ادبی سلطنت کی بانو

28 نومبر 1928 کوفیروز پورکی زرخیزیوں سے بدر الدین کے آنگن میں پھوٹتی کونپل نے چار بہاریں بھی کیا دیکھیں کہ شفقت پدری کی مشفق فضائیں روٹھ گئیں۔ احساس یتیمی کے بلکتے درد کو گلے سے لگائے شباب کی چوکھٹ کو چھوتے قدم طوق غلامی کی ٹوٹتی جھنکاروں میں احساس آزادی کا پورا سانس نہ لے پائے تھے کہ جنم بھومی کی مفارقت کے ڈنکے نے ٹھٹھکا دیا۔ اور یوں ان جان راہوں کی آبلہ پائیوں نے سرخ سویرے کا منظر بچشم وا دیکھا۔ یادداشتوں کے نہاں خانوں سے جھانکتے آلام و مصائب نے تعلیمی مسافتیں طے کرتی بانو کو کرب کی آنچ پہ کڑھتے دیکھا۔ درد سے چٹختی انگلیوں کی پوروں سے رنجیدہ حقائق یوں پھوٹے کہ کہیں سے؛ آتش پا ؛ بھڑک اٹھی تو کہیں سے ؛ آدھی بات؛ میں استاد کی محرومی چیخنے لگی۔ پاؤں کے انگوٹھے سے فرش کریدتی گھریلو خاتون نے ؛ حوا کی بیٹی ؛ میں اپنے درد کو منقش دیکھا۔ یہ منبع اشفاق قرب اشفاق سے مزین ھو کر ایسا نکھرا کہ ؛راجہ گدھ۔؛ ادبی ارتقا کے چرخ اطلس پردمکتاسورج گمنام راہوں پہ گامزن ادبی سنگریزوں کو منور کرنے لگا۔۔

قلمی جھنکار سے خاموشیوں کی پازیب توڑتی،اسرار و رموز کو حرفوں کے پردوں میں جوڑتی، تو کبھی معاشرے میں عدم مساوات کی بنا پہ تشکیل پاتے رجحانات کو الفاظ کے کھونٹوں سے باندھتی، کبھی عشق لاحاصل کے پاگل پن کی تصویر کشی کرتی، تو کبھی مشرقی حسن کی سسکارتی حسرتوں کوقلم کا خضاب لگاتی، پاکستان میں بسنے والوں کو آزادیوں کی قیمت بتاتی، تو کبھی دیارغیر میں اپنی مٹی کی خوشبو کو ترستی سسکیوں کے پرسے دہراتی،تو کبھی سر سے سرکتی چادروں کے ساتھ گرتی تہذیب کوسنبھالتی،تو کبھی بھاڑے کے لکھاریوں کے چنگل سے قراطیس ادب کو چھڑاتی، سماج کے ہاتھوں بے بس مرد اور مجبور عورت کی روح بن کرناول نگاریوں کے قفس میں پھڑپھڑاتی،جہالت کی خاردارجھاڑیوں پر علم و نور کی قلمیں لٹکاتی،تلامیذ کواساتذہ کے روبروزانوادب تہہ کرنے سکھاتی، ستائشی کلمات سے لکھت پڑھت کے میدان میں نوواردان کے حوصلے بڑھاتی، قلم کی روانیوں کو اپنی قلمکاریوں سے زیب وزینت کے چار چاند لگاتی، گلستان ادب کی ہر خمیدہ شاخ پہ سرخ سینے والی چڑیا کی طرح چہچہاتی، روایتوں کہانیوں اور فکر نو کے امتزاج میں تحریروں کو گوندھتی، غوطہ زن کی طرح آبدار جواہرات کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ہوش کے کانوں میں آویزاں کرتی، سرزمین ادب میں تخم ہائے علم و نور کی کا شتکاریاں کرتی، الفاظ و معانی کی حقیقتوں کو ادبی کسوٹیوں پر پرکھتی، صنفی امتیاز ات سے بالا مقام تانیثیت کے ثوابت کو جہاں چرخ نہم ادب پہ سجاتی، وہاں صوفیت کی روشنائی سے مرد ابریشم کی تصنیف میں قلمی شہکاریوں کے چشمے بہاتی، جہاں قلم آفرینیوں کی قدر و منزلت کے طور سے کلیم بن کر زمانے سے کلام کرتی، وہاں اپنے من کے زندان میں دیس نکالے کی سزا کاٹتی محبوس دختر حوا کے یوسفی احساسات کو بھی تھپتھپاتی، جہاں اتنا لکھتی لکھاتی وہاں خانہ داریوں کے سارے تقاضے بھی نبھاتی، نام نہاد غیرت کے نام پہ مرتی مرجانیوں کے قصیلفظوں کی پینٹنگز سے نکھارتی، ڈرامہ نگاریوں کے جھاڑو لگا لگا کر اذہان و ضمائرکی سطوحات پہ بے حسی کی جمی گرد جھاڑتی، پنڈت رتن ناتھ کے فسانہ آزاد کو اپنی افسانہ نگاریوں میں اتارتی، طلسم کتابت سے سرزمین تخیل پر صبح نو اتارتی،گھریلو پڑمردگیوں پر خوش کن لفظوں کے چڑھاوے چڑھاتی، اردو ادب سے روٹھتی نسل جواں کو مناتی، بیسویں صدی کے اولین کھوجیوں کی طرح ادبی صلاحیتوں کے کھوج لگاتی، معاونت ومدد گاری کے سفر میں دلداریوں اور دل آزاریوں کے سلسلے نبھاتی، 4 فروری 2017 کی ہچکیاں لیتی شام کے دھندلکوں میں دھندلاتی،ایسٹر کے موسم کے چیری کے پھولوں کی سفیدیوں جیسا لباس اپنے تن سجاتی، ادبی خزائن کے افلاک پہ داغ مفارقت لگاتی خالق حقیقی سے جا ملی -

