ڈراموں کے معاشرے پر اثرات

انسان کو ہمیشہ سے ہی تفریح اور تفریحی مقامات کی ضرورت رہی ہے۔جب انسان اپنے معمولات زندگی سے اکتا جاتاہے تو تفریح کے حصول کی کوشش کرتا ہے جس سے اس کا ذہن تروتازہ ہوجاتا ہے۔موجودہ دور میں ٹیلی ویژن کو تفریح کا سب سیبہترین ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ڈرامیمعاشرے کی کہانیوں اور واقعات کو مختلف رنگوں میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں،یہ ڈرامے دیکھنے والوں کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔میڈیا پر نشر کیئے جانے والا مواد ایک جادوئی گولی کی حیثیت رکھتا ہے۔ان ڈراموں میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ ناظرین کے ذہن او احساسات پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔اس کی واضح مثال پاکستان ٹیلی ویژن پر90کی دہائی میں نشر ہونے والا ڈرامہ ہوائیں ہے۔اس ڈرامے میں نامور اداکار طلعت حسین کو پھانسی دی جاتی ہے،یہ منظر ٹیلی ویژن پر نشر ہونے کے بعد ایسے واقعات سامنے آئے کہ بچوں نے ڈرامے کے سین کی کاپی کرتے ہوئے اپنے ساتھی کا پھانسی لگا دی۔ہمارے معاشرے میں ہندوستانی فلمیں دیکھنے کا بھی خاصہ رجحان ہے،عام طور پر یہ فلمیں ایکشن اور جرائم کی کہانیوں پر مبنی ہوتی ہیں۔اس طرح کی فلمیں جب معاشرے میں عام ہوئیں تو گلی محلے میں بچوں نے پلاٹک کی بندوقیں اٹھا لیں۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انجانے میں بچوں نے ایک دوسرے کی آنکھیں پھوڑ دیں۔
موجودہ دور میں دش اور کیبل پر پاکستان کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے ڈرامے بھی پر نشر کیئے جاتے ہیں۔لیکن ایک دور وہ بھی تھا جب کیبل اور ڈش عام نہ تھے،کسی کسی گھر میں ڈش ہوا کرتا تھا باقی گھروں میں صرف پاکستان ٹیلی ویژ(پی ٹی وی) ہی دیکھا جاتا تھا،پی ٹی وی پر نشرہونے والے ڈراموں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے انکا سحر عوام پر طاری ہوتا تھا۔شوکت صدیقی کی تحریر خدا کی بستی،انور مقصود کا آنگن ٹیڑھا،امجد اسلام امجد کا وارث،حسینہ معین کے قلم کا شاہکاررتنہائیاں،اورعاشر عظیم کا لکھا ڈرامہ سیریل دھواں میڈیا انڈسٹری کے ایسے شاہکار تھے جنہیں پاکستان کے علاوہ دیگر مماملک میں بھی دیکھا گیا،ان ڈراموں نے شہرت کی جن بلندیوں کو چھوا اس کی مثال دوبارہ نہ ملی یہ ڈرامہ معاشرت مسائل اور معاشرے میں پیش آنے والے واقعات کے ترجمان تھے،ان ڈراموں میں کہیں بے حیائی کا عنصر نہیں دیکھا گیا نہ ہی ان ڈراموں نے نوجوان نسل کو بے راہ روی کی جانب گامزن کیا،لیکن پھر بھی ان ڈراموں،ان کے لکھاریوں،ہدایتکاروں اور اداکاورں نے بے حد شہرت حاصل کی۔

