اقبال طارق اور اس کے چند خواب!!

کچھ مقام و عنوانِ طبع ایسے ہوتے ہیں جہاں ،پر جلنے لگتے ہیں ، اور بے بسی کے عالم میں جذبات کو دل ہی دل میں دبا کر آنکھوں سے فدا ہوتے ہوئے بیان کیا جاتا ہے ۔ بھلا کوئی طالب علم کیسے اپنے استاذ کی بات و ذات پر تبصرہ کر سکتا ہے ؟ لیکن اگر اس کا ذکر نا کرے تو لوگوں تک کیسے پہنچے؟ میں کوشش تو کروں گا کہ اپنے استاذ اقبال طارق کے خوابوں کے مجموعے میں سے چند ایک خوابوں کا ذکر آپ کے سامنے کروں لیکن ساتھ میں اس گستاخی کیلئے معذرت بھی چاہو ں گا استاذ گرامی سے ، کیوں کہ میرے نزدیک میرے لفظوں کی آہنگ سمیٹ نہیں سکتی اقبال طارق کی دانشوری ، درویشی ، اور جدت کو ۔لوگ سوچین گے اور کہیں گے کہ ایک شخص بیک وقت درویش ، دانشور اور جدیدیت کا حامل کیسے ہو سکتا ہے تو میں انہیں اقبال طارق کا ایک شعر پڑھنے کی درخواست کروں گا ۔ کہ:
؂ چراغِ شوق میں جلتی ہیں عمر کی نیندیں
تو چند خواب کہیں لوح پر اترتے ہیں

کیسا شخص ہے جو عمر بھر کی ریاضتوں میں ملے خوابوں کو بیچتا پھرتا ہے حالانکہ یہ خزانہ ہے ، جیون بھر کی کمائی گئی دولت آنکھوں کی ہے ، کیسا اندازِ سخن و بیاں رکھا ہے کرب بھی بیان کرتے ہیں اور کرب کو چھلکنے بھی نہیں دیتا۔اور کبھی جو کرب بڑھ جائے تو انتہائی درویشی انداز میں صدا لگاتے ہیں :
؂میرے یوسف کا پیرہن لاؤ
اپنی بینائی کھو چکا ہوں میں

ایمان کامل کی مثال کیا ملے کاملیت کے تقاضے پورے کرتے نظر آتے ہیں کہ اس محبت کے بدلے خدا کی رحمت فراٹے مارنے لگے اور انسان اس میں بہتا رہے ، پھر پیغام بھی دیتے ہیں نوجواں نسلوں کو ، اور ان لوگوں کو جو اپنی اصل کو بھول کر شخصیتوں کو پوجنے لگے ہیں ۔ اس شخصیت پرستی کے زمانے میں بھی اور اندھے بہرے لوگوں کے درمیاں بھی کوئی یہ کہنے والا ہے تو ہے کہ یاد رکھو ، اﷲ موجود ہے ، اسی سے مانگو ، سبھی چھوٹی بڑی خواہشات اسی سے کرو کہ دیکھو مجھے جو بھی مانگا وہ دیا حالانکہ بن مانگے تو وہ دیتا ہی ہے لیکن مانگا ہوا بھی ٹھکراتا نہیں ہے ۔ اور میں ان کی بات سے اتفاق بھی کرتا ہوں کہ جب انسان تمام تر دنیاوی اسباب و وسائل کو ترک کر کے صرف اﷲ کے سامنے کاسہءِ دست دراز کرتا ہے تو اس کی رحمت جوش میں آ جاتی ہے اور اﷲ تعالیٰ اسے ضرور عطا کرتا ہے ۔ کیا خوب فرمایا کہ :
؂کاسہءِ دست کر کے اپنا دراز
جو بھی مانگوں مجھے وہی بخشے

