اسمارٹ فون اور ہم

اسمارٹ فون عہدِ حاضر کی جدید ترین ایجاد ہے جس کے سحر میں ہر چھوٹا بڑا گرفتار ہے۔اس میں معلوماتِ عامہ اورتفریح کی ایک دنیا آباد ہے۔ اس لئے گھر دفتر، بازار، ہسپتال یہاں تک کہ دورانِ سفر بھی لوگ فارغ وقت میں اسمارٹ فون میں ہی مشغول دکھائی دیتے ہیں۔

اسمارٹ فون سماجی رابطے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اس کی بدولت بیک وقت آڈیو کال، ویڈیو کال ، ایس ایم ایس ، ای میل اور دیگر بہت ساری مواصلاتی رابطے کی سہولیات ہماری دسترس میں ہوتی ہیں۔ساتھ ہی انٹر نیٹ کی دستیابی کے باعث مختلف اشیاء کی قیمتوں کے تعین اور خرید و فروخت میں آسانی رہتی ہے۔فارغ اوقات میں اسمارٹ فون کے ذریعہ مختلف تفریحی سرگرمیوں میں مشغول ہوا جاسکتا ہے۔دورانِ سفر اس کے ذریعہ راستوں کے تعین اور منزل تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔رقوم کی منتقلی، یوٹیلیٹی بلوں اور فیسوں کی ادائیگی اسمارٹ فون کے ذریعے بسہولت کی جاسکتی ہے۔دفاتر میں اسمارٹ فون کے ذریعہ اہم امور کی انجام دہی میں مدد ملتی ہے۔

اسمارٹ فون کے یہ سب فائدے اپنی جگہ مسلّم ہیں مگر ساتھ ہی اس کے بعض نقصانات بھی ہماری زندگیوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اسمارٹ فون کے کثرتِ استعمال سے بینائی کی کمزوری کی شکایت عام ہورہی ہے۔ اس میں حد سے زیادہ مشغولی گردوپیش سے غافل کردیتی ہے اور رفتہ رفتہ انسان سماجی طور پرتنہائی کا شکار ہوجاتا ہے۔دورانِ سفر اسمارٹ فون کا استعمال بسا اوقات حادثوں کا باعث بنتا ہے ۔ انٹر نیٹ پر موجودنامناسب اور غیر اخلاقی مواد کی وجہ سے اخلاقی اور معاشرتی بگاڑ کی شکایتیں روزمرہ کا معمول بنتی جارہی ہیں ۔اسمارٹ فون کی چوری اور لوٹ مار کے واقعات بھی عام ہیں جن میں مالی نقصان کے ساتھ ساتھ انسانی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔دورانِ طالبعلمی اسمارٹ فون میں مشغولیت طلبہ کو اپنی ترجیحات اور ضروریات سے غافل کردیتی ہے جو ان کے مستقبل کے اعتبار سے نہایت نقصان دہ ہے۔
اگر ہم شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں اس مسئلہ کا جائزہ لیں تو ہمیں درست لائحہ عمل طے کرنے میں بہت آسانی ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے ۔ قرآن و حدیث میں قیامت تک آنے والے ہر واقعہ یا ہر چیز کا تذکرہ نام لے کر نہیں کیا گیا لیکن انسانی زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق ایسی جامع ہدایات کردی گئی ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم دین و دنیا کی فلاح سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ ایک حدیثِ مبارکہ میں نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی منقول ہے کہ انسان کے اسلام کی خوبی کی ایک علامت یہ ہے کہ آدمی لایعنی باتوں کو ترک کردے(ترمذی)۔اس حدیث کی شرح میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ انسان جتنے کام یا کلام کرتا ہے انہیں تین قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1۔وہ کام جو دین یا دنیا کے اعتبار سے فائدہ مند اور ضروری ہیں ، انہیں ضرور انجام دینا چاہیے مگر شرط یہ ہے کہ جو امور دنیا میں نافع ہیں شریعت میں ان کا جواز ہونا چاہیے۔
2۔ وہ کام جو دنیا یا آخرت کے لحاظ سے نقصان دہ ہیں ان کا ترک کرنا ضروری ہے۔
3۔ وہ امور جن میں نہ دین و دنیاکا کوئی نفع ہے اور نہ ترک کرنے میں ان دونوں کا کوئی نقصان ہے، یہی امور لایعنی کہلاتے ہیں ۔ حدیثِ پاک میں اسی قسم کے افعال کو چھوڑنے کی تاکید کی گئی ہے۔ذرا غور سے کام لیں تو لایعنی کام یا کلام بھی مضر امور میں داخل ہیں کیونکہ وہ وقت جو ایسے کام یا کلام میں استعمال کیا گیااسے کسی مفید کام میں صرف کیا جاتا تو دین یا دنیا کے فائدہ کا سبب بنتا یا گناہوں کے کفارہ اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ثابت ہوتا۔مثلاََ اگر اس وقت میں ایک بار سبحان اﷲ کہہ لیا جاتا تو میزانِ عمل کا آدھا پلہ بھر جاتا۔ایک حدیثِ پاک میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کہیں بیٹھا اور اس نشست میں اس نے اﷲ کو یاد نہیں کیا تو یہ نشست اس کے لئے بڑی حسرت اور خسران کا باعث ہوگی اور اسی طرح جو شخص کہیں لیٹا اور اس میں اس نے اﷲ کو یاد نہیں کیا تو یہ لیٹنا اس کے لئے بڑی حسرت اور خسران کا باعث ہوگا(سنن ابوداؤد)۔

مذکورہ بالا احکامِ شریعت کی روشنی میں اسمارٹ فون کے فوائد اور نقصانات کومدنظر رکھتے ہوئے اس کے بے جا استعمال سے پرہیز کیا جائے اور صرف کارآمد امور میں اسمارٹ فون کو استعمال کیا جائے۔ اس میں بیکار وقت ضائع کرنے سے گریز کیا جائے۔ خصوصاََ کم عمری میں اسمارٹ فون کا استعمال بچوں اور طالبعلموں کے لئے اکثر مضر ثابت ہوتا ہے۔

Muhammad Faisal
About the Author: Muhammad Faisal Read More Articles by Muhammad Faisal: 27 Articles with 21281 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.