ذرا ایرانی عینک اتار کر!

پاکستان کے سرکاری و غیرسرکاری اداروں میں سعودی عرب کا کس قدر اثرو رسوخ ہے اس کو سمجھنے کے لئے جیسا کہ ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں ہمیں سب سے پہلے ایرانی تعصب کی عینک اتارنی ہوگی اور پاکستانی حالات کو بحیثیت پاکستانی ہی دیکھنا ہوگا

سچائی کڑوی ہوتی ہے، کڑوا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ سچ بولنا ہی چھوڑ دیا جائے، سچ بولنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارا دانشمند طبقہ ہر طرح کی عینک اتار کر حالات کا جائزہ لے۔

آئیے کچھ دیر کے لئے ایرانی عینک کو اتار کر پاکستان کے حالات حاضرہ کا جائزہ لیتے ہیں،سعودی عرب اور پاکستان کے دیرینہ تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ، ابھی انہی دنوں یہ خبر منظرِ عام پر آئی ہے کہ گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے پاکستان میں سعودی سفیر نواف سعید المالکی نے ملاقات کی اور پھر یہ خبر بھی گردش کرنے لگی کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان جاری دفاعی تعاون کے سلسلے میں پاکستان کی طرف سے تربیتی اور مشاورتی مشن پر پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چند روز قبل سعودی عرب کا اچانک دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی۔ لیکن، پاکستان میں سرکاری سطح پر اس خبر کے حوالے سے تصدیق نہیں کی گئی تھی۔ البتہ، مختلف خلیجی اخبارات نے اس ملاقات کے حوالے سے خبریں شائع کی تھیں۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے ہی سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اس وقت سعودی سربراہی میں بننے والے اسلامی اتحادی فوج کی سربراہی کر رہے ہیں۔

پاکستان اور سعودی عرب کے فوجی تعلقات کس سطح کے ہیں اور ان کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں یہ سوچنا اور اس کا جائزہ لینا بحیثیت پاکستانی ہم سب کا قانونی حق ہے۔

مجموعی طور پر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب تک کسی قوم کی صفوں میں غدار موجود نہ ہوں تب تک اُس قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔

پاکستان کے سرکاری و غیرسرکاری اداروں میں سعودی عرب کا کس قدر اثرو رسوخ ہے اس کو سمجھنے کے لئے جیسا کہ ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں ہمیں سب سے پہلے ایرانی تعصب کی عینک اتارنی ہوگی اور پاکستانی حالات کو بحیثیت پاکستانی ہی دیکھنا ہوگا۔

سعودی عرب کے ساتھ صرف ہمارے فوجی ہی نہیں بلکہ دینی تعلقات بھی ہیں، لہذا ہمارے دینی مدارس میں
سے بھی دینی طلبا کی ایک بڑی تعداد تربیت لینے سعودی عرب جاتی ہے اور شیخ الحدیث، حفاظ قرآن اور اس کے علاوہ پتہ نہیں کیا کیا بن کر واپس پلٹتی ہے۔

پاک سعودی عرب کے فوجی تعلقات کی طرف بڑھنے سے پہلے پاک سعودی عرب کے دینی تعلقات کو بھی سامنے رکھئے۔ پاکستان میں جتنے بھی سعودی عرب کی سرپرستی میں چلنے والے دینی مدارس ہیں ، آپ ان سب کا سروے کر کے دیکھ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اُن میں پڑھنے والے ایک فیصد طالب علم بھی پاکستان کو اسلامی ریاست نہیں سمجھتے اور قائداعظم کو قائداعظم نہیں سمجھتے۔ یہ ان کی نظریاتی اساس اور بنیادی عقیدہ ہے ، اس کو اپنی جگہ رہنے دیں اور پاکستان میں تکفیرو قتل و غارت کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں ، اپنے علاوہ دیگر مسلمانوں کو کافر سمجھ کر قتل کرنے اور خود کش دھماکے کرنے والوں کا تمام تر تعلق سعودی عرب نواز دینی مدارس سے ہے، اس مسئلے کو بھی اپنی جگہ رہنے دیں اور طالبان و القاعدہ و سپاہِ صحابہ و داعش ا ور لشکر جھنگوی کی بنیادیں ڈالنے والے ٹولوں کے تمام بانی آپ کو سعودی عرب کے ہم فکر و ہم مذہب دینی مدارس کے تعلیم یافتہ و تربیت یافتہ ملیں گے۔