اور پھر خوابوں کی ، خوبصورت سجے سجائے خوابوں کی عطا پر اپنے رب کا شکر گزار ہونا بھی کوئی ان سے سیکھے ۔ کیسے خوبصورت انداز میں شکرگزاری کرتے ہیں کہ قدرت نے انہیں خوابوں کی دولت سے مالا مال رکھا ہے کبھی اس کے دامن کو خالی نہیں رکھا جسے وہ سرماۂ حیات سمجھتے ہیں :
؂رتجگے دے وہ میری راتوں کو
اور آنکھوں کو خواب بھی بخشے

بڑے آدمی ہیں ، محبت بھرا اور زندہ دل عطا کیا ہے اﷲ نے انہیں ، اﷲ کے محبوب کی محبت کو دل میں بٹھا ئے ہوئے ہیں ، اور اس محبت کو وہ زندگی کا خزینہ سمجھتے ہیں ، قلب کا سکون مانتے ہیں ، ہم دیکھتے ہیں معاشرے میں کئی ان ہونیاں ہوتی ہیں ، نوجواں طبقہ اپنی جانوں کے درپے ہے اور زندگی میں کوئی سکون نہیں ، آج ہر شخص یہی خواہش کرتا ہے کہ اس سے دنیا کی ساری دولت کوئی لے جائے اور اس کے بدلے سکون کا فقط ایک لمحہ دے دے ، لیکن وہ ترستے ہوئے جان دے دیتے ہیں ۔ لوگ بہت سی منزلیں پا لیتے ہیں ، ہنوز میں مقام پا لیتے ہیں لیکن نا تو کوئی آنکھوں میں چمک نظر آتی ہے اور نا ہی کوئی چہرے پہ رونق ، لیکن سکون قلب و زیست کے سکون کا فلسفہ وہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ :
؂اس گھر میں بھلا کیوں نہ رہے راج سکوں کا
جس گھر میں بھی روشن ہیں افکار ِ مدینہ

جس مٹی سے انساں کا خمیر اٹھایا ہو وہ ماں کہلاتی ہے اور ماں سے محبت ہر سچے اور محبت بھرے انسان میں قدرتی پائی جاتی ہے ۔وطن پرستی کو شاید کوئی طبقہ برا سمجھتا ہے لیکن کسی بھی ذی شعور انسان کی نظر میں یہ قطعاََ غلط نہیں بلکہ وجود کا حصہ ہے ۔ اقبال طارق کی نظر میں جس شخص کی مٹی جہاں سے منسوب ہو اس شخص کا ہنر و فن اس کا عکاس ہوتا ہے ۔ ان کے خمیر میں محبت بھری ہے اور یہ محبت خوابوں کی صورت ان کے دل و دماغ میں روشن ہوتی ہے جسے وہ لفظوں میں وطن کو مخاطب کر کے یوں ادا کرتے ہیں کہ:
؂مرے سخن میں تاثیر تیری مٹی کی
اسی سبب سے طارق ؔ مرا یہ فن آباد

اور جس خمیر میں محبت بھری ہو وہ انتہائی حساس ہوتا ہے اوروطن کی حب میں اپنے جذبات و محسوسات کو یوں بیان کرتے ہیں کہ :
؂روشن ہوا جاتا ہے مرا منظر احساس
طارق مری مٹی سا گہر اور کہاں ہے

دنیا فانی ہے اور یہ خاکی بھی فناہ ہونے کو ہے ، اور ابدی زندگی وہاں ہے خدا کے پاس جو ہر شخص چاہتا ہے ، جہاں موت نہیں ہے ، جہاں سب لذتیں ہیں ، جہاں دنیا کی بھاگ دوڑ نہیں ہے ، جہاں مشرق اور مغرب کی تہذیبیں نہیں ہیں ، جہاں جھوٹ کچھ بھی نہیں ہے ، جھلاوہ کچھ نہیں ہے سب حقیقت ہے ، اگر کچھ کہیں کچھ نہیں ہے تو وہ صرف دنیا ہے ۔ اقبال طارق درویش انسان ہے اور وہ جانتا ہے کہ مغربی غلاظتوں میں لتھڑی انسانیت کس تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے ،اس کے ساتھ ساتھ وہ مقامِ اشرف المخلوقات کا عندیہ بھی اس شعر میں بیاں کرتے ہیں :
؂تم ثریا کو ہی کرو تسخیر
میری منزل ہے پہنچنا رب تک

