چوہدری نثار،عمران اورفنانشل ایکشن ٹاسک فورس

اندورنی و بیرونی خلفشاروں کی ڈوریں تیز گام ریل کی طرح سرپٹ دوڑ رہی ہیں۔ پاکستان کے سیاسی و سماجی حالات گرگٹ کے رنگوں کی طرح جھٹ سے بدلتے ہیں اور نئے رنگوں کی روشنیوں میں مکس ہوجائے ہیں۔ لیکن مسلم لیگ ن کی کمر پر ایک ایسا بھار ہے جس کے ساتھ جیسے سرخاب کے پر لگے ہیں، وہ سٹیٹ فارورڈ ہے اوراسٹیبلشمنٹ اس پر مہربان ہے ۔اسے پارٹی کا کل انتظامی اثاثہ کہیں یا پارٹی میں گروپنگ کی داغ بیل ڈالنے والا وفادار جانباز۔۔میر ی مراد چوہدری نثار ہیں،جو پارٹی میں شہباز شریف کے بعد وکھری پہچان رکھتے ہیں۔چوہدری نثار علی خان کا اپنا پریشر گروپ ہے۔ حالیہ صورتحال میں چوہدری نثار کا پلڑا شہباز شریف کے حق میں جھکا ہے اور وہ نواز شریف کی عدالت سے Confrontationکی پالیسی سے سخت اختلاف کررہے اور نواز شریف اور ان کے نئے مشیروں سے خبردار بھی کررہے ہیں۔ میڈیا ، عدلیہ ، مقننہ سمیت ملک کے دوسرے ریاستی ادارے شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کو نئے سیٹ اپ میں دیکھنے چاہتے ہیں نہ کہ نواز شریف، مریم نواز ، پرویز رشید اور دوسرے فصلی بٹیروں کو۔۔حاجی نواز رضا صحافتی حلقوں میں نواز شریف کے دست راست سمجھے جاتے ہیں ،کے مطابق اب وہ بھی نواز شریف کی غلط حکمت عملیوں کی بدولت چوہدری نثار کے ساتھ کھڑے ہیں اور چوہدری نثار کے بیا ن ’’میں جونئیرمریم نواز جو کہ میری بیٹی کے برابر ہیں،کے ماتحت کام نہیں کرسکتا ‘‘کے بعد وہ بھی نثار کے ترازو میں کھڑے ہیں اور نواز شریف کو حکمت عملی تبدیل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ خیر یہ بات تو طہ ہے کہ نواز شریف کی انتقامی سیاست سے بہرحال نقصان انہیں خود بھی کئی بار ہو اہے اور پارٹی بھی ابتلاء سے گرزرہی ہے۔ عوام الناس کے احساسات و جذبات کے مطابق نواز شریف کو پیچھے رہ کر شہبا ز شریف کے ہاتھوں کو مضبوط بنانا چاہیے۔اور خواہ مخواہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور انکی کابینہ کے ذریعے سے عدلیہ کے احتساب اور رول پر بات کرا کر مسائل کھڑے نہیں کرنے چاہئیں۔اورخود ساختہ گرفتاری کے بہانے بنا کر خود کو ہیر و بنانے کی کوشش نہ کریں ۔عدلیہ کو اپنی حدود میں رہنے کی تنبیہ کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑا نہ ماریں۔ جذباتیت سے بھرپور عدلیہ مخالف تقاریر سے ذہنی افسردگی اور آلودگی نہ پھیلائیں۔ کیوں ابھی آپ کی پارٹی صدار ت اور نااہلی کی مدت بارے فیصلہ آنا باقی ہے۔ اور نظام سے مستقل عدم تعاون کی صورت میں Contempt of Courtلگ سکتی ہے یا آپ کی تقاریر نشر ہونا بند ہو سکتی ہیں جس سے آپ کی بے توقیری ، اقتصادی ترقی کے رکنے اور مسلم لیگ ن کے گراف کے نیچے آنے کاشدید اندیشہ ہے۔

