عدمؔ اردو کے زود گو شاعر۔جدا ہوئے 37سال بیت گئے

اردو شاعری میں جب جب ، جہاں جہاں تغزل کا ذکر آئے گا، حسن و عشق کی بات ہوگی، خوبصورتی و رومانیت کا چرچہ ہوگا وہاں وہاں عبد الحمید عدمؔ کی شاعری اور اس کے تغزل کے بغیر ادھوری تصور کی جائے گی۔عدمؔ شاعری پڑھنے والوں کے لیے ، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے پسندیدہ شاعرہے جس نے اردو شاعری کے دامن کو مالا مال کیا ۔اردو کے اس غزل گو شاعر سید عبد الحمید عدمؔ کو رخصت ہوئے 37برس ہوگئے لیکن وہ آج بھی ایک مقبول شاعر کی حیثیت سے ہمارے درمیان موجود ہیں۔ عدم ؔ نے 10مارچ 1981ء کو داعی اجل کو لبیک کہا تھا ۔ڈاکٹر اے وحیدشعراء نے ’تذکر ہ شعراء اردو ‘ میں لکھا ہے کہ عدمؔ نے یوں تو نظم، غزل ، گیت و قطعہ وغیرہ بہت سی اصناف پر طبع آزمائی کی ہے بالخصوص شروع میں انہوں نے نظمیں زیادہ کہیں اور ان کی نظمیں بڑی جان دار ہیں۔ لیکن عدمؔ کا خاص سرمایۂ کمال اُن کا تغزل ہے اور یہ ہونا بھی چاہیے کیونکہ جہاں حسن کی بے پناہ پرستاری اور عشق کی شوریدہ سری جمع ہوجائیں وہاں تغزل جنم لینا لازمی ہے ۔ عدمؔ نے غنائیت و تغزل کی لے وہاں سے پکڑی ہے جہاں اقبالؔ کے بعد چند جدت پسند شاعروں نے اسے چھوڑا تھا‘۔ عدمؔ کا شعر جو ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے ؂
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اِس خیال سے پھر آگیا ہوں مَیں

عدمؔ ان شعراء میں سے ہیں جن کے کلام کو گانے والے بڑے ذوق و شوق سے گایا کرتے اور ان کی گائی کوئی عدمؔ کی غزلیں بہت مقبول ہوا کرتی تھیں۔ہر معروف گانے والے نے عدم ؔ کی غزلیں گائیں اور وہ بہت مشہور بھی ہوئیں۔ مشہور غزل کے دو اشعار ؂
....وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
..........شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
.......عدمؔ بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے

اردو کے اس رومانی شاعرنے اخترؔ کے نام سے شاعری میں قدم رکھا جلد ہی اختر ؔ سے عدمؔ تخلص کر بے لگے اردو شاعری میں امر ہوگئے۔ عدمؔ نے جون 1909ء میں پنجاب کے قصبے’ تلونڈی موسیٰ خان‘ضلع گجرانوالہ میں جنم لیا۔ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ میٹرک اور انٹر لاہور سے کیا ، ان کے خاندان کے زیادہ تر لوگ فوج میں ملازمت کو فخر سمجھا کرتے لیکن عدم نے اپنے آبا کی پیروی نہیں کی ، فوج میں ملازمت کا سلسلہ عدم ؔ کے دادا تک رہا ان کے والد نے بھی فوج میں ملازمت نہیں کی لیکن وہ بہت کم عمر لائے تھے۔ عدمؔ ابھی صرف17برس کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ عدم ؔ کو فکر معاش میں ملازمت کا سہارا لینا پڑا اور انہوں نے ملٹری اکاؤنٹس میں ملازمت کر لی۔دس برس ملازمت کرنے کے بعد عراق چلے گئے، جہاں پر انہوں نے عراقی خاتون سے شادی کر لی، 1941ء میں اپنے وطن ہندوستان واپس آئے اور ایس اے ایس کا امتحان نمایا حیثیت سے پاس کیا ۔ انہیں ملٹری اکاؤنٹس میں دوبارہ ملازمت پر بحال کردیا گیا اور ان کا تبادلہ راولپنڈی کا ہوگیا۔1966ء میں ملٹری اکاؤنٹس میں ڈپٹی اسسٹنٹ کنٹرولر کی حیثیت سے رٹائر ہوگئے۔ذریعہ معاش حساب کتاب لیکن مزاج شاعرانہ تھا ، چنانچہ شاعر ی بھی کرتے رہے ۔جب عدمؔ کی شاعری رومانیت، حساسیت ، رنگینی و بانکپن بکھیر رہی تھی تو انہی دنوں اردو کے تین پرجوش شاعر جوشؔ ملیح آبادی، اختر شیرانی اور حفیظ جالندھری بھی میدان شاعری میں اپنی شاعری کے بام عروج پر تھے۔ لیکن عدمؔ کی شاعری انفرادیت لیے ہوئے تھے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا انداز تھا، عدم ؔ اپنی شفگتہ مزاجی ، بذلہ سنجی ، چٹکلوں ، لطیفوں اور قہقہوں سے لوگوں کو اپنا گرویدابنا ئے ہوئے تھے۔ تغزل کا نکھرا نکھرا ، اجلا اجلا، ستھرا ستھرا رنگ شاعری کے متوالوں کو اپنا اسیر کئے ہوئے تھا۔ جوشؔ اپنی جگہ تھے اور اختر شیرانی کا اپنا انداز تھا۔عدمؔ کے یہ شعر ؂
یاد رکھو تو دل کے پاس ہیں، ہم
بھول جاؤ تو فاصلے ہیں بہت
گل و غنچہ کو ہے ان سے عقیدت اس لیے گہری
تیری زلفوں میں مرجھانے کی گنجائش بہت کم ہے
یہ سمجھ کے سچ جانا ہم نے تیری باتوں کو
اتنے خوبصورت لب جھوٹ کیسے بولیں