جدیدیت اور حق گوئی کی بات کی جائے تو اقبال طارق کی شاعری میں آپکو زبان اور لہجے اور لکھنے میں چابک دست فنکاری کی جھلک نظر آئے گی ۔بات کو اس قدر سادہ لفظوں میں بیان کرتے ہیں کہ ان کی سادگی سیدھا دل میں اترتی جاتی ہے ۔ اقبال طارق اردو شاعری میں دورِ حاضر کے ایک درخشاں ستارے ہیں ۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی ہے ۔ نئے نئے موضوعات اور انکی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جابجا ملتے ہیں ۔ انکے فلسفی ہونے کی عکاسی اس طرح ہوتی ہے کہ انہوں نے زندگی کو اپنے طور سمجھنے کی کوشش کی اور ان کے تخیل کی بلندی او ر شوخی ِ فکر کا راز اسی میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز شدت سے محسوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ :
؂آج پھر دیکھ کر بہت رویا
ایک تصویر میں ہنسی اپنی

اقبال طارق کی شاعری کا اثر حواس پر شدت سے ہوتا ہے وہ ان میں غیر شعوری طور پر ایک ارتعاش کی سی کیفیت پیدا کرتی ہے اور اسی ارتعاش کی وجہ سے اس کے پڑھنے او ر سننے والے کے ذہن پر اس قسم کی تصویریں ابھرتی ہے ۔ ان کے موضوع میں جو وسعتیں اور گہرائیاں ہیں اس کا عکس ان کے اظہار و ابلاغ میں بھی نظر آتا ہے ۔ان گنت عناصر کے امتزاج سے اس کی تشکیل ہوتی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ :
؂پھر آج مرے تعاقب میں ہیں کئی فرعون
عصا بدست پیمبر بھی کوئی ساتھ نہیں

اقبال طارق کو قدرت نے خوابوں کی دولت سے مالا مال کیا ہے ،اور یہ خواب ان کو ستاتے ہیں اب، ان کے خون میں شامل ہو کر رگوں کو سلگاتے ہیں اور پھر اس کی شخصیت کو مضمون بناتے ہیں پھر استعارہ کی چادر لپیٹتے ہیں تشبیہ کا اشتراک ہوتا ہے ۔ پھر خیال کا پھول کھلتا ہے اور لفظو ں کی خوشبو سے سخن معطر ہو جاتا ہے ۔ اقبال طارق خوابوں کا کچھ اس طرح چلہٌ کاٹتے ہیں :
؂مار ڈالے نہ مجھ کو تنہائی
گھر میں کرتے ہیں سائیں سائیں خواب
سوچ کی وادیوں میں سناٹا
اور ہیں میرے دائیں بائیں خواب
دستکِ شب سنائی دیتی ہے
کاش اک بار لوٹ آئیں خواب

ان کی بغاوت و گلہ تو اپنی جگہ ہے لیکن خوابوں سے کوئی بلا کیسے بھاگ سکتا ہے ۔ یہ تو اس عمر میں بھی پیچھا کرتے ہیں جب انسان کچھ نہیں کر پاتا سوائے اس کے کہ وہ بے بس ہوتا ہے ۔ اس وقت بھی پیچھا کرتے ہیں جب انسان با اختیار ہوتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقبال طارق اپنے خوابوں کیلئے لفظوں کے گھروندے بناتے ہیں اور ان میں انہیں بساتے ہیں ہر ایک کو چن چن کر صحیح جگہ پر بساتے ہیں حالانکہ یہ ہنر سب کے بس کا نہیں ۔ دعا کرتا ہوں کہ اقبال طارق کو خدائے متعال اسی طرح خوابوں کی دولت سے مالا مال رکھے اور ہم ان خوابوں کی مہک سے مستفید ہوتے رہیں ۔
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 166893 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More