک تمام ترتوانائیاں توحید کے انوار پھیلانے اورمحبتِ رسول ﷺسے خلقِ خدا کومنوّر کرنے میں صَرَف کردیں۔ غلبۂ دینِ حق کی بحالی ،احیائے دین، تحفّظِ عقیدۂ ختمِ نبوّت اور نوجوانانِ ملک و ملت کی اصلاحِ کردار کے لیے آپ نے ایک عظیم تنظیم’ شیرانِ اسلام‘ قائم کی جبکہ علمی و فکری جہادکے لیے ماہنامہ’ الحقیقہ‘ کا اجراء فرمایا۔ جنہوں نے قلیل سے وقت میں عظیم الشان تبلیغی کارنامے سرانجام دئیے ۔
آپ کلمۂ حق کہنے میں نہایت بیباک تھے۔ اس کا ثبوت وہ اداریئے ہیں جو آپ نے ’’مجلۃ الحقیقہ‘‘ میں لکھے۔ سیاسی حکمرانوں اور چند نام نہاد مذہبی لیڈروں کے غلط کاموں پر ان کی سخت سرزنش کی۔لوگوں نے کہا آپ زیرِ عتاب آسکتے ہیں، ڈرایا دھمکایا گیا،حملوں کی منصوبہ بندی بھی ہوئی لیکن اس مردِ قلندرکا ایمان افروز جواب یہ ہوتا تھا:
’’ میری زندگی کے جو چند دن رہ گئے ہیں،(یہ بھی) رسولِ پاک صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کے دین کی عزّت و ناموس کے لیے وقف کرچکا ہوں۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کے دین کو ذبح کیاجارہا ہو اور میں بے حس بنا دیکھتا رہوں، ایسی زندگی سے تو موت بہتر ہے‘‘۔
فخر العلماء حضرت ابوداؤد محمد صادق صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے پیرانہ سالی میں آپ کے جہاد با لقلم کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا :
’’مولانا موصوف (حضور مفکرِ اسلام علیہ الرحمہ )کی علمی و روحانی طاقت کا قائل ہونا پڑتا ہے کہ بظاہر اتنی کمزوری و ضعیفی اور بیماری کے باوجود وہ رسالہ لکھتے وقت بالکل جوان نظر آتے ہیں۔ماشاء اﷲ نظم و نثر میں اتنے طویل مضامین لکھتے ہیں اور علمی و تاریخی دلائل و حوالہ جات کا ذخیرہ پیش کرتے ہوئے انہیں کوئی تھکن ،رکاوٹ اور بیماری و کمزوری سدِّراہ نہیں ہوتی۔ بلاشبہ یہ ان کی روحانیت و کرامت ہے ‘‘۔
عمرِ عزیز کے آخری چند سال بوجہ علالت کہیں آنا جانا اگرچہ محدودتھا،تاہم پھر بھی آستانۂ عالیہ سے نکل کر ایسی جگہ ضرور تشریف لے جاتے جہاں آپ محسوس کرتے کہ میرے جانے سے لوگوں کے ایمان بچیں گے۔ان کے عقیدوں میں پختگی آئے گی۔یہ علیٰحدہ بات ہے کہ اس سفر کے باعث کئی روز آپ کی طبیعت ِمبارکہ ناساز رہتی ۔ڈاکٹرز چیخ اٹھتے کہ حضور آرام فرمائیں وگرنہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔آپ کا جواب ہوتا: رسول اﷲﷺ توں صدقے جان میری ایہہ فانی زندگی قربان میری
سیدی ومرشدی حضورمفکّرِ اسلام ؒ تبلیغ کے معاملے میں شہر ہوں یا دیہات، ملک کے طول و عرض کو یکساں فیضیاب کرتے رہے بلکہ بیرونِ ملک بھی آپ کے فیض کی کرنیں پہنچیں۔مکہ شریف اور مدینہ منورہ کی مختصر حاضری کے دوران عظیم الشان تبلیغی فتوحات میسر آئیں ۔اسی طرح امریکہ ،سپین،ڈنمارک،جرمنی،انڈیا، برطانیہ، لیبیا،تاجکستان ،ترکی اور متعد دیگر ممالک میں آپ کے تربیت یافتہ تلامذہ اور مریدین نے بہتیرے دینی کارنامے سرانجام دیئے۔آپ کے دستِ مبارک پر متعدد غیر مسلموں بشمول قادیانیوں نے اسلام قبول کیا۔
آپ اﷲ کریم اور رسولِ عظیم صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ کے’ حضوری‘ تھے ۔ایک مرتبہ نہایت وارفتگی کے عالم میں فرمایا ، ’’اگر کوئی مجھے ساری دنیا کی دولت دے کر اﷲ تعالی کی محبت کا کروڑواں حصہ بھی نکالنا چاہے تو میں اس ساری دولت پر تھوکتا بھی نہیں‘‘۔
عشقِ رسول کی یہ صورتحال تھی کہ جب بھی کوئی ملنے آتا ،حضورِ اکرم نورِ مجسّم صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حُسن و جمال اور فضل وکمال کی باتیں جھوم جھوم کر سناتے۔بارہا ہم نے دیکھا کہ صبح سے لے کر شام تک لوگ آ اورجا رہے ہیں اور آپ ایک ہی انداز میں بیٹھے عشقِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خوشبو بکھیر رہے ہیں۔