بانو قدسیہ کو ادبی پجاریوں سے بچھڑے ایک سال بیت گیا۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں بازگشت، امر بیل، دست بستہ، سامان وجود، توجہ کی طالب، آتش زیرپا، ان کی دیگر تصانیف میں ایک دن، شہر لا زوال، پروا، موم کی گلیاں، چہار چمن، دوسرا دروازہ، ہجرتوں کے درمیاں اور ان کی خود نوشت راہ رواں کے نام سر فہرست ہیں۔ انہوں نے ٹیلی ویڑن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز اور ڈرامہ سیریز تحریر کیے، جن کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا ہے۔
انہوں نے دنیائے ادبیات میں ایسا رنگ بھرا کہ مطالعاتی حس کی تسکین کے بام عروج پہ دمکتے ستارے اس کی گرد پا ٹھہرے۔ ہر تحریر کو ماں بن کے پالتی پوستی سخن سنج شخصیت کے خدوخال کو حروف تہجی میں سمیٹنا خاکسار کی قلمی طاقتوں سے کہیں بالا ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ ان کے چھوڑے ہوئے نادر الوجود تصنیفات کے معدن اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ دامان قلب و نگاہ کو اپنا اسیر کرتے، نسل در نسل شخصیات کی تعمیر و تشکیل کرتے رہیں گے۔
کھیتوں میں پھر سرسوں کی رْت آ پہنچی
آج تجھے بن دیکھے پورا سال ہؤا

مراتب علوم پہ فائز اتالیق کی موت غروب آفتاب کے مشابہ ہے کہ سرخ نقاب اوڑھے پچھمی افق پہ چھاتی شام کے دھندلکوں میں پوشیدہ تو ہو جاتا ہے لیکن اس کی عطا کردہ روشنی سے ہی مہتاب و کواکب کی مشعلیں خاک سے افلاک تک دھرتی کو منور کر دیتی ہیں اسی طرح سفید پوش معلم کی میت لحد کی گہرائیوں میں مدفون ہو کر بھی اپنے علمی ادارکات کے ترکے سے جہان رنگ و بْو کے خاک زادوں افلاک فہم و فراست پہ تخت نشین کرنے میں کردار دا کرتی رہتی ہے۔

تمام ادبی تنظیموں سے بالعموم اور پاکستان ادبی کونسل سے بالخصوص درخواست ہے کہ اس ادبی سلطنت کی بانو کی یاد میں محافل کا اہتمام فرمائیں

Mukhtar Hussain
About the Author: Mukhtar Hussain Read More Articles by Mukhtar Hussain: 6 Articles with 4639 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.