پاکستان میں چائلڈ لیبر آخر کب تک۔۔۔؟

کچھ دن پہلے مجھے چائلڈ لیبر کے عنوان پر ایک رپورٹ تیار کرنے کا اتفاق ہوا،اس عنوان کے ایسے بہت سے پہلو تھے جن سے پہلی بار میرا واسطہ پڑ رہا تھا،چائلڈ لیبر کیوں ہے؟ذمہ دار کون ہے؟ حکومت یا والدین؟

پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے حکومتی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگا یاجاسکتا ہے کہ ملک میں پائی جانے والی اس لعنت کے درست اعدادوشمار کے جاننے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ،اس ضمن کی جانے والی آخری کوشش آج سے 21سال قبل 1996ء میں ایک سروے میں ہوئی جس کے مطابق پاکستان میں 5سے 14سال کی عمر کے درمیان تقریباََ 3.3ملین سے زائد بچے مزدوری کرتے ہیں،اس میں پنجاب سرفہرست ہے۔

پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم سپارکس کے مطابق 2009ء میں تقریباََ 25ملین سکول جانے والے بچے سکول نہیں جاتے مگر یہ تمام اعدادوشمار صرف اندازوں تک ہی محدود ہے حقیقت میں یہ تعداد کئی گنا زیادہ ہے،روزی کے پیچھے بھاگنے والے یہ بچے ! ان پر نظر دوڑائیں تو ہر ایک کے پیچھے ایک درد ناک کہانی نظر آئے گی۔آل پاکستان لیبرسروے کے مطابق2011ء تک 21ملین سے زائد بچے اس لعنت کا شکار تھے جس میں 27%لڑکیا ں اور 73%لڑکے شامل ہیں۔اس تعداد میں خوفناک اضافے کی وجہ غربت ،بروزگاری ،آبادی میں بے ہنگم اضافہ اور روزبروز بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔

میں نے ان بچوں سے بات کرنے کی کوشش کی تو معلوم پڑا کہ ان میں زیادہ بچے وہ ہیں جن کے سر پر ماں باپ کا سایہ نہیں ہے،کچھ بچے ایسے تھے جوکہ سکول جانا چاہتے ہیں لیکن حکومت کی بے حسی کا شکار ہیں کیوں کہ ان کے والدین کے پاس اتنے وسائل موجود نہیں ہیں کہ وہ ان بچوں کو تعلیم دلواسکیں۔
آئین کا آرٹیکل 11(3) یہ کہتا ہے کہ14سال سے کم عمر بچہ کسی بھی قسم کا مشقت زدہ کام نہیں کرسکتا۔آئین کا آرٹیکل 25(A) کہتا ہے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ 5سے 16سال تک کے بچے کو تعلیم دی جائے۔لیکن اصلیت ہمارے سامنے ہے،بچے مشقت کرتے نظر آتے ہیں،کبھی اینٹوں کے بھٹوں پراپنے ننھے ہاتھوں سے مٹی گوندھتے،کبھی چائے کے ہوٹلوں پر چائے پیش کرتے ،کبھی سڑکوں پر بوٹ پالش کرتے ،کبھی گلیوں میں کوڑے کرکٹ سے کاغذ چنتے،کبھی گھروں میں کام کرکے مالک سے ڈانٹ سنتے ہوئے۔

ایک طرف تو والدین کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اور دوسری طرف حکومت کے نام نہاد دعویٰ ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہے،آج صوبہ پنجاب کے کرتا دہرتا یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم نے اتنے ترقیاتی کام کیے ہیں کہ ہر میدان میں ترقی ہورہی اور دوسری طرف دیکھیں تو ابھی بھی 32ملین سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں اور مزدوری کرتے نظر آتے ہیں تو کیا فائدہ ایسی میٹرو اوراورنج ریل سروس کا کہ ہمارے روشن چراغ گل ہورہے ہیں ۔

تعلیم کس حد تک ضروری ہے یہ بات ہماری مذہبی تعلیمات میں موجود ہیں لیکن ہم پھر بھی ایسے پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں جن سے ان مزدور بچوں کو کوئی فائدہ نہیں ہے، 8اکتوبر 2007ء کو کشمیر میں آنے والے زلزلے سے 2800سکول تباہ ہوئے تھے 10سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کہ بعد بھی ابھی تک 1300سکول آباد ہوپائے ہیں تو آپ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہمیں کس میدان میں کام کرنا چاہئے۔وسائل موجود نہیں ہیں اور ہم نے وہ پروجیکٹس شروع کر رکھے ہیں جن سے غریب عوام کو کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے، آج کے اس مہنگے دور میں بھی زیادہ تر لوگ 300روپے کما رہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ چائلڈ لیبر ناہو، اگر ہم چائلڈ لیبر سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے پروجیکٹس پر کام کرنا ہوگا جس سے براہ راست عوام کو فائدہ ہو ،مہنگائی پر قابو پایا جائے تاکہ ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز ہر شہری کی پہنچ میں ہو،تب ہی ممکن ہے کہ جو بچہ سکول کی بجائے چائے کہ ہوٹل میں نظر آرہا ہے وہ سکول میں نظر آئے گا۔اور اگر ایسا نہیں ہوا تو یقین جانئے یہ بچے آنکھوں میں خواب لئے اپنا پیٹ پالتے اور مزدوری کرتے نظر آئیں گے ۔
صاحب تم کھلونوں کی بات کرتے ہو
حالات تو بچپن بھی چرالیتے ہیں

ShahRoz Raza Rai
About the Author: ShahRoz Raza Rai Read More Articles by ShahRoz Raza Rai: 3 Articles with 2963 views RAdio Jockey, Voice Over Artist, Journalist, Poet, Artist, Singer, Advertiser , Sketcher, Am I...? :) Just A Spirit Flowing In The Universe......!
In
.. View More