یہ جو پبلک ہے سب جانتی ہے

پاکستانی عوام بھی ایک الگ ہی مزاج کی قوم ہیں.جب چاہے کسی کو آسمان پہ بٹھادے اور جب چاہیں زمین پہ لاکے پٹخ دے.اپنی خوشی سے جب چاہے جن ہاتھوں میں استعمال ہو. رسہ کشی،محاذ آرائ ،مفاد پرستی کی سیاست بھی قبول ہے. اور بدعنوان، نااہل اور بے عمل غیر جمہوری لوگ بھء حکمرانوں کے روپ میں قابل قبول ہیں .مجال ہے جو کبھی کسی صحیح امیدوار کو پارلیمنٹ کا راستہ دکھایا ہو.لاکھ یہ اپنی مایوسی، بے چارگی،بددلی،بے یقینی اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا رونا روئے اپنے سر پہ لاکے تو انہی کرپٹ لوگوں کو بٹھاتی ہے جنھوں نے اس ملک کا تقریبا بیڑا غرق ہی کردیا ہے.تو قصور وار کون ہے ؟ہم لاکھ دہائ دیں کہ ہمارے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں زیادتی اور نارواسلوک کیا جارہا ہے ہمیں بنیادی سہولتوں اور حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے؟ووٹ انہی کو دیتے ہیں جن کے آگے ان سب باتوں کی کوئ شنوائ نہیں...اس ملک کا ہر بچہ جمہوریت کے معنی و مفہوم سے بلاشک آشنا نہ ہو لیکن جمہوریت کا راگ الاپنے والی تمام سیاسی پارٹیوں سے اچھی طرح واقف ہے. حالانکہ جمہوریت تو ایسی حکومت کا نام ہے جو عوام کی ہو،عوام کے ذریعے وجود میں آئے اور عوام کے لیئے ہی بلا امتیاز کام کرے اور اپنی جیبیں بھرنے کے بجائے ملکی خزانے کو بھرے.لیکن یہ جب تک ممکن نہیں جب تک جمہوریت ایک طرز حکومت ہی نہیں طرز زندگی بھی بن سکے جو ہمارے سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کا ایک مروجہ طریقہ ء کار بن سکے.جسے کوئ موقع پرست رہبر ہم سے چھین نہ سکے.انتخابات کے دوران ہر امیدوار عوام کی عدالت میں اپنا نامہء اعمال لے کے پیش ہوتا ہے اور ہماری ہمیشہ کی خدا ترس عوام پھر سے بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پہ واپس لوٹ آنے کا ایک موقع اور دے دیتی ہے.پھر سے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا بوجھ ڈھوتی ہے اور اپنے پیاروں کی تکلیفیں سمیٹتی ہے. لاشوں کا سامنا کرتی ہے.کہیں دھکے کہیں، لمبی لمبی قطاریں تو کہیں دھواں اگلتی گاڑیوں کے آگے اپنا نظام تنفس بحال کرتی یہ جو پبلک ہے نا سب جانتی ہے بس جب عمل کرنے کی بات آتی ہے تو ایک جٹھ کی صورت متحد ہونے کے بجائے ہمیشہ سے کئ سمتوں میں منتشر ہو جاتی ہے-

جسے چاہے سر کا تاج بنالیں جسے چاہیں جوتے کی نوک پہ رکھ لیں.کچھ ایسا ہی حال ہمارے سیاسی اداروں اور پارلیمنٹ کا بھی ہے.جو آج کل سیاست کم ارکان کی خرید و فروخت میں زیادہ مصروف نظر آتی ہے کوئ بِک رہا ہے خدارا کچھ اور نہیں سمجھیئے گا-

ب کے نیچے زیر اسی لیئے لگایا ہے اب عوام اتنی بھی بے ادب نہیں ،خیر چھوڑیئے تو کوئ بـِک رہا ہے تو کوئ جُھک رہا ہے کوئ شور مچارہا ہے تو کوئ بغلیں جھانک رہا ہے رات دن کتنی خردبرد کرکے ایک چھوٹا سا آشیانہ بنایا تھا .بابا رحمتے نے آف شور کمپینیوں کے بعد اس پہ بھی تحقیقاتی کمیشن بٹھا دیا حد ہوتی ہے نا انصافی کی. سب کی بہن ،سب کی بیٹی ،نقلی بی بی اصلی میک اپ پروف شیرنی نے بھرے جلسے میں ترازو کو دیکھ کے کہا یہ کیا ہے، ادھر لا، پھینک دو ،اسے آج گواہی دے دو، اس کے جھکے ہوئے پلڑے میں لاڈلا بیٹھا ہے.یہ وہ ترازو ہے جس کے اندر اپنے لاڈلوں کا وزن ڈال کر نواز کے خلاف نا انصافی کی گئ ،اسے نکال دیا گیا جیسے الفاظ استعمال کیئے.

