دریاؤں کی پیاس

کالم کا عنوان پڑھ کر آپ بھی سوچ رہے ہوں گے ، کیا دریاؤں کی بھی پیاس ہوتی ہے؟ دریا جو ہماری بنجر زمینوں کو سیراب کرتے ہیں،بشر کی پیاس بجھاتے ہیں۔ کیا وہ خودبھی پیاسے رہتے ہیں؟ جی ہاں دریاؤں کی اپنی بھی پیاس ہوتی ہے ،جب ان کا پانی جبراً روک لیا جائے۔تب دریا پیاسے رہ جاتے ہیں اور انسانی زندگی پیاسی مر جاتی ہے۔پاکستانی دریا پاکستان کے قیام سے ہی بھارتی جارحیت کا شکار ہیں۔جس پر آواز اٹھانے کی کوئی ہمت نہیں کرتا۔ اگر کبھی کسی نے جرات کی تو سال میں ایک آدھ بار کوئی کالم لکھ ڈالا یا کوئی سیمینار ہو گیا ۔ مستقل آواز کوئی نہیں اٹھا رہا تھا۔ ہمارے دریا سیاسی ، جمہوری اورسفارتی سیاست کی نذر ہو کر بنجر ہوتے جا رہے ہیں۔ تاہم اب اس پر صور پھونکنے کا وقت آ چکا ہے کہ اٹھو ، اس سے پہلے پیاس سے مرنے والوں کے لاشے اٹھانے پڑ جائیں۔

کسی ایک کو تو دریاؤں کی آواز بنناتھا ،اس لیے روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ،سینئرصحافی اورکالم نگارضیاء شاہد صاحب نے پاکستان کے پانیوں کے خلاف جاری بھارتی دہشت گردی کے خلاف قلمی جنگ شروع کی ہے ۔ اس مقصد کے لیے مختلف سیمینارمنعقد کئے جارہے ہیں ،کالم اور کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ ضیاء شاہد صاحب کے علاوہ خبریں کے قافلے میں شامل کالم نگار بھی اس جنگ میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ضیاء شاہد صاحب کی کتاب، ’’ستلج، راوی اور بیاس کا پانی بند کیوں؟ کے حوالے سے ایک تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیا ، جس میں راقم بھی شریک تھی۔ تقریب میں سینئرکالم نگاروں کے ساتھ ساتھ آبی انجینئرسے لیکر سندھ طاس معاہدے کے سابق انچارج تک شامل تھے۔ کتاب میں ملکی پانیوں کے خلاف سازشوں کو بہت واضح الفاظ میں کھل کر بیان کیا گیاہے۔ سیاسی ، بیورہ کریسی اور دیگر وجوہات کو نہایت ہی عمدگی اور بغیر کسی منافقت سے احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے۔ کتاب میں مختلف مکتبہ ہائے فکر افراد کی تحریریں، مباحثے، انٹرویو ،کالمز اور آرٹیکلز کو شامل کیا گیا ہے ۔ یوں ہم اس کتاب کو پاکستان کے خلاف جاری بھارتی آبی جارحیت میں ایک دستاویز کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں ۔ اس میں سمجھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔

پانی زندگی ہے ۔زندگی کی بقاء پانی سے ہے۔ملکی آبادی میں دو اعشاریہ چالیس فیصد سالانہ کی شرح نمو کے حساب سے ستاون فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آبادی میں اضافے کی مجموعی شرح گر گئی ہے جو یہاں پر بہبود آبادی یا خاندانی منصوبہ بندی کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری کاوشوں اور عوام کے مجموعی شعور کا آئینہ دار ہے۔

پنجاب میں آبادی کی دو اعشاریہ تیرہ فیصد کی سالانہ شرح نمو رہی ہے جہاں شہری آبادی کا تناسب چھتیس اعشاریہ اکہتر فیصد ہے۔ پنجاب اب بھی گیارہ کروڑ سے زیادہ آبادی کے ساتھ آبادی میں ملک کا سب سے بڑے صوبہ ہے۔

سندھ چار کروڑ اٹھہتر لاکھ سے زیادہ آبادی کے ساتھ ملک کا دوسرا بڑا صوبہ ہے جہاں سالانہ شرح دو اعشاریہ اکتالیس فیصد رہی جس میں باون فیصد سے زیادہ لوگ شہروں میں رہتے ہیں جو ملک کی کسی بھی انتظامی اکائی یا کسی اور صوبے سے زیادہ شہری آبادی ہے۔ خیبر پختونخواہ تین کروڑ باسٹھ لاکھ سے زیادہ لوگوں کا صوبہ جہاں سالانہ شرح اضافہ دو اعشاریہ انانوے فیصد رہاہے جس میں سے اٹھارہ اعشاریہ ستہتر فیصد لوگ شہروں میں رہتے ہیں۔

بلوچستان کی کل آبادی ایک کروڑ تیئس لاکھ چوالیس ہزار سے زیادہ ہے جہاں سالانہ شرح اضافہ تین اعشاریہ سینتیس فیصد رہا اور شہری آبادی کا تناسب ستائیس اعشاریہ پچپن فیصد ہے۔ فاٹا یا قبائلی علاقوں کی کل آبادی بھی پچاس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جس کی سالانہ افزائش دو اعشاریہ اکتالیس فیصد رہی جہاں صرف تقریباً تین فیصد لوگ شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد چار اعشاریہ اکیانوے فیصد کی سالانہ شرح نمو اوربیس لاکھ چھ ہزار سے زیادہ کی آبادی کیساتھ ملک بھر میں سب سے آگے رہا جہاں نصف سے زیادہ آبادی شہر میں رہتی ہے۔