پھر آپ کی محبت ِرسول صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلمکاایک پہلو یہ بھی تھا کہ کوئی آپ کے سامنے حضور صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذکرِ پاک کرتا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔بالخصوص کھڑے ہو کر صلوٰۃ و سلام پڑھتے آپ کی عجیب کیفیت ہوتی تھی۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ آپ کے جسمِ مبارک کا ذرّہ ذرّہ بارگاہِ نبی کی طرف متوجّہ ہے۔ آپ کی غلامی کا سب سے بڑا فائدہ بھی یہی تھا کہ قلوب و اذہان حضور سرورِ دار ین صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت و غیرت سے منوّر ہو جاتے تھے اور جوں جوں آپ سے رابطہ بڑھتا ،خواجۂ دو جہاں صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت و غیرت بھی بڑھتی جاتی۔
حُبِّ خدا و رسول جل مجدہ فصلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سلسلہ میں آپ نے جو ادائیں اختیار کیں ،اس دَور میں ان کی مثال نہیں ملتی۔سب کا تذکرہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں،پھر کئی باریکیاں ایسی ہیں جنہیں سمجھنا عام انسانی عقل کے لیے محال ہے،تاہم ذوقِ ایمان کو جلا دینے کے لیے چند کا بیان یہاں کیا جاتا ہے۔
٭۔۔۔آپ نے خدا کا اسمِ ذاتی’اﷲ‘ اور حضور پاک صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے ذاتی ’محمد صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم‘ اور ’احمد صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم‘ کبھی بے وضو نہیں لیے۔
٭۔۔۔تہجّد اور نمازِ پنجگانہ عرصۂ شباب میں ہمیشہ غسل کر کے پڑھیں۔حیاتِ مقدّسہ کے دَورِ آخریں میں بھی یہ اہتمام کثرت سے رہا۔٭۔۔۔کبھی قبلہ رُخ پاؤں نہیں کیے۔
٭۔۔۔ہر وقت خدائے بزرگ و بر تر کی لامحدود رحمتوں ہی کے تذکرے وردِ زباں رہتے۔٭۔۔۔سرکارِ دوعالم صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذکرِ پاک کرتے گھنٹوں بیت جاتے لیکن تھکاوٹ کا شائبہ تک نہ ہوتا۔٭۔۔۔اگرچہ فتویٰ کی رُو سے درود شریف بغیر وضو کے پڑھناجائز ہے،لیکن آپ اسے تقویٰ کے منافی گردانتے، چنانچہ ہمیشہ با وضو ہو کر مدینہ پاک کی طرف رُخ کر کے دوزانو بیٹھ کر پڑھتے۔ مریدین کو بھی یہی تاکید کی جاتی تھی۔٭۔۔۔کتابیں اپنی نشست سے ذرا اوپر رکھتے کہ ان میں اﷲ تعالیٰ جل جلالہٗ اوررسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے پاک ہوتے ہیں۔
٭۔۔۔حضور پاک صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذکرِ خیر سنتے ہی چشمانِ مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی تھیں۔اور آپ صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلمکا ذکرِ پاک کرتے تو محسوس ہوتا جیسے آپ صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں خود کو حاضر جان کر اور آپ کا خوب تصوّر کر کے ذکر کر رہے ہیں۔٭۔۔۔نعت خوانوں کا ادب مبالغے کے ساتھ کرتے،انہیں اونچی جگہ بٹھا کر یا کھڑا کر کے نعت شریف سنی جاتی۔
٭۔۔۔زمین پرگرے کسی کاغذ پر اﷲ تعالیٰ ،نبی پاک صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم یا کسی بھی مقدس شخصیت کا اسم شریف لکھا دیکھتے تو تکلیف محسوس کرتے،فوراً اٹھا کر آنکھوں اور لبوں سے لگا لیتے۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہندسوں کا بھی ادب ہوتا ہے،اس لیے کہ ان سے (حروفِ ابجد کے قاعدے سے) مقدّس نام بنتے ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ آپ حُبّ و الفتِ خدا اور عشق وغیرتِ حبیبِ کبریا صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم سے معطّروہ پھول تھے جس نے جہاں بھر میں انہی خوشبوؤں کو عام کیا۔ایک مرتبہ فرمایا:’’ جسے یہاں آ کر نبی پاک صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبّت نہ ملے،وہ بے شک نہ آیا کرے‘‘۔
