بے قراری سی بے قراری ہے (قسط نمبر ١١)

بے قراری سی بے قراری ایک سماجی رومانوی و روحانی ناول ہے جس کی کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ عبیر جو ایک فیشن ڈیزائنر ہے اور اسلامی فیشن میں کچھ نیا کرنا چاہتی ہے۔ تیمور درانی جو ایک ملحد ہے جس کے خیال میں محبت اور زندگی بے معنی ہے۔

دو مہینے بعد میں شرمندگی سے اسی صوفے پر بیٹھ گئی جہاں سے بڑے تکبر سے اٹھ کر گئی تھی۔ مجھے اپنی صلاحیتوں اور مارکیٹ ولیو پر کتنا مان تھا۔ آج اسی جاب کے لیے ایک طرح سے منت کرنے پہنچی تھی۔
" زندگی میں واقعی واپسی کا راستہ کھلا رکھنا چاہیے۔ وہ محاورہ ہے نا، ہاتھوں سے باندھی گھٹانیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
میں نے ہر کوشش کر کے دیکھ لی، دو تین نوکریوں میں ہفتہ ہفتہ بھی گئی۔ ہر جگہ یہی معلوم ہوا کہ چھوٹی نوکریوں میں انسان ایک غلام سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ وہاں اوپر جانے کے لیے جس طرح کے حربے اپنانے پڑتے وہ ضمیر کی موت کے بغیر ممکن نہیں۔ اوپر سے تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ کرپشن کرنا مجبوری بن جاتا ہے۔ مالک اس بات کو سمجھتے ہوئے تنخواہ کو کم رکھتے ہیں۔
شگفتہ اور میں جب سودا سلف لینے جاتیں تو ہم سے عجیب عجیب سے باتیں کی جاتیں۔ وہی لوگ جو کبھی بیٹی بیٹی کہتے تھے اب ہاتھ پکڑنے اور اشارے کرنا شروع ہو گئے۔ نہ جانے اکیلی عورتوں کو دیکھ کر مردوں کے اندر سے بھیڑیے کیوں نکل آتے ہیں۔
محلے کی دکانوں والے ادھار تو دے دیتے لیکن اس کے بعد ان کی بدتمیزیاں بہت بڑھ جاتیں۔
شگفتہ کے لیے ایک دو ادھیڑ عمر لوگوں کے رشتے بھی آ گئے۔ شگفتہ کو تو جیسے سانپ ہی سو نگھ گیا۔
مجھے تیمور درانی کی فرم میں نوکری وہ واحد ذریعہ نظر آئی جو مجھے اور میرے گھر والوں کو فاقوں اور لوگوں کے رحم و کرم پر رہنے سے بچا سکتی تھی۔ مجھے علم تھا کہ تیمور درانی خود ایک بھیڑیا ہے جو کسی کو بھی اپنے فائدے کے لیے استعمال کر کے پھینک سکتا ہے۔ لیکن یہ بھیڑیا ہی اس وقت باقی کتوں سے بچا سکتا تھا۔
کیا تیمور درانی میرا یوں واپس جاب کے لیے آنا ایکسپٹ کر لے گا؟ کہیں وہ میری مجبوری کا فائدہ تو نہیں اٹھائے گا؟
اس نے کہا تھا کہ اگر میں واپس آئی تو میری ایروگنس کی سزا دے گا۔ اس بات کا کیا مطلب تھا۔ کہیں وہ۔ ۔ ۔۔
میں اپنے ذہن میں اٹھنے والے خدشات سے خود آنکھیں پھیرنے لگی۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہو سکتی، وہ آخر اتنی بڑی کمپنی چلا رہا ہے، اپنے ملازمیں سے کوئی بھی غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام نہیں کروا سکتا۔
اگر وہ ایسا کر بھی لے تو اسے کون روکے گا؟ اگر اس نے ایسی ویسی بات کی تو میں نوکری کرنے سے ہی انکار کر دوں گی چاہے جو مرضی ہو۔ میں اپنی عزت آبرو اور اخلاق سے گری ہوئی کوئی حرکت نہیں کر سکتی۔
مجھے انتظار کرتے ایک گھنٹے سے زیادہ ہو گیا۔ اس کے آفس میں داخل ہوتے میرا ایک ایک قدم احساس شرمندگی سے بھاری ہونے لگا۔ میں اس کی جانب دیکھ بھی نہ پا ئی۔
میں ایک معصوم ہرنی تھی جو تاک میں بیٹھے بھیڑیے کی جانب جا رہی تھی۔ مجھے ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے پر ایک تمسخرانہ مسکراہٹ نظر آئی۔ جیسے کسی کا مان اور اصول ٹوٹنا اسے اچھا لگا ہو۔
مسکرا لو مسٹر تیمور۔۔ جس دن مجھے موقع ملا میں بھی یہ نوکری چھوڑنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاؤں گی۔ پر اس وقت مجھے اس نوکری کی ضرورت ہے۔
ہماری باقی ساری گفتگو رسمی اور پروفیشنل رہی۔ اس نے مجھے ایک لمحے کے لیے بھی احساس نہ ہونے دیا کہ وہ میری تذلیل کر رہا ہے۔ شاید مرے ہوئے کو ما رنا اس کا انداز نہیں تھا۔