ویسے اس میں ایک بیچاری مریم نواز کا بھی اکیلا قصور نہیں آج کل اکثر پارلیمانی لیڈر اپنی سیٹ کا غم ایسے ہی غلط کرتے نظر آتے ہیں.تبھی تو عدالت نے پیمرا کو سختی سے تاکید کی ہے کہ ایسی توہین آمیز تقاریر چینلز سے نشر ہی نہ کی جائیں. واضح رہے ایسی ہی ملک اور اداروں کی توہین کرتی تقریر کی پاداش میں ایم کیو ایم کا شیرازہ بکھیر دیا گیا تھا جس کے بعد وہ کئ دھڑوں میں تقسیم ہوگئ.اب بابا جی کا ڈنڈا ان پہ کب چلتا ہے عوام بصد شوق منتظر ہے خود چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی کہہ دیا کہ انھیں تنقید کی کوئ پرواہ نہیں بابا رحمتے وہ ہے جو لوگوں کو سہولت دے اور میں ایسے کام کرتا رہوں گا. دوسری طرف فوج کی طرف سے بیان سامنے آگیا کہ وہ عدالت عظمی کی تذلیل برداشت نہیں کرے گی.عدالت ، پارلیمنٹ اور سیاسی لیڈروں کی محاذ آرائ آگے کیا کھلاتی ہے اس سے پہلے ہی عوامی ردعمل نے پھر اپنا رنگ بدلا اور سیاستدانوں پر جوتوں کی برسات شروع کردی. لیکن رکیئے یہ خاصا غیر اخلاقی ردعمل ہے جو ہمارا خاصہ نہیں ملک کے اندر سے اور ملک کے باہر ہر طرف ہی اس عمل کی شدید مذمت ہورہی ہے بھئ جوتا مارنے کی ضرورت ہی کیا ہے اگر آپ کو ایسے لوگ نا منظور ہیں تو اپنا قیمتی ووٹ دے کر پارلیمنٹ میں لاتے ہی کیوں ہیں.احسن اقبال پر سیمینار میں جوتا اچھالا گیا،خواجہ آصف کے منہ پر کالی سیاہی پھینکی گئ اور ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف پر یکے بعد دیگرے دو جوتے اچھالے گئے اور اس کے بعد شدید نعرے بازی بھی کی گئ.یہی نہیں ایسی ہی ایک کوشش عمران خان کے ساتھ بھی کی گئ جب وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے جسے ان کے ساتھ موجود سیکورٹی اہلکاروں نے ناکام بنادیا

اس سارے عمل سے کچھ اور ہوا ہو، نہ ہوا ہمارے ملک کی پوری دنیا میں جگ ہنسائ ضرور ہوگئ. واقعے کے ذمے داران آخرکار جیلوں میں گئے اب وہ کس کی نفرت کا نشانہ بنتے ہیں یا کس کے لیئے ہیرو یہ تو پبلک ہی جانتی ہے لیکن یہ تو طے ہے اب سارے سیاستدان اندر ہی اندر عوام کا سامنا کرنے سے گھبرا بھی رہے ہیں.اور بیشتر سیاستدانوں کی سیکورٹی سخت بھی کی جارہی ہے .اس وقت سوشل میڈیا پر جوتا ویڈیو نیٹ صارفین میں اس سال سب سے زیادہ پاپولر جا رہی ہے لگے ہاتھوں مریم نواز شیرنی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے باقاعدہ کھلا چیلنج بھی دے دیا ہے کہ کسی میں ہمت ہے تو آئے اور ان کی جوتا اچھالے.اب دیکھنا یہ ہے کہ پبلک میں سے کون ان کا یہ کھلا چیلنج قبول کرتا ہے کیونکہ یہ تو پبلک ہے.

Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 87153 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More