سیدی و سندی ،حضورمفکرِ اسلام ،اعلیٰحضرت پروفیسر محمدحسین آسی ؒ کوہر اس شخص سے محبت تھی جو وطنِ عزیز کا دوست ہے اورہرا س شخص کو قابلِ نفرت سمجھتے تھے جو اس کا دشمن ہے۔ حضور مفکر اسلامؒ کے سینۂ بے کینہ میں پاکستان اور اہلِ پاکستان کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ وہ اس ملک میں ’ خوشحالی ‘ دیکھنا چاہتے تھے۔ایک مرتبہ فرمایا:
’’کاش ملت آزاد ہو تی اور اپنا نفع و نقصان سوچ سکتی ، کاش ملک کی حکومت جس نظرئیے کی بنا پر ملک بنا تھا اسے نافذ کر سکتی ۔ کاش اس ملک میں ایک ایسی مؤثر قوت ہو تی جو حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کو بے راہ روی سے روک سکتی ۔ کاش ایک اور اقبال کہیں سے آجائے ، جو ملت کی رہنمائی کرے اور ایک اور قائد اعظم بھی نمودار ہوجا ئے جو ملت کو یک جان و یکدل کر دے‘‘۔
کرامات: آپ سے کثیر تعداد میں کرامات کا ظہور ہوا۔ان سب کا احاطہ نا ممکن ہے۔چند ہدیۂ قارئین ہیں۔٭۔..آپ کے خاندان کی ایک انتہائی بزرگ شخصیت نے یہ واقعہ راقم کو بیان کیا۔ سیالکوٹ (رنگ پورہ) قیام کے دوران یہ معاملہ پیش آیا۔جون جولائی کی سخت ترین گرمی نے کثیر خلقِ خدا کو پریشان کر رکھا تھا۔حضور ادائیگیٔ جمعہ کے لیے تشریف لے جا چکے تھے۔ جمعہ و دیگر معاملات سے فارغ ہو کر گھر تشریف لائے تو اہلِ خانہ نے خبر دی کہ متعدد مردو عورت پریشان حال بارش کے لیے دعا کی التجا لے کر آئے تھے۔آج بارش ہونی چاہئے۔ آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔اﷲ اﷲ !ان ہاتھوں کا اٹھنا نہ جانے ربِّ کریم کو کتنا پسند تھا کہ ابھی نیچے نہیں ہوئے تھے کہ کالے بادل آ گئے۔پھر بارش بھی ہونے لگی۔اور اس قدر ہوئی کہ آٹھ دن ہوتی رہی اور گلیاں پانی سے بھر گئیں۔
٭...صوفی تنویر احمد صاحب راوی ہیں کہ میرا کم عمر لڑکا عبید الرّحمٰن جس پر حضور بہت شفقت فرماتے تھے، اپنے ننھیال میں گھر کی تیسری منزل (۲۵،۲۴ فٹ)سے گر گیا۔تاہم چند لمحوں بعد زمین پر بخیرو عافیت کھڑا نظر آیا۔پوچھنے پر بتایا کہ جب میں نیچے گر رہا تھا تومجھے بابا جی (حضور مفکرِ اسلام )نے پکڑلیا تھا اور پھر بڑے آرام سے زمین پر کھڑا کر دیا۔مزید تسلّی کے لیے ایکسرے کروا نے لے گیالیکن وہاں سے بھی اطمینان بخش رپورٹ آئی ۔یوں پیرِ کامل کی غلامی نے مجھے ایک بڑے نقصان سے بچا لیا۔
علمی کارنامے:ا ٓپ نے 30سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جبکہ اتنی ہی زیرِ طبع ہیں۔آپ کی تصانیف میں’ ’انوارِ لاثانی‘‘ ، ’’ سیرتِ حضور نقشِ لاثانی‘‘ ، ’’ توحید اور محبوبانِ خدا کے کمالات ‘‘ اور نعتیہ کلام میں ’’تبرکاتِ حرمین‘‘ نے بہت شہرت حاصل کی۔یہ کلام آپ نے زیارتِ حرمین شریفین کے دوران لکھا جس میں سوز و گداز اور کیف و مستی کا عجیب عالم ہے۔
۸ اگست ۲۰۰۶؁ء کو آپ کا وصال ہوا۔عرسِ مقدس ہر سال ۱۵ مارچ کو آستانہ عالیہ حضور مفکرِ اسلام، شکر گڑھ ضلع نارووال میں زیرِ سرپرستی صاحبزادہ محمد عطاء الحق نقشبندی صاحب (سجادہ نشین)اور زیرِ صدارت پیر سید کرامت علی حسین شاہ صاحب (سجادہ نشین علی پور سیداں شریف)ہوتا ہے۔جس میں ملک بھر سے ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں۔

Pir Muhammad Tabasum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabasum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabasum Bashir Owaisi: 40 Articles with 61733 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.