آخر میں وہ ایروگنس والی بات پر آ گیا۔
مس عبیر کیونکہ آخری بار آپ اس نوکری کو ٹھکر اکر گئی تھیں۔ میں نے آپ سے کہا تھا اگر آپ واپس آئیں تو میں آپ کو ایروگنس کی سزا دوں گا۔
اللہ کتنا ظالم شخص ہے کچھ بھولتا ہی نہیں۔ اب یہ مجھے کیا سزا دے گا؟ نوکری پر تو رکھ لیا ہے۔
آپ کو نوکری کے علاوہ مجھے ایکسٹرا فیورز دینی ہوں گی جس کا ذکر آپ کسی سے نہیں کر سکتیں۔
میرا دل یکدم سے ڈوب گیا۔ اس نے وہی بات کر دی جو میرا بدترین خوف تھا۔
میں نے وضاحت کے لیے کچھ کہنا چاہا پر گلہ خشک ہو گیا۔ میری آواز خود مجھے سنائی نہ دی۔ میں نے ذرا زور لگا کر اس سے پوچھا۔
تیمور صاحب ! ایکسٹرا فیورز سے آپ کی کیا مراد ہے؟ مجھے اپنی آواز اجنبی محسوس ہوئی۔
اس کے انداز سے کچھ بھی مطلب لینا نا ممکن تھا۔ وہ اپنی باڈی لینگوج سے کوئی کلیو نہیں دیتا تھا۔
ایکسڑا فیورز کی تفصیل آپ کو ابھی نہیں بتائی جا سکتیں۔ یہ شرط آپ کو بلائنڈلی ماننی پڑئےگی۔
یہ کیا بات ہوئی، میں بغیر جانے کسی بھی بات کو کیسے مان لوں؟ مجھے پہلے اس کے بارے میں پتا ہونا چاہیے۔
مجھے افسوس ہے، یہ ایسا ہی ہے۔ یہ آپ کی ایروگنس کی پنشمنٹ ہے۔ آپ کی مرضی ہے آپ اسے قبول کریں یا نہ کریں۔
اگر آپ نے یہ جاب کرنی ہے تو آپ کو بلائنڈلی اس بات کو قبول کرنا پڑے گا۔
اس کا ایک ایک لفظ مجھے مزید مایوسی میں دھکیلنے لگا۔ ایک آخری امید تھی سو وہ بھی بجھ گئی۔
میں آپ کو صرف ایک بات بتا سکتا ہوں کہ یہ فیورز اس نوعیت کی ہرگز نہیں ہوں گی جس طرح کی فیورز لوگ خوبصورت لڑکیوں سے مانگتے ہیں۔ میں کسی کو مجبور کر کے اس کی عزت لوٹنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ یہ میرا انداز نہیں۔ باقی آپ سوچ لیں۔
اگر عزت و آبر و محفوظ رہے گی تو پھر یہ کس طرح کی فیورز ہیں جو یہ سے مانگنا چاہتا ہے۔ ان کو چھپانے میں اتنی سیکریسی کیسی؟ میں کنفیوز ہو گئی۔
پہلے سوچا اس نوکری کو لات مار کر اٹھ جاؤں۔ پھر باہر جبڑا پھاڑے کھڑی حقیقت یاد آ گئی۔ میرے پاس کوئی بھی تو راستہ نہیں ہے۔
آپ کے پاس سوچنے کے لیے ایک گھنٹا ہے۔ ٹھنڈے دل سے سارے پہلؤوں پر غور کر لیں۔ اس کے بعد کوئی تیسرا چانس نہیں ملے گا۔
میں کنٹریکٹ کی کاپی اٹھا کر باہر ویٹنگ روم میں بیٹھ گئی۔ میں نے کنٹریکٹ کو پڑھا۔ کنٹریکٹ میں بہت زیادہ تفصیلات تھیں۔ سیلری، ورکنگ ایتھک، ٹائمنگز، رولز، سروس سٹرکچر وغیرہ۔ سیلری دیکھ کر ایک لمحے کے لیے میں دنگ رہ گئی۔ میں نے دو تین بار دوبارہ دیکھا۔ یہ ابا کی مہینے کی آمدن سے تین گنا سے بھی زیادہ ہے، مجھے یقین نہ آیا۔
میں کافی دیر شش و پنج میں بیٹھی رہی۔ میں کاشف سے نہیں پوچھ سکتی کہ وہ اس بات کو نہیں سمجھے گا۔ عمارہ سے رابطہ نہ ہو سکا۔ میں نے نماز پڑھ کر دعا مانگنے کا سوچا۔ نماز پڑھ کر مجھے کچھ سکون آیا یا اللہ میری رہنمائی فرما۔
اسی لمحے محسوس ہوا میں کسی اندھیری غار میں ہوں اور خطرناک بھیڑیوں اور سانپوں سے ڈر رہی ہوں۔ غار میں بہت دور کہیں ہلکی سی روشنی بھی ہے۔ میں نے اس تصور کو بھی ایک اشارہ ہی سمجھا اور اس نوکری کو کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے دل میں ابھی بھی ایکسڑا فیورز کھٹک رہیں ہیں۔
کنٹریکٹ سائن کرنے کے بعد میں نے تیمور درانی کے حوالے کر دیا جو اس نے اپنی سیکریڑی کے ذریعے ایچ آر میں بھجوا دیا۔
سر اب تو ایکسٹرا فیورز کی ڈیٹیل بتا دیں، مجھے ایسا کیا کرنا ہو گا۔ میں نے شرم سے نظریں جھکا لیں۔
وہ فیورز جب چاہیے ہوں گی آپ کو اسی وقت ان کے بارے میں بتایا جائے گا۔
میں مزید بے چین ہو گئی۔
آخر یہ شخص کیا چاہتا ہے؟ ایسی کون سی بات ہے جو یہ بتا نہیں سکتا؟
