گوروں کے دیس میں - آخری قسط

گوروں کے دیس میں گزارے کچھ دنوں کا احوال

میں کھانے کی تلاش:KENDAL VILLAGE
وآپس آتے ہوئے راستے میں ایک خوبصورت گاوں آتا ہے۔آپ ٹرین سے اس اسٹیشن پر اُتر جائیں اور قدرتی خوبصورتی کو کچھ قریب سے انجوائے کریں۔یہ گاوں لیک ڈسٹرکٹ کا حصہ ہے۔لیک ڈسٹرکٹ اسٹیشن سے تقریبا ۲۰ منٹ کی مسافت پر ہے آپ پیدل بھی جا سکتے ہیں اور چاہیں تو ٹرین پے چلے جائیں۔اس وقت تقریبا دوپہر کے ۳ بج رہے تھے اور کافی دوڑ دھوپ کے بعد بھی کھانے کو کچھ نہ مل سکا۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہاں تقریبا ۲ بجے سے ۵ بجے تک تمام شاپس بند رہتی ہیں۔ بھوک بہت لگی تھی لیکن سوائے بسکٹس اور پانی کے کچھ میسر نہ آسکا۔

WINDSOR CASTLEویندسر قلعہ:
شام کے ۷ بج چکے تھے اور ایوسٹن اسٹیشن اپنی اُسی رنگینی اور رونق سے بھرا تھا جو صبح جاتے ہوے تھی۔ہوٹل پہنچا۔تھکاوٹ سے برا حال تھااس لئے جلد ہی سو گیا۔

اگلی صبح لندن کے مضافات میں واقع ونڈسرقلعہ جانے کا پروگرام بنا۔یہ لندن سے زیادہ دور نہیں اور آپ باآسانی ٹرین سے پہنچ سکتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی قلعہ ہے۔جو گیارویں صدی میں بنایا گیا۔یہاں پر بھی روائتی پریڈ دیکھنے کو ملتی ہے۔قلعہ ابھی بھی اُسی شان و شوکت اور پوری آب و تاب سے جگمگا رہا ہے۔آپ یہاں کچھ وقت گزار کر اس کے گردونواح میں موجودبازاروں کا رخ کر سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو شاپنگ بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن ایک بات ضرور یاد رکھیں کہ یہاں لذیذ فش اینڈ چپس ضرور کھائیں امید ہے آپ کو بہت پسند آئیں گے۔

لندن میں چھٹی کا دن:
لندن میں دیسی ہوں یا ولائتی اپنی چٹھی کا دن بھرپور انجوائے کر کے گزارتے ہیں۔ یہ جمعہ کی شام تھی اور میں عامر بھائی کے ساتھ اسٹیشن پر موجود تھا۔ہم دونوں میڈم کو لینے آئےہوئے تھے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ وہ صرف میری اُستاد نہیں تھی بلکہ بہت اچھی بہن بھی ہیں۔میری کامیابی میں اُن کے پڑھائے گئے اصولوں کا بہت اہم کردارہے۔ وہ لندن میں ہی رہائش پزیر تھیں لیکن وہ ایک دوسرے شہر میں اپنا انسٹیٹیوٹ بھی چلا رہی تھیں اس لئے چٹھی کے دن وہ لندن میں گزارتی اور باقی دن اپنے انسٹی ٹیوٹ میں۔کچھ دیر بعددور سے وہ آتی ہوئی نظر آئیں۔ہمیشہ کی طرح وہ ہی ہشاش بشاش شخصیت اور چہرے پر مسکراہٹ، میں سالوں بعد ان سے مل رہا تھا لیکن کچھ خاص تبدیلی محسوس نہ کر پایا۔وہ ہمیشہ سے ہی ایک پرکشش شخصیت کی مالک تھیں اور ابھی تک ہیں۔عمر کی چڑھتی سیٹرھیاں اور دن بدن ملتی کامیابی بھی اُن سے اُن کا اپنائیت بھرا انداز اور پرکشش شخصیت نہ چھین سکی۔ شائد اسکی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو دوسروں کے لئے راستوں سے کانٹے ہٹانے کا کام کرتے ہوں قدرت اُن پر خاص مہربان ہوتی ہے۔

دونوں بندوں نے میرے لئے ایک سرپرائز ویک اینڈ پلان کر رکھا تھا۔ یہ دو دن میرے لئے خوبصورت ترین دن تھے۔ ہم نے لندن کا کونا کونا گھوما۔ہر اس جگہ کی سیر کی جہاں شائد میں اکیلا نہ جا سکتا۔گرین وچ یونیورسٹی ہویا گرین وچ میریڈیان لائن یا پھر کیترائن ڈاک تک کشتی رانی کا پرلطف سفرہر جگہ یادگار تھی۔مشہور فش اینڈ چپس ہوں یا پھرآکسفورڈ اسٹریٹ کی سووینئر دوکانیں کوئی جگہ ہم نے چھوڑی نہیں۔