اس نکتے کو بھی چھوڑ دیں اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کا جائزہ لے لیں۔

اگر سعودی عرب سے ہمارے دینی تعلقات ہیں تو یاد رکھئے تاریخِ ہندوستان کے بدترین اسلام دشمن وزیر اعظم مسٹر مودی کو سعودی عرب نے سعودی عرب کے سب سے بڑے اعزاز یعنی شاہ عبدالعزیز ایوارڈ سے نوازا ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ اس سے ہمارے کشمیری بھائیوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور ان کے دینی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ریاض کانفرنس میں جس طرح مسٹر ٹرمپ کا استقبال کیا گیا اور اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کا جو یارانہ چل رہا ہے اس سے فلسطینیوں پر کیا گزرتی ہے ، کبھی اس بارے میں بھی سوچئے گا۔

اب آئیے تھوڑی دیر کے لئے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب کے پاکستان آرمی کے ساتھ تعلقات کا جو ثمر پاکستان آرمی کو ملا وہ کیا ہے!؟

پاک آرمی کوناپاک آرمی کہنے والے، پاک فوج کو ناپاک فوج کہنے والے، قائد اعظم کو آج بھی کافر اعظم کہنے والے، پاک فوج کے جوانوں کے گلے کاٹنے والے ، پاک فوج اور پولیس کے مراکز پر حملے کرنے والے ، یہ سارے دہشت گرد اور خونخوار ٹولے سعودی عرب کے نظریاتی و مذہبی پیروکار اور انہی کے دینی مدارس کے تربیت یافتہ ہیں۔

فوج اور پولیس کے اہم مراکز پر حملے کرنا، فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا اور آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں پر شب خون مارنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے اداروں کے اندر پہلے سے ہی سعودی سہولتکار موجود ہیں۔

عوامی و فوجی سطح پر اتنا نقصان اٹھانے کے باوجود مزید فوجی دستوں کا سعودی عرب بھیجے جانا ہر پاکستانی کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے بھی یا نہیں!!!؟؟؟

پاک سعودی عرب تعلقات کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہمارے لوگ وہاں جا کرکسی کی تربیت کرتے نہیں ہیں بلکہ ہمارے لوگوں کو وہاں بلا کر ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے اور ان کی مخصوص مذہبی تربیت کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں دہشت گردٹولے بنتے ہیں اور دہشت گرد تنظیمیں کاروائیاں کرتی ہیں۔

کسی بھی ملک میں اسی وقت دہشت گرد کامیاب ہوتے ہیں جب اس ملک کی سرکاری پوسٹوں پر دہشت گردوں کے سرپرست بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔

اس وقت ملک و عوام کو دہشت گردوں کی جانب سے لاحق خطرات کو دیکھتے ہوئے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے صرف مالی فوائد کی خاطر فوجی دستوں کو سعودی عرب بھیجنا کسی طور بھی ملک کے حق میں مفید نہیں۔

یہ ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ ہمارے کالم کو ایرانی عینک اتار کر پڑھا جائے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ آخر پاکستان کی ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ دہشت گردوں کے ہاتھوں آرمی پبلک سکول کے ننھے بچوں کی لاشیں اٹھانے کے باوجود اپنے فوجی دستے سعودی عرب بھیجنے پر مجبور ہے۔

ہم مانتے ہیں کہ سچائی کڑوی ہوتی ہے لیکن کڑوا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ سچ بولنا ہی چھوڑ دیا جائے۔

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 64244 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.