میں نے اسی دن سے نوکری کو جوائن کر لیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے نوکری پر جاتے ایک مہینے سے زیادہ ہو گیا۔ اب کام کرنے میں اتنا مزہ آتا کہ ٹائم گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا۔ ابھی تو میرا سیکھنے کا ہی پیریڈ تھا۔ میں جلدی جلدی سب کچھ سیکھنا چاہتی تھی تاکہ آزادی سے کام کر سکوں۔ یہاں زیادہ تر لوگ اکیلے ہی کام کرتے تھے۔ بعد میں ان کے کام کو بعد میں کمبائین کیا جاتا۔ مجھے ڈیزائن سیکشن میں ڈالا گیا۔ میں نئے پرانے سارے ڈیزائن کو ٹیکنیکلی دیکھتی۔ یہ ایک مشکل لیکن دلچسپ کام تھا۔ مجھے گھنٹوں ایک ہی ڈیزائن میں کھوئے رہنا اچھا لگتا۔
یہ کام دیکھنے اور سننے میں آسان ہے۔ جب آپ تخلیقی کام کرتے ہیں تو کوئی آسمان سے خیالات نہیں آتے۔ آپ سارا دن بیٹھ کر سوچتے ہیں اور تھوڑی سی امپرومنٹ کرتے ہیں۔ ڈیزائن دیکھنے میں کچھ نہیں ہے صرف پیڑن ہے۔ ایک ایسا نیا پیٹرن بنانا جسے دیکھ کر لوگ رک جائیں۔ جو دیکھنے میں سادہ ہو اور غور سے دیکھنے میں گہرا۔ میری ٹیچر اور سینئر ایلف تھیں۔
ایلف اگرچہ چالیس سے اوپر کی تھیں پر اپنے بلونڈ بالوں اور دودھ جیسے رنگ کی وجہ سے اتنی خوبصورت لگتی ہیں کہ دیکھتے ہی رہ جاؤ۔ ایلف دو سال سے اسی فرم کے ساتھ اٹیچ تھیں۔ ان کی اردو سننے کا بھی بہت مزہ آتا۔ ایلف انقرہ میں پیدا ہوئیں۔ جب یہ دس سال کی تھیں تو ان کی فیملی جرمنی چلی گئی۔ ان کی ساری تعلیم جرمنی میں ہوئی۔ بعد میں انھوں نے سالوں پیرس میں بڑے بڑے برینڈز کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ حاصل کیا۔ سب سے زیادہ وقت انھوں نے شنیل کے ساتھ گزارا۔
وہ کو کو شنیل کو اپنا آئیدیل سمجھتی تھیں جس نے غربت سے اٹھ کر فیشن کی دنیا پر راج کیا۔ فرانس میں کئی سال انھوں نے گلمیر کی دنیا کو دیکھا۔ وہ اس دوران سنگل مدر بھی بن گئیں۔ اتنے سال پیرس کے کلچر میں رہنے کے باوجود ان کے اندر کی مشرقی ترک عورت نہیں مری۔ وہ پیرس اور فیشن کی چکا چوند میں بھی بے چین رہتیں۔ پیسہ اور شہرت کے باوجود کچھ خالی پن تھا۔
اسی خالی پن میں گھومنے پھرنے نکل پڑیں، نہ چاہتے ہوئے بھی ترکی چلی گئیں۔ بچپن کی یادیں تو واپس نہ آئیں۔ ہاں کچھ اپنا اپنا سا لگا۔ وہ اپنے دور کے رشتے داروں کے گھر ٹھہریں۔ سارا دن لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ گزارتیں۔ ان کے ساتھ کھانا بناتیں، کپڑے سیتیں، ان کی یونیورسٹیوں میں جاتیں، جی بھر کر ترکی کھانے کھاتیں، ترکی کی فلمیں اور گانے سنتیں۔ ترکی کے کلبوں میں بھی جاتیں اور مسجدوں، خانقاہوں کے بھی چکر لگاتیں۔ لڑکیوں کو دیکھتیں جو جینز اور سکرٹ پہنتی,ساتھ میں سکارف بھی لیتیں۔ جو اپنی نسوانیت اور مشرقیت کے ساتھ مردوں کی برابری کرتیں۔ یہیں انھیں ایک لڑکے سے محبت بھی ہو گئی۔ یہ لڑکا استنبول میں پراپرٹی انویسٹمنٹ کی کمپنی چلاتا تھا۔ دونوں ایک شادی میں ملے اور کچھ ہی مہینوں بعد ان کی اپنی بھی شادی ہو گئی۔ ترکی آ کر جو خلا تھا بھر گیا۔ یوں لگا مچھلی دوبارہ پانی میں واپس آ گئی ہو۔ ترکی میں رہتے رہتے انھوں نے اپنے کلچر کے فیشن پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ مستقل مزاجی نہیں تھی اسی اپنا برینڈ نہ کھول سکیں۔ کبھی فری لانس تو کبھی مختصر کنٹریکٹ پر کام کرتی رہیں۔ کئی ملکوں میں گھومتی۔ جب بور ہو جاتی ہیں واپس ترکی چلی جاتیں۔
کیا انھیں بھی تیمور درانی کو ایکسٹرا فیورز دینی پڑتی ہوں گی؟ بہر حال ان کا رویہ بہت ہی پروفیشنل تھا۔ سکھانے میں کبھی کنجوسی نہیں کرتیں۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ غلطی کی نشاندہی بھی اتنے پیار سے کرتییں کہ بندے کو شرمندگی بھی نہیں ہوتی۔ میری کوشش ہوتی ان سے زیادہ سے زیادہ سیکھوں۔ مجھے اپنا ایک چھوٹا سا کمرہ بھی دے دیا گیا جسے میں آزادی سے سجا سکتی ہوں۔ سارا خرچہ بھی دفتر دے گا۔