لندن سے روانگی:
لندن دنیا کے خوبصورت ترین دارلحکومت میں پہلے نمبر پرآتا ہےاوریہاں کی آب و ہوا اور کلچر میں ایسی کشش ہے جو آپ کو کچھ ہی وقت میں اپنے آپ میں جکڑ لیتی ہے۔ یہاں گزارے کچھ دن میری زندگی کے خوبصورت ترین دنوں میں سے تھے۔میرا وآپس جانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ اس کی شائد دو وجوہات تھیں۔ایک تو اس شہر کا خوبصورت اور متوازن رہن سہن اور دوسری دوستوں کی والہانہ محبت۔لیکن وآپسی تو امر تھی۔میری اگلی منزل پیرس تھی اور یہ سفر تیز اور پرآسائش ٹرین پر کرنا تھا۔ ابھی سامان پیک ہی کر رہا تھا کہ خاور صاحب کا فون آگیا۔خاور صاحب میرے بہت ہی عزیزڈاکڑعطاہ صاحب کے قریبی دوستوں میں سے ہیں ۔میرے آنے کی اطلاع انھیں پہلے ہی ہو چکی تھی۔بولے آپ ہوٹل سے چیک آوٹ کریں میں آپ کو لینے آرہا ہوں۔خاور صاحب بھی خوب زندہ دل انسان ہیں۔ لندن کی مصروف ترین زندگی میں بھی کسی کے لئے نہ صرف وقت نکالنا بلکہ خوب دل کھول کے زندگی کو انجوئے کرنا بھی ان کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے۔ ہوٹل کے کاونٹرپر میگنہ(ریسپشنسٹ)اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ موجود تھی۔یہ خاتون اٹلی سے تعلق رکھتی تھی اور روزگار کے سلسلے میں یہاں آئی ہوئی تھی۔ بلا کی خوبصورت ،ذہین اور خوش سخن اور خوش فہم تھی۔ میں نے اسے الوادعی سلام کیا اور بولا پھر ملیں گے۔وہ برجستہ بولی اور یہ پھر کب آئے گا۔ میں بس پلٹا اور اُسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آسکا۔اس کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی اور یہ مسکراہٹ مجھے مضطرب کرنے کے لئے کافی تھی۔

خاور صاحب میرا انتظار کر رہے تھے ہم ہوٹل سے نکلے تو تقریبا دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا۔ وہ بولے چلیں پہلے آپ کولنچ کراتے ہیں پھر آگے نکلیں گے۔ گرین اسٹریٹ لندن کی مشہور اسٹریٹس میں سے ایک ہے۔ یہاں انڈین اور پاکستانی کلچر اور کاروباری لوگ جا بجا ملیں گے۔آپ کو ایسا لگتا ہے آپ پاکستان یا انڈیا کے ہی کسی شہر میں آ گئے ہیں۔بس فرق اتنا ہے کہ ہمارے ہاں صفائی ستھرائی کا کچھ خاص انتظام نہیں ہوتا لیکن یہاں کچھ بھی گندا آپ کو ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔شیشے کی طرح چمکتی سٹرکیں،صاف ستھری فٹ پاتھ ایک خوبصورت اور دل کو موہ لینے والا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں۔ گاڑی ایک پارکنگ میں کھڑی کرنے کے بعدپیدل چلتے ہوئے ہوٹل تک پہنچے۔آرڈر آن لائن ہی دے دیا گیا تھا کیونکہ بقول ہوٹل مالک ہم سب کچھ فریش تیار کرتے ہیں اس لئے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔کھانا آیا تو واقع اس کی خوشبو اور ذائقہ بتا رہا تھا کہ سب کچھ فریش ہے۔کھان بہت لذیذ تھا اور لندن میں پہلی باراتنا لذیذ کھانا کھا رہا تھا۔یہ ایک افغانی ہوٹل تھا۔مٹن کڑاھی،کابلی پلاو، کباب ،دال ، سلاد اور ہینگر پے لگی بڑی ساری روٹی سب کچھ بہت ہی سلیقے سے سجا ہوا تھا۔ خاور صاحب نے بتا یا کہ وہ اکثر یہاں سے ہی کھانا کھاتے ہیں اس لئے ہوٹل مالک خصوصی محبت سے پیش آرہا تھا۔

کھانے کے بعد وقت کم تھا اور مجھے اسٹیشن پہنچنا تھا اس لئے سیدھا اپنی منزل کی طرف گامزن تھے۔ میں سو چ رہا تھا انسان بھی کیا چیز ہے کتنی جلدی کسی بھی نئی جگہ سے مانوس ہو جاتا ہے اور پھر جب اس جگہ کو اور وہا ں کے لوگوں کو چھوڑنا پڑتا ہے تو کتنا مشکل ہوتا ہے۔میرا روانگی کا وقت قریب تھا اور مجھے وہ سب دوست یا د آرہے تھےجن سے میں سالوں بعد ملا اور اُنھوں نے مجھے اتنی محبت دی اور اتنا خیال رکھا کہ مجھے پردیس میں بھی دیس کی خوشبو محسوس ہورہی تھی۔

میں ایک سیاح ہوں گھومنا پھرنا ،وہا ں کی زندگی اور رہن سہن کا مشاہدہ کرنا اور اگلی منزل کی جانب نکل جانا ہی میرا کام ہے۔میں اپنی اگلی منزل پیرس کی جانب گامزن تھا جہاں ایک اور بہت ہی شفیق دوست عدنان صاحب میر ا انتظار کر رہے تھے۔اُن کے پاس ایک رات رکنے کے بعد میری اگلی منزل وینس اٹلی (کشتیوں کا شہر)تھی۔میری آنے والی تحریر میں پیرس کے شب و روز اور وینس کے پانیوں کا ذکر بھی آئے گا۔

مزید اچھی پوسٹوں کے لئے ہمارا فیس بک پیج وزٹ کیجیئے۔

Shakeel Ahmed
About the Author: Shakeel Ahmed Read More Articles by Shakeel Ahmed: 11 Articles with 16251 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.