موجودہ دور کے ڈراموں کی بات کی جائے تو رومانوی داستانوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا،یا پھر شعور بیدار کرنے کے نام پر پاکستانی ثقافت اور اسلامی نظریات کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔گزشتہ دنوں نجی چینل پرایک ڈرامہ نشر ہوا۔اس ڈرامے کا مرکزی کردار ایک نوجوان لڑکی تھی جس کے شوہر کو جوا کھیلنے کی لت تھی۔موصوف کام کاج سے گریز کیا کرتے تھے۔گھر میں موجود اشیا کو فروخت کر کے جوا کھیلتا اگر جیت جاتا تو گھر میں کچھ نہ کچھ راشن آجاتا،اور اگر ہار جاتا تو فاقہ کشی سارے گھر کا مقدر بنتی۔مرکزی کردار کا شوہر ایک دن جوے میں اپنا سب کچھ ہار دیتا ہے۔جس کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چینل پر نشر ہونے والے ڈرامے میں جواری کو اس کے دوست پیسے کے حصول کیلئے ایک مشورہ دیتے ہیں۔اس مشورے کے تحت وہ شخص اپنی بیوی کا جنسی احتصال کروا کر رقم کماتا ہیاور اس سے گھر میں راشن آتا ہے،مرکزی کردار ادا کرنے والی اداکرہ ان حالات سے تنگ آکر گھر سے بھاگ جاتی ہے۔شاید ڈرامے کے ذریعہ یہ شعور بیدار کیا گیا کہ اگر آپ کے ساتھ آپ کا شوہر کچھ ایسا کرے تو گھر سے بھاگ جائیں۔ظاہر ہے ایک غیرت مند لڑکی کے پاس اس کے علاوہ اور چارہ بھی کیا ہوسکتا ہے۔

سعادت حسن منٹو کے خیال میں ہم عورت اسی عورت کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر میں رہتی ہے۔اس کے علاوہ باقی تمام خواتین کو ایک دکان سمجھا جاتا ہے،میرے خیال سے اس ڈرامے میں یہ احساس دلایا گیا ہے کہ شاید ہم اپنے گھر میں موجود عورت کو بھی عورت نہیں سمجھتے۔یقینی طور پر معاشرے میں ایسے ناسور موجود ہوں گے۔لیکن کیا اس طرح ان ناسوروں کی داستان پورے معاشرے کے سامنے پیش کرنے سے معاشرے سے ان کا خاتمہ ہوجائے گا؟نہیں ایسا بالکل نہیں ہوا ہوگا۔جب یہ ڈرامہ نشر ہورہا تھا ناجانے کتنی بیٹیاں اس وقت اپنے والد کے ساتھ ٹیلی ویژن اسکرین کو دیکھ رہی ہوں گی،ناجانے کتنے بیٹے اس وقت اپنی ماؤں کے ہمراہ ٹیلی ویژن دیکھ رہے ہوں گیکیا اثرات مرتب ہوئے ہوں گے ان پر؟خدا نا کرے اس ڈرامے میں نظر آنے والے سینز کے بھی وہی انتائج نہ نکلیں جو ماضی میں ڈرامہ سیریل ہوائیں کے نکلے تھے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اس ڈرامے کی بدولت ملک کی گلی گلی میں موجود جواریوں کو پیسہ کمانے کا گر معلوم ہوجائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ملک کی وہ بہنیں بیٹیاں جو فاقہ کشی کا عذاب جھیل رہی ہیں انہیں عزت سے بھی محروم ہونا پڑے۔

پیمرا کو اس معاملے میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ایسا ڈراموں،گانوں اور فلموں کو ٹی وی نشر ہونے سے روکنا ہوگا جن کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو سکیں۔ماس کمیونیکیشن کی تعلیم دینے والے اداروں کو خصوصی توجہ دے کر ایک بار پھر انور مقصود،وصی شاہ اور عاشر عظیم جیسے لکھنے والوں کو سامنے لانا ہوگا۔ہمیں ایسے ڈرامے تخلیق کرنا ہوں گے جو تفریح کے ساتھ ساتھ سبق آموز بھی ہوں،لکھنے والوں اور بنانے والوں کو بھی اپنے فرائض کو یاد رکھتے ہوئے ایسا مواد عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا جس سے معاشرے میں مثبت رجحانات پروان چڑھیں۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو آنے والی نسل اخلاقی پستی اور بے راہ روی کا شکار ہوتی رہے گی۔ایسی صورت میں آخر نئی نسل کی تباہی کا ذمیدار کون ہوگا؟

Shehryar Shoukat
About the Author: Shehryar Shoukat Read More Articles by Shehryar Shoukat: 19 Articles with 16618 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.