واؤ مزہ ہی آ گیا۔
اس دوران میری تیمور درانی سے کوئی ملاقات نہ ہوئی۔ وہ تو جیسے اس آفس میں آتا ہی نہیں تھا۔ صرف فون پر ہی کام چلاتا۔ کمپنی کو مینیجرز چلاتے تھے۔ یہاں تیمور درانی کا ذکر کم کم ہی ہوتا۔ میں اس صورتحال سے مطمئن ہو گئی مجھے اب وہ ایکسٹرا فیور والی بات بھی بھولنے لگی۔ مجھے آفس کی طرف سے آنے جانے کے لیے چھوٹی سی لڑکیوں والی جیپنیز کار بھی مل گئی۔ میں تو خوشی سے پھولی نہیں سما ئی۔ اب میں صبح شگفتہ کو یونیورسٹی ڈراپ کرنے کے بعد آفس جاتی۔
جس دن میرے اکاؤنٹ میں پہلی تنخواہ آئی تب مجھے یقین ہوا کنٹریکٹ میں لکھی باتیں ٹھیک تھیں۔ پہلی بار مستقبل تھوڑا سا سیف لگنے لگا۔ میں نے پہلی تنخواہ پر کیک گھر لے کر گئی اور کافی مہینوں بعد ہمارے گھر میں خوشی نظر آئی۔ کیک کھاتے ہوئے پھر ابا کی یاد آئی اور سب کے آنسو نکل آئے۔
اس رات میں نے کافی دنوں بعد کاشف سے لمبی بات کی۔ میری خوشی میری آواز سے چھلکنے لگی۔ کاشف کہنے لگا جب تم خوش ہوتی تو تمھارا ارد گرد کا سار ماحول خوشی سے بھر جاتا ہے۔
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرتے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کے بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
اب باتیں مت بنائیں میں شرما گئی اور وہ سرد آہ بھر کر رہ گیا۔
کاشف کی ٹریننگ ختم ہونے میں بھی بس دو ماہ رہ گئے تھے۔ اس کی ٹریننگ میں پرفارمنس بھی آؤٹ کلاس تھی۔ اسے ضرور کوئی نہ کوئی ایکسڑا بینیفٹ ملنا تھا۔ میں نے کاشف کو صرف یہ بتایا کہ میں کسی فیشن کی کمپنی میں جاب کر رہی ہوں، تیمور درانی والی بات گول کر دی۔ پتا نہیں وہ کیا سوچے گا۔
یہ جاب میری خواہش سے زیادہ مجبوری تھی۔ میں ہی امی اور شگفتہ کا آخری سہارا تھی۔ میں جب آگے کے بارے میں سوچتی تو پریشان ہو جاتی۔ جب میری شادی ہو جائے گی تو پھر کیا ہو گا؟امی اور شگفتہ کا کیا بنے گا۔ اس سوال کو میں بغیرجواب کے چھوڑ دیتی۔ پر یہ سوال دبتا نہیں۔ کاشف چاہے کتنا بھی سپورٹیو ہو، وہ میرے پورے گھر والوں کا ساری زندگی خیال تو نہیں رکھ سکتا۔
ہمارے ہاں کے عزیز اقارب کسی بات پر خوش نہیں ہو سکتے۔ جب ہمارے حالات خراب تھے تو کوئی مدد کو نہ آیا۔ جب ہمیں تنگ کیا گیا اور آوازیں کسی گئیں، تب کوئی بچانے نہ آیا۔
جیسے ہی میری نوکری ہوئی اور لوگوں نے میرے پاس گاڑی دیکھی تو انھیں حسد کے مارے یقین ہی نہ آیا۔ تبھی عورتوں نے مزید باتیں بنانا شروع کیں۔ محلے کی عورتیں سامنے تو بہت متاثر ہوتیں، مگر ساتھ میں کرید کرید کر سوال پوچھتیں۔ انھیں یقین ہی نہ آتا کہ میں خود کما کرگھر کیسے چلا سکتی ہوں۔ وہ میرے آفس کا ایڈریس پوچھتیں میرے باس کا یوں پوچھتیں جیسے وہ مجھے پتا نہیں کس کام کے پیسے دیتا ہے۔
میں نے ان سوالوں سے بچنے کے لیے یہ بتا دیا کہ میرے منگیتر نے میری جاب کروا ئی ہے۔ جس کے بعد عورتیں یہ سمجھنے لگیں کہ میرے سسرالی اس نوکری کی آڑ میں ہماری امداد کر رہے ہیں۔ میں نے ان کی غلط فہمی کو ٹھیک نہیں کیا۔ شمائلہ اور میرے سسرال کی عورتوں کا آنا جانا کم ہو گیا۔ میری جب بھی شمائلہ سے بات ہوتی وہ روکھی پھیکی سی لگتی۔ سمجھ نہ آتا، ایسا کیا ہو گیا ہے۔
اس کی باتوں میں شادی کی تیاریوں کا کوئی ذکر نہ ہوتا۔ میں نے کئی بار اس سے پوچھنے کی کوشش کی کہ کوئی مسئلہ ہے تو بتائے۔ میں اسے گھر دعوت دیتی تو وہ گھریلو مصروفیت کا بہانہ کر دیتی۔