صد افسوس پاکستان کی 84 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے ۔ چھ کروڑ افراد زہر آلود پانی پینے پر مجبور ہیں اورآلودہ پانی سے پیداہونے والی بیماریوں کا شکار ہو کر مر رہے ہیں۔ وہ بھی ایک دم نہیں بلکہ لمحہ لمحہ سسک سسک کر۔

ہمارے دریاؤں کے کنار ے آباد تہذیبیں دم توڑ چکی ہیں اور ایک کلچر کی موت واقع ہو چکی ہے۔جس کی طرف کسی کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ آبادی میں اضافے کے مسائل کے ساتھ ساتھ وسائل کا کم ہونا ہی ہماری پالیسوں کے غیر موئثر ہونے کی علامت ہے۔پانی کا مسئلہ جس شد ت سے سر اٹھا رہا ہے اس کی طرف اتنی ہی کم توجہ دی جا رہی ہے۔پاکستان میں پانی کی کمی سے صرف انسانی زندگی اور ماحول ہی خطرے میں نہیں بلکہ آبی حیات اور ماحول کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔پاکستان میں صاف پانی کا ضیائع بھی عام سی بات ہے۔ آگہی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ حکومت کو چاہیے کہ پانی کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر چھوٹی جماعتوں سے ہی اس سے متعلقہ مضامین کو نصاب کا حصہ بنایا جائے ۔ بچپن میں دیا ہوا شعور بڑی عمرکی منزلیں بھی آسان کرتا ہے۔ پاکستان کو سیراب کرنا ہے تو پانی کے لیے ہر فورم ، ملکی اور عالمی سطح تک اپنی آواز پہنچانی ہے۔مگر صد افسوس کہ ملک میں چھائے کرپشن اور بد عنوانی کے بادلوں نے آبی آگہی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ ہم بھول رہے ہیں کہ بے ایمانی اور کرپشن کے ساتھ پاکستان مستحکم ہونے والا نہیں۔

بھارت نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے جو میدان چنا ہے اس پر بہت کم لوگوں کی نظر ہے۔ بھارت کا سب سے بڑا ہدف سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے دریاؤں پر قبضہ کرنا ہے جس کے لئے وہ امریکہ و نیٹو ممالک کی آشیر باد سے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاؤں پر ڈیم پر ڈیم بنائے جا رہا ہے۔ ان ڈیموں کی تعمیر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بھارت پاکستانی دریاؤں کا پانی روک کر ان میں ذخیرہ کرتا ہے اور جب پاکستان کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو پانی روک لیتا ہے جبکہ بارشوں کے موسم میں پانی چھوڑ کر پاکستان کو ڈبو دیتا ہے اور بھارت یہ عمل گزشتہ کئی برس سے مسلسل کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت سرکاری سطح پر اس بات سے انکاری ہے کہ وہ دریاؤں میں سیلاب کے لئے پانی چھوڑتا ہے لیکن اب عالمی معاملات پر نظر رکھنے والے متعدد تھنک ٹینکس جو ایٹمی سیاست یا ممکنہ ایٹمی جنگوں کے امکانات پر ریسرچ کر رہے ہیں انہوں نے بھی پاک بھارت آبی تنازعات کو ممکنہ ایٹمی جنگ کی وجہ قرار دے دیا ہے۔ 8 دسمبر 2010ء کو انڈین ڈیفنس ریویو میں بھارتی فوج کے کرنل اجے سنگھ نے اپنے مضمون The Deluge: will Pakistan submerge or survive عظیم سیلاب کیا پاکستان ڈوب یا بچ جائے گا۔بھارت یہ کام کرتا رہا اسی لیے گذشتہ طویل عرصے سے ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی میں پانی کا مسئلہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے ۔ انڈیا نے ہماری غفلت سے بھرپور فائدہ اٹھا یا۔ دوسری جانب ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف رہے ، ادھر انڈیا آبی دہشت گردی میں مصروف رہا۔پاکستان کے خلاف جاری بھارتی آبی جارحیت کے حوالے سے پوری قوم میں شعور پیدا کرنے کے لیے میڈیا اپنا کردار ادا کرے۔ تعلیمی ادارے سامنے آئیں۔ تمام با شعور طبقے آواز اٹھائیں ۔تاکہ ہماری آواز ایوان اقتدار تک پہنچے ،ورنہ ہمارے دریاؤں کے ساتھ ساتھ ہم بھی بنجر ہوتے چلے جائیں گے۔صحرائے تھر ہمارے سامنے ہے، باقی پاکستان کو بھی تھر بننے سے بچانے کے لیے آئیں ہم سب مل کر آواز اٹھائیں،ستلج، راوی کی آواز بنیں۔

Maleeha Hashmi
About the Author: Maleeha Hashmi Read More Articles by Maleeha Hashmi: 11 Articles with 11128 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.