اہل صنعاء

یمن کے شہر صنعاء سے خبر ملتی ہے کہ ایک نوجوان کو قتل کر دیا گیا ہے اور اس کے قاتل ابھی تک کیفرکردار تک نہیں پہنچے ۔ امیر المومنین حضرت عمر کا دور حکومت تھا ۔ کچھ دن بعد مقتول کے ورثا حاضر خدمت ہو کر انصاف کی استدعا کرتے ہیں ۔ امیر المومنین خط لکھواتے ہیں کہ اگلے اتنے دن تک مجھے قصاص کی خبر مل جانی چاہیے۔۔۔ مقررہ دن گزر جاتے ہیں اور ایلچی یمن کے گورنر کا خط لیکر آتا ہے۔ خط میں لکھا ہے کہ قاتل اکیلا نہیں بلکہ ایک با اثر خاندان کا بھی اس قتل میں ملوث ہے اور اگر انکے خلاف کاروائی کی گئی تو اہل یمن بگڑ جائیں گے اور سیاسی انتشار پھیلنے کا خطرہ ہے۔ امیر المومنین کی طرف سے جواب لکھوایا جاتا ہے کہ ( اگر اس ناحق قتل میں سارا شہر بھی ملوث پایا گیا تو میں تمام اہل صنعاء کو قتل کروا دوں گا) ( موطا امام مالک) پھر چشم فلک نے دیکھا کہ صنعاء کی جامع مسجد کے سامنے اس نوجوان کے قتل میں سات افراد کو قتل کیا گیا جنہوں نے اس نوجوان کو فریب سے قتل کیا تھا۔۔۔۔۔۔
اﷲ نے قران میں فرمایا ہے ( عقلمندو ! قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے اس کے باعث تم قتل ناحق سے روکو گے) سورۃ البقرہ۔ آیت179

پاکستان میں اب تک نہ جانے زینب جیسی کتنی ہی بیٹیاں زیادتی کے بعد قتل کی گئی اور نقیب اﷲ محسود جیسے نوجوان ناحق قتل کیے گئے اور انکی لاشیں کوڑے کے ڈھیر سے ملتی ہیں اور نہ جانے کتنے ہی لوگ اپنی روح پر زخم لگا کر ایسے راز ہمیشہ کے لیے سینوں میں دفن کر دیتے ہیں ان واقعات سے آپکو ہمارے معاشرے کی اک بھیانک تصویر نظر آئے گی ان ناحق مقتولین کے مجرم کبھی پکڑے ہی نہیں گئے اگر کبھی پکڑے بھی گئے تو با اثر افراد سے وہ کبی بھی کیفرکردار تک نہ پہنچ سکے۔

جانوروں اور انسانوں میں ایک فرق قانون کا ہے جسکی وجہ سے انسانی معاشرے کو بقا اورامن ملتا ہے اگر آپ اس فرق کو بیچ میں سے نکال دیں تو وہ حیوانوں کا معاشرہ بن جاتا ہے انسان نے آج سے ہزاروں سال پہلے جب کبھی انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف سفر شروع کیا تو سب سے پہلے معاشرے کے لیے قوانین کی بنیاد رکھی اسی لیے آپ کو اولین فلاسفروں سقراط، افلاطون، ارسطو کے فلسفہ میں قانون اور عدل و انصاف کے زمرے میں سب سے زیادہ بحث ملے گی کیونکہ اس کے بغیر معاشرے کی بقاء نا ممکن ہے۔

یاد رکھیے ! کسی بھی پر امن معاشرے کی بنیاد چار عوامل پر ہوتی ہے ۔ سب سے پہلا قانون ہے اس دنیا کو تخلیق کرنے والے خدا نے بھی اس کے لیے قانون بنائے ہیں انسانوں کے اس بے ہنگم معاشرے کو چلانے کے لیے قانون ہو اور پھر اس قانون کو نافذ العمل بھی کیا جائے دوسرا عدل و انصاف ہے اگر عدل و انصاف نہ ہو تو قانون بھی اپنا مقام کھو دیتا ہے آپ اسلامی سزاؤں کو قانون کا درجہ دے کر فافذ العمل کر دیتے ہیں مگر عدل و انصاف کا پہلو خالی ہے تو اس قانون کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو گا ۔تیسرا عوام کے بنیادی حقوق ہیں جنکا تحفظ ہر حال میں ریاست کی ذمہ ہو عوام کی روٹی، کپڑا،مکان،صحت، تعلیم اور تمام بنیادی ضروریات کی ذمہ داری ریاست پوری کرے اس سے عوام میں جرم کرنے کا روجحان کم ہو گا کیونکہ انسان اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہر قانون کو توڑ دیتا ہے چوتھا اہم کام سرمایہ دارانہ نظام کا قلع قمع ہے امراء سے انکی دولت کا مقررہ حصہ لیکر ریاست کے غریب عوام کی بہبود کے لیے خرچ کیا جا سکے اور پیسہ کبھی بھی چند ہاتھوں یا چند خاندانوں تک محدود نہ ہو سکے

ان چار عوامل کی تکمیل کر کرے ہم ایک اچھے معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں اگر آپ اسلامی معاشرے کا بغور جائزہ لیں تو آپکو یہ چار بنیادی چیزیں ہر خلیفہ راشد کے زمانے میں ملیں گئیں پھر جیسے جیسے بادشاہت اور سرمایہ داری کو فروغ ملتا گیا قانون کی پکڑ ڈھیلی ہوتی گئی اور عدل و انصاف کا جنازہ نکلتا گیا۔ جرم کی سزا کا خوف ہی انسان کو جرم سے دور رکھتا ہے اگر آپ معاشرے میں ان عوامل کو نافذ العمل کر دیں یقین کیجئے جرم ختم ہوتا جائے گا آپ ان ممالک کا مطالعہ کریں جہاں یہ چار عوامل کو پورا کہا جاتا ہے تو وہاں جرم نہ ہونے کے برابر ہے۔

اﷲ نے فرمایا قصاص میں زندگی ہے جب تک قصاص کا قانون ہر اعتبار سے پورا نہیں کیا جاتا زینب اور نقیب اﷲ محسود کی لاشیں ملتی رہیں گی دیکھنا صرف یہ ہے کہ ہمارے حکمران کب تک ان لاشوں کو اٹھاتے رہیں گے ؟

Rana Khuram Javed
About the Author: Rana Khuram Javed Read More Articles by Rana Khuram Javed: 4 Articles with 3537 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.