میرے دل میں عجیب سے وسوسے اٹھنے لگے۔ میں نے شمائلہ کو کئی بار بتایا کہ اس رات کچھ نہیں ہوا۔ ابا کی موت اس بات کی گواہی ہے کہ اس رات ہماری عزتیں محفوظ رہیں تھیں۔ کیا کسی ڈاکو کا میرا ہاتھ پکڑنا میری عزت کو مجروح کرتا ہے کیا۔ شمائلہ کی آنکھوں میں بے یقینی ہوتی جیسے میں کچھ کچھ چھپا رہی ہوں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جمعہ کے دن چھٹی سے ایک گھنٹا پہلے تیمور درانی آفس میں آیا۔ اس کو آفس سے گزرتے دیکھ کر دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہی نہ جانے کیوں برے برے خیال آنے لگتے تھے۔ اس کی موجودگی میں سب کو سانپ سونگھ جاتا۔ آفس میں ایک سردی کی لہر پھیل جاتی۔ وہ کسی سے بات نہ کرتا اور نہ ہی کسی کو کچھ کہتا۔ میں نے خود کو کام میں چھپا لیا۔ سوچنے لگی کہ چھٹی کہ دن جا کر اپنے لیے کچھ اچھے سوٹ خریدوں گی اور موبائل بھی چینج کروں گی۔ شگفتہ کتنے دنوں سے پیچھے پڑی ہے کہ آپی مجھے ثنا سفیہ اور کھاڈی کے سوٹ لے کر دیں یونیورسٹی میں سارے لوگ نوٹ کرتے ہیں۔
ٹھیک ہے جی! ہم نے تو یونیورسٹی لائف سادگی سے گزاردی۔ شگفتہ آئی بی اے جیسی یونیورسٹی میں کسی سے کم نہیں لگنا چاہتی۔ وہ کہتی یہ چیزیں لنکس بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ ورنہ لوگ آپ کو غریب اور نیڈی سمجھتے ہیں۔
میں اس کی باتوں کا کیا جواب دیتی، میں نے بھی تو چار سال گزارے تھے، مجھے لوگوں کی پرواہ نہیں رہی۔
شگفتہ میرے جیسی نہیں تھی۔ اور میں نہیں چاہتی تھی وہ کسی بھی کمپلیکس کا شکار ہو۔ ویسے بھی میرے پاس اتنے ہیسے ہوتے ہیں کہ اس کے خرچے اٹھا سکوں۔
میرے شوق اتنے زیادہ نہیں تھے۔ اسی لیے میں سیونگ کر کے فیوچر کے لیے کچھ بچانے لگی۔ ابا تو رہے نہیں ایسے میں میری شادی اور شگفتہ کی شادی پر خرچہ کون کرے گا۔
میں انھی سوچوں میں گم تھی کہ تیمور درانی کا بلاوا آ گیا۔ میرے پیروں کے نیچے سے زمیں کھسکنے لگی۔
اس نے مجھے کیوں بلوالیا ہے اور وہ بھی چھٹی سے پہلے؟
میں ڈرے سہمے انداز سے اس کے کمرے کی طرف گئی۔ ایک ایک قدم کے ساتھ دل میں ہزار اندیشے سر اٹھانے لگے۔
میں اجازت لے کر اندر گئی تو آج بھی وہ اسی پینٹنگ میں کھویا ہوا نظر آیا۔ نہ جانے اس پینٹنگ میں اسے کیا کشش محسوس ہوتی تھی جو یہ ہر وقت اسے ہی دیکھتا رہتا تھا۔ میں ٹیبل کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی، پر بیٹھی نہیں۔ وہ خود کلامی کے انداز سے شعر پڑھتا ہوا مڑا
کرب تنہائی ہے وہ شے کہ خدا
آدمی کو پکار اٹھتا ہے
یہ پہلی بار ہوا کہ اس نے کوئی شعر پڑھا ہو۔ ویسے بھی آفس میں ایسی نان پروفیشنل باتیں نہیں ہوتیں۔
مس عبیر آپ نے کبھی ایسی کائناتی تنہائی اور بے معنویت کو محسوس کیا ہے؟ اس نے پینٹنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک مشکل سوال پوچھ لیا۔
میں اس کے سوال کا کیا جواب دیتی۔ دوسرا میں نہیں چاہتی وہ ناراض ہو۔
نہیں سر میں نے کبھی ایسی تنہائی محسوس نہیں کی۔
اس کے چہرے پر کوئی تاثرات نہ ابھرے۔ تو آپ کیا محسوس کرتی ہیں؟
اسے کیا پروا ہے کہ میں کیا محسوس کرتی ہوں؟
سر مجھے لمبے لمبے فلسفے تو نہیں آتے۔ ہاں میں نے ساری زندگی اللہ کے ساتھ ایک گہرہ کنکشن محسوس کیا ہے۔ مجھے اپنی زندگی اس کائنات میں اکیلی محسوس نہیں ہوتی۔
اس کے چہرے پر بہت ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔ اس نے اس بات پر مزید کوئی تبصرہ نہ کیا۔
آپ کی پرفارمنس رپورٹ میرے پاس آئی ہے۔ اس کے مطابق آپ کی پرفارمنس کافی اچھی ہے۔ آپ بہت جلدی سیکھ رہی ہیں۔ امید ہے کچھ ہی دنوں میں آپ انڈیپینڈینٹلی کام کرنا شروع کر دیں گی۔ آپ نے دیکھ لیا ہو گا کہ جو بھی باتیں میں نے آپ سی انٹرویو کے دوران کہیں وہ ٹھیک ہیں، یہاں کوئی بھی ایکسپلائیٹیشن نہیں ہے۔