جمائما گولڈ سمتھ ، ریحام خان اور اب معرفت کی پہچان صوفیہ بشری بی بی۔۔ عمران خان کی تیسری شادی انہیں مبارک ہو !بہرحال شادیوں کو چھپانے کا رواج اسلام میں نہیں ہے۔شریعت کے مطابق ’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ‘‘ کا حکم ہے ناکہ روحانیت کے نام پر کسی نامحرم خاتون خانہ کے ساتھ گوشہ نشینی اور خلوت میں تعلق استوار کرنے کو اسلام نے مباح قرار دیا ہے۔عمران خان نے آج سے تیس سال پہلے مرحوم مزاحیہ اداکار معین خان کے پروگرام میں کہا تھا کہ’’ میرا اﷲ پر مضبو ط یقین ہے اور میں کسی بابے وابے کو نہیں مانتا‘‘ جبکہ حالیہ ایک ٹی وی ٹاک شومیں موصوف کہتے ہیں کہ ’’ میں نے بشیر نامی شخص سے صوفی ازم کی تعلیم حاصل کی اور اس سے پہلے میں اﷲ میں یقین نہیں رکھتا تھا وغیرہ وغیرہ۔خان صاحب دین و اسلام کے معاملات میں نہ پڑھیں ، نمار روزہ کریں اور اپنی پیرنی کیساتھ خوشی خوشی زندگی گزاریں۔خود پر توکل کریں، اپنے ذاتی منشیوں اور مشیروں کی رائے اور بشری بی بی کی انگوٹھی اور تعویز سے زیادہ اپنی دل ودماغ سے کام لیں، نہیں تو کل خدانخواستہ بشری بی بی ہی سیاسی و معاشرتی بربادی کا سبب بن سکتی ہیں۔

امریکی ایما پر 5روزہ فنانشل ٹاسک ایکشن فورس کااجلاس منعقد ہوا جس کا مقصد پاکستان پر دہشت گردوں کی مالی امداد اور منی لانڈرنگ کا الزام لگا کراسے واچ لسٹ میں ڈالنا ہے۔بنیادی طور پر یہ تجویز امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے پیش کی گئی تھی ، تاہم بعد میں جرمنی اور فرانس نے بھی اس کی تائید کر دی۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس 35ممالک پر مشتمل تنظیم ہے جس میں اہم رکن ممالک اور معاشی طاقتیں شامل ہیں۔ اگر یہ تنظیم جون میں پاکستان کو دہشت گردی کی فنانسنگ سے متعلق واچ لسٹ میں ڈال دیتی ہے تو پاکستان کو اپنی معیشت کے حوالے سے نہ صرف بحران کا سامنا ہو گا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ساکھ متاثر ہونے کا خطرہ ہے،کیوں اس تنظیم میں شامل زیادہ تعدادان ممالک کی ہے جو پاکستان کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔واضح رہے کہ فنانشل ٹاسک فورس ایک عالمی ادارہ ہے جودہشت گردوں کی مالی امداد کی نگرانی کے لیے جی سیون (G7) ممالک کی منشا پر بنا ۔ اگر یہ ادارہ کسی ملک کو گرے کیٹگری میں ڈال دے تو بین الاقوامی سطح پر زرمبادلہ کی نقل وحرکت اور ترسیل میں انتہائی دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔Election Yearمیں انتہائی سنجیدہ ترین صورتحال میں پاکستانی حکومت اور بالخصوص وزارت خارجہ کا اندرونی موقف اور مستقل سفارتی پالیسی بڑی واضح ہونی چاہیے۔ بڑا اہم موڑ ہوگا کیوں کہ امریکہ افغانستان ، کشمیر اور کئی دوسرے محاذروں پر پاکستان کی طرف ــ’’جواب ندارو‘‘ اور ڈو مور کی جگہ ’’قربانیوں کا اعتراف کرو‘‘ جیسے بیانات سے امریکہ اکتا گیا ہے اور پاکستان کو سبق سیکھانے کی ٹھان چکا ہے۔ لیکن امریکہ نہیں جانتا کہ پاکستانی عوام کی بہادری اور عزم و استقامت کی مثالیں باقی دنیا میں دی جاتی ہیں ۔یہاں ہر بچہ ہر لمحہ و ہر لحظہ ، ہر آن اور ہر شان ملکی دفاع اور بقاء و سلامتی کے لیے اپنی سول و عسکری قیادت کے پیچھے چوکنا کھڑاہے۔

Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 99372 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.