شریف خاندان سیاست میں کیسے آیا؟

(قومی سیاسی تاریخ کے ایک اہم راز سے پردہ اُٹھتا ہے)
شریف خاندان کو سیاست میں داخل کرنے کا کام صر ف اور صرف ایک شخص نے سر انجام دیا جس کا نام گورنر جیلانی تھا، ضیاء آمریت کا ایک اہم کل پرزہ جس کے ساتھ لوہے کے ایک تاجر میاں محمد شریف نے راہ و رسم بڑھائی اور ووٹوں سے نہیں ، صرف ’’نوٹوں‘‘ کے ذریعے مستقبل کی ملکی سیاست گویا خرید لی ۔ جی ہاں ، یہ حقیقت درج ذیل سطور پر غور کرنے سے آپ پر بالکل واضح ہو جائے گی۔ یہ حقایق بطور قومی امانت (اﷲ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے) آپ تک پہنچائے جا رہے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

1۔ راقم گذشتہ نصف صدی سے کالجوں کی دنیا میں بحیثیت معلم تدریسی خدمات کی تاریخ رکھتا ہے ۔کچھ عرصہ قبل ایک محفل میں گورنمبٹ کالج سول لائن لاہور کے ایک نہایت معتبر پروفیسر(ریٹائرڈ) کے الفاظ اپنے کانوں سے سنے کہ: ’’ایک بار ہمارا ایک وفد جناب میاں امیرالدین (سربراہ انجمن حمایتِ اسلام) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ ہم اکثر کالج سے متعلقہ مسائل کے سلسلے میں اُن کے پاس جاتے رہتے تھے ۔ ہم گئے تو وہاں ایک صاحب اُن کے پاس بیٹھے تھے ۔ ہم بھی ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ صاحب اُٹھ کر چلے گئے تو ہم نے پوچھا’’ میاں صاحب ایہہ کون سی ؟ جواب ملا : ایہہ مستری شریف سی ۔ کیہندا سی کہ میرا پتر کیہندا اے مینوں تیہہ(30) لَکھ روپیہ دیو کہ میں وزیر بننا۔ تے میاں صاحب میں جو اوہنوں پیسے دے دتے تاں او ضائع تے نئیں کر دے گا۔۔۔اس پر ہم نے پوچھا : فیر تُسی کی کیہا؟ جواب ملا : میں کیہیا تیرے پُتر سیانین تے کاہدے لئی ضائع کرن گے۔(اس پر ایک قہقہ بلند ہوا) ‘‘۔

2۔ گورنمنٹ ایف سی کالج کے دور کے میرے ایک دوست پروفیسر رضوان صاحب نے ایک دن مجھے بتایا کہ وہ جو اسلامیات کے صدر شعبہ تھے اُنہوں نے مجھے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ: ’’ ایک وقت وہ میاں شریف کے ہاں ملازم تھے ۔ ایک دن میاں صاحب نے مجھے ایک چٹ دی جس پر گورنر جیلانی کے گھر کا پتہ لکھا ہوا تھا اور کہا کہ تم ڈرائیور کے ساتھ اس گاڑی میں بیٹھ جاؤ اور اس ایڈریس پر چلے جاؤ۔ یہ زیرو میٹر مرسیڈیز گاڑی ہے ، یہ وہاں لے جا کر اس کی چابیاں اُن کے سپرد کر کے تم دونوں رکشہ میں واپس آ جاؤ۔ ‘‘

3۔ جہاں تک گورنر جیلانی کو بنگلہ بنا کر دینے جیسی اطلاعات ہیں یہ زبان زدعام قصے ہیں۔
عرض یہ کرنا ہے کہ اپریل 1981میں گورنر موصوف نے ایک نوجوان کو فونڈری سے اُٹھا کر ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت کی کرسی پر بٹھا دیا اوریوں ’’ خاندانِ شریفاں‘‘ یا ’’آل ِ شریف‘‘ کی سیاست کی بنیادرکھ دی اور آگے تو پھر پنجابی محاورہ’’ چل سُو چل‘‘ اپنا کام دکھاتا رہا۔ یہ تھا جناب نواز شریف اور اُن کے خاندان کی سیاست میں تشریف آوری کا بیان جس پر جتنا چاہے غور کر لیں اور جمہوریت کا میرٹ تلاش کرتے رہیں مگر ہمارے خیال میں یہ موصوف کی ٗ سیاست میں ’’ جعلی اینٹری ‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس کے مقابلے میں جعلی ڈگری تو کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔۔۔سیاست کے میدان میں با یں انداز جلوہ افروز ہونے والا کردار اگر عدالت عظمیٰ کے خلاف کوئی تحریک برپا کیے ہوئے ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہو سکتی ہے ۔ تاہم حیرانی ہوتی ہے کہ ملک کے وزیر اعظموں اور ستر سال کا ورد اپنانے والی زبانوں پر اُن کے محسنِ حقیقی، سیاسی جدِ امجد اور سیاسی مائی باپ کا بھول کر بھی زبان پر نام نہیں آتا (نہ باپ کی اور نہ بیٹی کی زبان پر)۔ اسے کیا کہیں۔

Rasheed Ahmed
About the Author: Rasheed Ahmed Read More Articles by Rasheed Ahmed: 48 Articles with 34097 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.