میں اس کی باتوں سے اتفاق کرنے لگی۔
مس عبیر آپ کو یاد ہو گا کہ ہم نے کچھ ایکسٹرا فیور زکی بات کی تھی۔
اللہ یہ اس بات کو بھول کیوں نہیں جاتا۔ اب میں کیسے بچوں گی؟
جی سر۔ اور میں نے انتہائی شرم کے ساتھ سر جھکا لیا۔
اس کی نظریں میرے نقاب اور عبایہ کے اندر گھستی محسوس ہوئیں۔ میں جیسے اپنے ہی وجود میں سمٹتی چلی گئی۔
مس عبیر میں چاہتا ہوں آپ کل دوپہر میرے گھر آئیں۔
میرا دل چاہا میں رونا شروع کر دوں۔ آج تک کسی نے مجھ سے ایسی بات نہیں کی۔ یہ کس بے شرمی سے میری مجبوری کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
انٹیرئر ڈیزائنرز کی ایک ٹیم آ رہی ہے آپ ان کے سے ملیں اور اپنے آئیڈیاز دیں۔
شکر ہے۔ کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہے۔ مجھے تھوڑا سا اطمینان ہوا۔
یعنی ایکسٹرا فیور اس نوعیت کی ہوں گی جس میں مجھے اس کے گھر کوڈ یزائن اور ڈیکوریٹ کرنا ہو گا۔
اگر یہ ایک بہانہ ہوا تو؟
میں کنفیوز ہو گئی۔ اسے فوراً انکار کرنا مناسب نہیں ہے میں ایک بار چلی جاتی ہوں اگر اس نے ایسی ویسی حرکت کی تو یہ میرا مرا ہوں منہ ہی دیکھے گا۔
ٹھیک ہے سر آپ مجھے ایڈریس دے دیں میں پہنچ جاؤں گی۔
اس نے ایڈریس میرے طرف بڑھا دیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ویک اینڈ کا سارے پلان کا بیڑا غرق ہو گیا۔ میں صبح سے نماز کے بعد پریشان بیٹھی سوچنے لگی کہ آج کیا ہو گا۔ شگفتہ سے بھی بہانہ کرنا پڑا کہ مجھے آفس والوں نے بلالیا ہے۔ اس کا موڈ بھی آف ہو گیا پر کیا کرتی۔ کام تو کام ہوتا ہے۔
ایڈریس تو کلفٹن کا ہے، میں ٹینشن میں ایک گھنٹا پہلے ہی وہاں پہنچ گئی۔ دو کنال سے بڑے گھر کو دیکھ کر دل بیٹھ سا جاتا ہے۔ ہم ساری زندگی بھی محنت کرتے رہیں توایسا گھر نصیب نہ ہو۔ یہاں رہنے والے کیا انسان ہی ہوتے ہیں؟
تیمور درانی نے گھر بھی اپنی طرح اداس بنایا تھا۔ باقی سب گھروں کو دیکھ کر زندگی کا احساس ہوتا تھا۔ اسے دیکھ کر ایک مایوسی اور اداسی ہوتی۔ جیسے پرانی حویلی ہو۔ جس کی تاریک گردشوں میں کئی راز ہوں۔ پینٹ بھی ایسی رنگوں کا جن سے اداسی ٹپکتی ہے۔
یہ شخص زندگی سے اتنا بیزار کیوں ہے۔ ٹھیک ہے یہ خدا کو نہیں مانتا۔ پھر بھی اتنی اداسی کس لیے۔ کیا کہانی ہے اس کے پیچھے؟
مجھے اپنے خوف کے ساتھ ساتھ ایک تجسس بھی محسوس ہونے لگا۔ میں نے فوراً اپنے آپ کو سمجھایا، عبیر اس شخص کے بارے میں سوچنا بھی خطرناک ہے۔ پتا نہیں یہ آج میرے ساتھ کیا کرتا ہے۔ میں نے گلی میں گاڑی پارک کی اور بوجھل قدموں سے بنگلے کی طرف چل پڑی۔ دوخطرناک قسم کے چوکیدار مجھے سخت نظروں سے دیکھنے لگے۔
میرا حلیہ وہاں آنے والے عام لوگوں جیسا نہیں تھا۔ اس سوسائٹی میں شاید ایسے حلیے میں صرف بھیک مانگنے والیاں ہی آتی تھیں۔ شاید انھیں میرے آنے کے بارے میں علم تھا۔ آٹو میٹک گیٹ خود بخود کھل گیا۔
میرا ستقبال ایک بہت بڑے جرمن شیفرڈ نے کیا جس کے بھونکنے نے ایک منٹ کے لیے میرا سانس ہی بند کروا دیا۔ لیکن پھر ایک آواز نے کتے کو خاموشی سے ایک کونے میں سہم کر بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔
گھر کا لان بہت ہی بڑا اور ویل مینٹینڈ تھا۔ کئی ایسے پھول اور پودے بھی نظر آئے جو پاکستان میں نظر نہیں آتے۔ گھاس بھی اتنی ملائم کہ ننگے پیر ہی چلتے رہو۔ لان کے درمیاں میں ٹیبل کے ساتھ کرسیاں پڑی تھیں۔ تبھی میں نے کرسی پر بیٹھے تیمور درانی کو اپنی طرف گھورتے دیکھا۔
