شہنشاہ ہند مرزاظہیر الدین بابر

شہنشاہ ہند مرزاظہیر الدین بابر کا 535 واں یوم پیدائش انتہائی جوش و خروش سے منایا گیا، مغل تنظیموں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اہتمام کیا۔جد امجد کا یوم پیدائش پرمسرت لمحوں ،مسکراہٹوں اور محبتوں کی تقسیم کا دن تھا۔اس روز دنیا کے کونے کونے میں پھول تقسیم ہوئے۔کہیں یہ پھول فروخت سے روکے گئے کہیں یہ پھول ہاتھوں ہاتھ بکے ۔۔ہم سب نے دنیا کے خوبصورت شہزادے،بہادری کی لازوال داستان،ماں کی تابعداری میں لافانی کردار،قدرتی مناظر کا دلدادا،فطرت کے قریب تر،جنگجو بھی،محبت کا پیامبر بھی،احترام انسانیت کا پیروکار بھی۔۔جس مٹی سے محبت اسی مٹی میں تدفین۔۔۔۔ہم سب کے ہیرو ،مغلیہ سلطنت کے بانی،مسلمان ریاست کے بانی دنیا کو باغوں ،بہتی ندیوں اور چشموں کی پر امن سرزمین کا خواب دیکھنے والے ظہیر الدین بابر کا تعلق تیمور لنگ خاندان سے تھا۔ وہ بابر کے لقب سے جانا جاتا تھا، جس کا مطلب ’’شیر‘‘ ہے ۔ سینٹرل ایشیاء میں ایک خطے کی شہنشایت اسی کے خاندان کے پاس تھی۔ اِن کے والد عمر شیخ مرزا نے موجودہ’’ازبکستان‘‘ پر بھی حکومت کی تھی۔

بابر کا تعلق تیموری خاندان سے تھا جبکہ اس کی ماں چنگیز خان کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ14 فروری1483کوپیدا ہوئے۔ مرز اظہیرالدین بابر 1504میں بلخ اور کابل کے حاکم بن گئے تھے ۔1526 میں پانی پت کے میدان میں سلطان ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ فوج کے مدمقابل شہنشاہ بابر نے صرف بارہ ہزار فوج کے ساتھ فتح حاصل کی تھی۔اِسی جنگ میں فتح کے بعد بابر نے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیادی رکھی۔

مغل سلطنت اور مسلم ہندوستان کے بانی مرزا ظہیر الدین بابر کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مرزا ظہیر الدین بابرکی زندگی اقبال کے مطلوب ’’شاہین‘‘ کی مانند تھی ۔ بابر سے نسبت ہونے پر جہاں آپ سب کو فخر ہے وہاں ہمیں بھی فخر ہے‘۔ بابر کواَدب سے گہرا لگاؤ تھا، وہ آرٹ ،موسیقی اور باغبانی کا بھی شغف رکھتا تھا۔ اَزبکستان میں ظہیر الدین بابر کو قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ اس کی متعدد نظمیں اَزبک لوک گیتوں کے طور پر مشہور ہیں۔

یہ بھی قابل ِ فخر بات ہے کہ اِسی شہنشاہ ہند کے نام پر پاکستان نے اپنے دفاع کیلئے 2005 ء میں ایک کروز میزائل ’’بابر‘‘ کے نام سے بنایا اور اِس کا کامیاب تجربہ بھی کیا گیا۔ یہ پہلا حکمران تھا جس نے ’’آٹوبائیوگرافی‘‘ خود اپنے ہاتھ سے لکھی۔

مغل فن ِ تعمیر ہو یا مغلیہ دسترخوان، مغلیہ دور کا عدل ہو یا ادب، فن سپہ گری ہو یا بہادری کی داستانیں تاریخ میں سب محفوظ ہیں۔ اِس دور میں فن ِ مصوری کو بھی عروج ملا اور شاعری بھی کمال کی ہوئی۔ تاج محل ہو یا بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ ہو یا تخت ِبابری اُس دور کی وہ نشانیاں ہیں جو آج کی نسل کو تہذیب و تمدن کا پتہ دیتی ہیں۔

ظہیر الدین محمد بابر کی شاہکار کتاب ’’تزکِ بابری ‘‘ کو دنیا بھر میں شہرت نصیب ہوئی ، تزکِ بابری سے دوسری قومیں بھی بہرہ مند ہوئیں۔ آج کل دنیا کی مختلف زبانوں میں بابر نامہ کے ترجمے موجود ہیں اور بار بار اس کے ایڈیشن بھی شائع ہورہے ہیں۔ آج تک تیس سے زائد زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ وہ فارسی اور ترکی زبانوں کا شاعر اور تلوار چلانے کا ماہربھی تھا۔

اس شہنشاہ کا 26دسمبر1530 کو آگرہ میں انتقال ہوا ۔ ان کی تدفین کابل میں کی گئی۔ظہیر الدین بابر کا مقبرہ کابل شہر کے وسط میں ایک پہاڑی علاقے کے قریب واقع ہے۔ ’’باغ بابر‘ ‘ کے نام سے موسوم یہ مقبرہ ایک وسیع و عریض باغ میں تعمیر کیا گیا ہے۔ جس جگہ پر مقبرہ بنایا گیا ہے یہ سارا علاقہ بابر کو حد سے زیادہ پسند تھا اور وہ جب بھی افغانستان آتے تھے تو اسی مقام پر پڑاؤ ڈال کر آرام کیا کرتے تھے۔

باغ کے اندر مقبرہ سب سے اونچائی پر ایک کونے میں تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ چھوٹا سا مقبرہ مغل شنہنشاہ جہانگیر نے اپنے پر دادا کے وفات کے 75سال بعد تعمیر کروایا تھا۔یہاں سے کابل شہر کا نظارہ بڑا ہی جازب نظر اور دلفریب ہے ۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان ہو یا بھارت دونوں کو دنیا کو دکھانے کے لئے مغل دور کی ہی عمارتیں،قلعے،مساجد،باغات ہیں باقی کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔ تاج محل محبت کی نشانی تخت بابری عظمت کی نشانی،مقبرے عزت و تکریم کا نشاں،سوانح عمری ادب کا سرمایہ،شاعری عروج کی،صوفیانہ تعلیمات ہر ایک پر بھاری۔۔بادشاہی میں فقیری،جھکے نہ بکے،سازشوں کا شکار ہوئے مگر سازش نہ کی،دشمنی کی عداوت نہ رکھی،اپنے دروازے کھلے رکھے،ہر مذہب کے لئے ہر مسلک کے لئے،وسعت و کشادہ دلی میں نام پیدا کیا۔۔محبت کی تو بے پایاں نفرت کی تو حد یں پار کیں ساڑے چار کروڑ ہونے کے باوجود نہ تکبر نہ غرور۔۔۔ہر شعبہ زندگی میں کمال اوج پر،ہاتھ دینے والے نظر حیا والی آنکھ شیر کی وار ایسا کہ فرقی دوم ہل نہ سکے۔۔سلامتی تجھ پر اے قوم مغلیہ،اے منگول۔۔۔۔

اﷲ پاک مرزا ظہیرالدین بابر سمیت تمام مرحومین کو جنت میں اعلیٰ جگہ نصیب کریں۔۔۔۔۔۔۔۔

Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 62867 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.