عدمؔ کو فطری شاعر کہنا غلط نہ ہوگا، شعریت ان کی رِگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھی۔ وہ جو شعر کہتے اس میں حساسیت نمایاں ہوتی، ان کی شاعری اثر کرنے والی تھی وہ پڑھنے اور سننے والے کے دل پر ایسا اثر کرتی کہ وہ اس سے لطف لیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔یہ بات بھی درست ہے کہ اختر شیرانی کے بعد عدمؔ رومانی شاعر کی حیثیت سے مقبول ہوئے۔ دونوں میں بہت سے باتیں قدر مشترک نظر آتی ہیں فرق اگر ہے تو بس اس قدر کہ عدم ؔ کے کلام میں شادمانی اور فرحت ہے، شگفتہ بیانی ہے، مسروریت ہے اور تازگی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ عدم ؔ کی تو ہر غزل، ہر شعر دل کو اپنی جانب کھینچ لینے والی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ دیکھئے عدم ؔ کی ایک خوبصور ت غزل کا مطلع اور حسین مقطع ؂
....بہت سے لوگوں کو غم نے جلا کر ماردیا
جو بچ رہے تھے انہیں مے پلا کے ماردیا
......تعینات کی حد تک تو جی رہا تھا عدمؔ
.....تعینات کے پردے اٹھاکے ماردیا
ایک اور خوبصور ت غزل کا مطلع اور حسین مقطع دیکھئے ؂
آنکھوں سے تیری زلف کا سایہ نہیں جاتا
........آرام جو دیکھا ہے بھلا یا نہیں جاتا
جس تار کو چھیڑیں وہی فریاد بر لب ہے
.....اب ہم سے عدمؔ ساز بجایا نہیں جاتا

عدمؔ ترجمہ کرنے کی بھی مہارت رکھتے تھے ساتھ ہی وہ عمر خیام کے ہم خیال بھی تھے، عمر خیام سے عقیدت و محبت اور ہم خیالی نے انہیں عمر خیام کی رباعیات کا ترجمہ کرنے کی جانب مائل کیا اور انہوں نے خیام کی رباعیات کا عمدہ ترجمہ کیا جسے ہر خاص و عام میں پذیرائی حاصل ہوئی ؂
.....سلسلہ تیری میری باتوں کا
پس پردہ ہے جو بھی جاری ہے
........پردہ اٹھا تو آگہی ہوگی
پردہ داری ہی پردہ داری ہے
....نوجوانی کے عہد رنگیں میں

عدمؔ قطعات کہنے میں بھی مہارت رکھتے تھے ان کے کہے ہوئے قطعات بہت مقبول ہیں۔ ایک قطعہ پیش ہے ؂

........اب مری حالت غم ناک پہ کڑھنا کیسا
.............کیا ہوا مجھ کو اگر آپ نے ناشاد کیا
...............حادثہ ہے مگر ایسا تو المناک نہیں
یعنی ایک دوست نے اک دوست کو برباد کیا

عدمؔ کے شعری مجموعوں کی تعدا د خاصی ہے ۔جن میں ’’نقش دوام،خرابات،چار�ۂدر،زلف پریشان،سرد سمن،گردش جام،شہر خوباں،گلنار،عکس جام،رام آہو،بط مے، نگار خانہ، ساز صدف، زنگ و آہنگ ، قصر شیریں ، قول و قرار، دو جام ، خم ابرو، دیوان عدم‘‘شامل ہیں۔عدمؔ کے کلا م سے کچھ انتخاب ؂
کچھ اس ادا سے نسیم بہار گزری ہے
کہ جیسے رحمت پروردگار گزری ہے
وہاں وہاں ابھی رقصاں ہے بوئے عنبر و عود
جہا ں جہاں سے چمن میں بہار گزری ہے
...پلکوں پر نم کیا پھیل گیا
ہر سمت دھواں سا پھیل گیا
....مٹی ہوکر عشق کیا ہے اک دریا کی روانی سے
دیوار و در مانگ رہا ہوں میں بھی بہتے پانی سے
ساقی کے التفات سے کچھ بات بن گئی
.....ورنہ حیات و موت میں کسی کو تمیز تھی
آگیا تھا اُن کے ہونٹوں پر تبسم خواب میں
...ورنہ اتنی دلکشی کب تھی شب مہتاب میں
مار ڈالا ہے زندگی نے عدم ؔ
جان نکلے تو کچھ قرار آئے
اے عدمؔ احتیاط لوگوں سے
.....لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

عبدالحمید عدم ؔ نے 37 سال قبل10 مارچ 1981ء میں داعی اجل کو لبیک کہا اور شاعر مشرق کے شہر لاہور میں آسودۂ خاک ہیں ۔ عدمؔ کے چاہنے والوں کے نام (10مارچ2018ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 850 Articles with 1261082 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More