تیمور درانی آج انفارمل ڈریس میں تھا، شاید گالف کھیل کر آ رہا تھا۔ اس نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ اس کی نظریں ویسی ہی چبھتی ہوئیں۔ اس نے رسمی طور پر حال احوال پوچھا اور ملازم سے کہہ کر میرے لیے کافی منگوا لی۔ میں کہتی رہی کہ مجھے طلب نہیں ہے۔ اس نے سنی ان سنی کر دی۔ کافی آنے تک وہ خاموشی سے بیٹھا مجھے دیکھتا رہا۔
مجھے بہت ہی آکورڈ لگا۔ اس کی موجودگی اور دیکھنا کبھی بھی نارمل لوگوں جیسا نہ لگتا۔ میں ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ کوئی نہ کوئی بات چھیڑنا ضروری تھی ورنہ میرے لیے بیٹھنا مشکل ہو جاتا۔ سوچا اس سے پودوں اور پھولوں کے بارے میں پوچھتی ہوں۔ اس سے پہلے ہی وہ خود بول پڑا۔
مس عبیر میں لوگوں کو بہت جلدی جان لیتا ہوں۔ اسی لیے ان کے بارے میں میرا تجسس ختم ہو جاتا ہے۔ آپ کے بارے میں میرا تجسس ختم نہیں ہو رہا۔ کیا کہیں اس نقاب اور سادگی کے پیچھے کوئی خاص بات ہے؟
مجھے کافی پیتے ہلکی سی کھانسی آئی۔ یعنی یہ میرے بارے میں پر تجسس ہے۔
نہیں سر! ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے، شاید نقاب کی وجہ سے ایسا تاثر آتا ہے۔ میں نے بھی عاجزی سے کہا۔
مس عبیر میں سائنسی قسم کا بندہ ہوں اور کسی بھی قسم کی روح کو نہیں مانتا۔ لیکن میں ہر شخص کی موجودگی میں اس کے اندر کے جانور کو جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ لوگوں کی موجودگی اور رویہ چیخ چیخ کر ان کے اندر کے جانور کے بارے میں بتاتا ہے۔ اکثر لوگوں کو میں نے گدھے کی طرح پایا ہے۔ جن پر جتنا زیادہ وزن ڈالو، جتنی سختی کرو اتنا ہی کام کرتے ہیں۔
کچھ لوگ چالاک لومڑیوں کی طرح ہوتے ہیں اور کچھ شیروں جیسے ہوتے ہیں۔ کچھ بھیڑیے ہوتے ہیں اور کچھ کتے ہوتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر شیروں سے زیادہ بھیڑیوں کو پسند کرتا ہوں۔ اسی لیے میں نے جرمن شیفرڈ کتا رکھا ہے۔ جرمن شیفرڈ کتے بھی بھیڑیے کی نسل سے ہیں۔
تو اپنے بارے میں اس کا کیا خیال ہے؟ لیکن میں ڈر کے مارے چپ رہی۔
میں آپ کے اندر کے جانور کو صحیح طرح جان نہیں پا رہا۔ کبھی مجھے ایک سہمی ہوئی ہرنی نظر آتی ہے تو کبھی ایک شیرنی اور کبھی ایک مورنی۔ آپ اصل میں کیا ہیں۔
ایک ہی سانس میں اس نے مجھے شیرنی، ہرنی اور مورنی بنا دیا۔ یہ شخص کسی چڑیا گھر میں تو نہیں رہا۔ اس کا دماغ واقعی خراب ہے، کونسا جانور؟ کیسا جانور۔
سر! آپ کی باتیں مجھے سمجھ نہیں آ رہیں، میں ایک عام سی لڑکی ہوں کوئی ہرنی، شیر یا مورنی نہیں۔
وہ ہلکا سا مسکرا کر خاموش ہو گیا اور کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اسی دوران انٹیرئر ڈیزائنر کی ٹیم آ گئی۔ دو آرٹسٹ قسم کی لڑکیاں اور ایک لڑکی نما لڑکا تھا۔ یہ آرٹسٹ لوگ ایسی ہی ہوتے ہیں۔ لڑکیوں نے جینز اور شرٹس پہنی تھیں جب اس لڑکے نے ہینڈ شیک کرنا چاہا تو میں نے ہاتھ پیچھے کر لیا۔ اس نے تھوڑا مائنڈ کیا، پھر نارمل ہو گیا۔ ان کی ساری گفتگو انگریزی میں ہونے لگی۔ تبھی مجھے معلوم پڑا کہ گھر باقی تو ڈیکوریٹ ہے بس ایک لائبریری ڈیکوریٹ کرنی ہے۔ تیمور درانی ہمیں گھر کے اندر لے گیا۔
گھر کا سٹرکچر عام گھروں سے ذرا سا مختلف تھا لیکن رنگوں اور لائٹنگ کی سکیم بہت یونیک تھی۔ پینٹنگز، سکلپچر، اور آرٹ پیسز بہت زیادہ تھے۔ ایک کونے میں بدھا کا مجسمہ بھی نظر آیا۔ یہ شخص تو روحانیت کو نہیں مانتا، پھر بدھا کے مجسمے کو کس لیے رکھا ہے۔ وہاں انڈین پینٹنگز بھی نظر آئیں۔ جس میں میرا بائی گلیوں میں پھر تی دکھائی گئی۔
محلوں میں پلی، بن کے جوگن چلی
میرا رانی دیوانی کہانے لگی۔
یہ شخص بھی عجیب ہے، مذہب کو مانتا نہیں اور مذہب سے متعلق تہذیبی چیزوں کو یوں خوبصورتی کے طور پر رکھتا ہے۔ ایک پینٹنگ میں مغلوں کی فوج کو لڑتے دکھایا گیا۔ ایک پینٹنگ تباہ حال دہلی کی۔ حیرت انگیز طور پر گھر میں تیمور درانی یا اس کی فیملی کو کوئی تصویر نہیں تھی۔ گھر میں ملازمین کے علاوہ بھی کوئی نہیں تھا۔ اتنے بڑے گھر میں یہ اکیلا کیسے رہ لیتا ہو گا۔
اتنا پیسہ لگانے کا کیا فائدہ؟ یہ تو بے روح ایک مکان ہے کوئی گھر نہیں۔
صحیح کہتے ہیں، "اصل چیز ہمارے اندر ہی ہوتی ہے جسے ہم باہر نکالتے ہیں"۔ تیمور درانی کے اندر کا خلا اور تنہائی دیواروں سے ٹپکتا تھا۔ اس کے اندر بھی ایک ویرانہ تھا۔ وہ آرٹ کے پیچھے اپنا اصل چھپانے کی کوشش کر رہا تھا مگر دیکھنے والی آنکھ سمجھ سکتی تھی۔
گھر میں ایک بڑی لائبریری پہلے سے موجود ہے۔ پھر بھی وہ ایک اور لائبریری بنوانا چاہ رہا تھا۔ ان امیروں کے شوق بھی نرالے ہیں۔ پہلے والی لائبریری دیکھ کر میں دنگ رہ گئی۔
اتنی زیادہ کتابیں، انھیں پڑھتا کون ہو گا۔ لائبریری کی فضا میں کاغذوں اور لکڑی کی مسحور کن خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ نیچے ایرانی قالین، مجسمے اور پینٹنگز یہاں بھی نظر آئیں۔ ایک طرف ٹیبل پر گرامو فون اور پرانا ٹائپ رائٹر پڑا تھا۔
جلد ہی ہم کام کی طرف آ گئے۔ تیمور درانی نے ہمیں اپنی پسند بتائی اور چلا گیا۔ میں خاموشی سے اس ٹیم کو کام کرتے دیکھنے لگی، تھوڑی بہت سجیشنز میں نے دیں۔ زیادہ کام وہی کرتے رہے۔ میں ان کی ایکسپرٹیز سے امپریس ہوئی۔ یہ لوگ صرف دکھنے میں ہی لاپرواہ ہوتے ہیں۔ کام کرنے لگیں تو پھر انھیں کسی بات کا ہوش نہیں رہتا۔ مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا مزہ آیا۔
بریک کے دوران ان لڑکیوں سے گپ شپ ہوئی۔ سب نے باہر سے کورسسز کیے تھے۔ دونوں لڑکیوں نے سگریٹ بھی پینا شروع کر دیا۔ جس سے مجھے بہت آلکس آئی۔ پتا نہیں کیوں لڑکیاں سگریٹ پیتی اچھی نہیں لگتیں۔ ایک چیپنس کا احساس ہوتا ہے۔ پر میں کسی کی پسند ناپسند کو کیا کہہ سکتی تھی۔
یہ کام کافی دن چلنا تھا، تو کیا میں بار بار یہاں آؤں گی؟
میرا یہاں کام ہے کیا؟ تیمور درانی نے مجھے کیوں بلایا ہے۔ یہ لوگ تو مجھ سے بہتر کام جانتے تھے۔ میں تو صرف ان کا کام دیکھ رہی تھی۔
لیکن میں تیمور درانی سے کیا کہہ سکتی تھی۔ شام کے وقت وہ ٹیم چلی گئی مگر مجھے تیمور درانی نے کافی کے لیے روک لیا۔ میں انکار کرتی رہی کہ میرے گھر والے انتظار کر رہے ہوں گے۔ لیکن اس نے میری ایک نہ سنی۔
اس کے سامنے بیٹھ کر نقاب میں کافی پینے میں مجھے کوفت ہوتی۔ شاید وہ اس کوفت کو انجوائے کرتا تھا۔ نوکری کے لیے بھی کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔
میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ انٹیریر ڈیزائننگ کی ٹیم کافی کمپیٹنٹ ہے انھیں میری ضرورت نہیں۔
نہیں آپ کی فیڈ بیک بھی ضروری ہے۔ اس نے کوئی وضاحت نہ کی۔ عجیب بندہ ہے؟
آپ کو اگلے دو تین ہفتے بھی آنا پڑے گا۔
مجھے شدید غصہ آیا، یہ سمجھتا کیا ہے خود کو؟
میں کیا اس کی خریدی ہوئی لونڈی ہوں جو نوکری سے باہر اس کے گھر کو ڈیکوریٹ کرتی پھروں؟
اس دن رات کو میرا موڈ اس وقت مزید خراب ہو گیا جب کاشف نے بتایا کہ اس کا امریکہ کی ٹور چھ مہینے مزید ایکسٹینڈ ہو گیا ہے۔ اسے چھ مہینے ایک کنسلٹنٹ کمپنی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔
اس نے تو فیصلہ کیا کہ واپس آ جائے، پر اس کے سب سینئرز نے مشورہ دیا: یہ موقع پوری دنیا میں کسی کسی کو ملتا ہے اس لیے اسے ضائع نہ کرو۔
میرے آنسو نکل آئے۔ میں کاشف سے مزید دوور نہیں رہنا چاہتی۔
یہ دوریاں کیوں بڑھتی جا رہی ہیں؟

 

گوہر شہوار
About the Author: گوہر شہوار Read More Articles by گوہر شہوار: 23 Articles with 29039 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.