گوروں کے دیس میں - چوتھی قسط

گوروں کے دیس میں گزرے شب و روز

الفورڈ سٹی میں پہلی شام:
ہوٹل وآپس پہنچنے تک شام ہو چکی تھی اور ٹھنڈک میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔الفورڈ مسلم اکثریتی شہر ہے اس لئے ہر جگہ حلال فوڈ باآسانی میسر ہوتا ہے۔ ایک ترکش ریسٹورانٹ کا انتخاب کیا اور انتظار کرنے لگا کہ کوئی آئے اور آرڈر لے۔ میرے اردگرد بیٹھیں بہت ساری عربی فیملیاں تھیں۔ تمام ویٹرس بڑے ٹیبلز اور آرڈرز کے گرد ہی طواف کر رہی تھیں۔ بادل نخواسہ ایک ویٹرس کو میں بھی دکھ ہی گیا۔
سر کیا لیں گے آپ ۔
پوچھا کیا دے سکتی ہیں آپ ۔
وہ بولی سب کچھ آپ کے سامنے ہے جو بھی لینا چاہےآپ۔
پوچھا سب سے اچھا کیا ہے آپ کے پاس۔
بولی سرہمارے پاس سب کچھ بہترین ہوتا ہے۔آپ بے فکر ہو کر کچھ بھی مانگ سکتے ہیں۔
کافی سوچ بچار کے بعد جب کوئی فیصلہ نہ ہو سکا تو اسے بولا جو تمہیں پسند ہے وہ دے دو۔
خیر وہ اپنی پسند سے ہی کچھ لے آئی اور میں نے بھی صبر شکر سے کھا لیا کیونکہ صبح سے کچھ کھایا نہیں تھا اور پیٹ میں چوہے کرکٹ کھیل رہے تھے۔
ہوٹل میں آمد:
کھانے کے بعد سیدھا ہوٹل پہنچا تو وہ ہی پری صفت حسینہ کاونٹر پر اسی چاک و چوبند اور فریش انداز میں اپنے کام میں مصروف تھی۔ اور میں یہ ہی سوچتا رہ گیا کہ یہ لوگ اتنی تندہی سے اتنی دیر تک کیسے کام کرلیتے ہیں۔
ہائے میگنہ(اٹلی سے تعلق رکھنے والی یہ لڑکی روزی روٹی کی تلاش میں یہاں ملازمہ تھی)
گڈ ایونگ کیا حال ہے آپ کا۔
وہ اسی مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئی۔میں ٹھیک سر آپکا دن کیسا گزرا۔
اس سے کمرے کی چابی لی اور سیدھا اپنے کمرے میں پہنچ گیا۔ ابھی رات کے 9ہی بجے تھے لیکن تھکاوٹ کی وجہ سے نیند ا ٓرہی ۔ابھی سوئے کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ فون کی گھنٹی نے مجھے اُٹھا دیا۔
سر آپ سے کوئی ملنے آیا ہے غالبا ریسپشن سے فون تھا۔
اوکے آتا ہوں۔نیند میں ڈھوبابڑی مشکل سے اُسے جواب دے پایا۔
ہوٹل کی ریسپشن پے پہنچا تو خوشگوار حیرت ہوئی۔ عامر بھائی، اُنھیں دیکھتے ہی میں ان سے بغل گیر ہوگیا ۔ یہ میر ی ان سے تیسری ملاقات تھی۔ پہلی دو ملاقاتیں تو رسمی سی ہی تھیں لیکن مجھے آنے والے دنو ں میں اندازہ ہو گیا کہ اس تیسری ملاقات میں مجھے ایک بہت ہی نفیس ،شائستہ اور خوش مزاج دوست مل گیا ہے۔ عامر بھائی ایک فائیو اسٹار ہو ٹل میں مینجر ہیں اور بہت ہی باصلاحیت انسان ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات میری بہت ہی محترم بہن اور استادمیم عظمہ کے توسط سے ہوئی تھی۔شادی کے بعد دونوں لندن میں طویل عرصے سے مقیم ہیں۔ میم اس وقت لندن میں موجود نہ تھیں اس لئے عامر بھائی مجھ سے ملنے چلے آئے تھے۔ کچھ دیر گپ شپ ہوئی اور اگلے دن تفصیلی ملاقات کا وعدہ کر کے چلے گئے۔ میم گو کہ لندن سے باہر تھیں لیکن مجھ سے مسلسل رابطے میں تھیں اور میں نے کیسے کم وقت کو بہتر طور پر استعمال میں لانا ہے وہ مکمل گائیڈ کر رہی تھیں۔
پردیس میں دوسرا دن:
اگلے دن صبح سویرے اُٹھا اور شاور لے کر فریش ہو گیا۔ پچھلے دن کی تھکاوٹ اتر چکی تھی اور میں نئے دن کی مسافت کے لئے بلکل تیار تھا۔ لابی میں ناشتے کے لئے پہنچا تو ابھی زیادہ رش نہیں تھی اور ٹیبلز پر کچھ ہی لوگ بیٹھے تھے۔ میں اپنے لئے بریڈ ،آملیٹ اور کچھ اور چیزیں لے کر ایک خالئ ٹیبل کے گرد پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ یہ کوئی فرائیڈ چیز تھی لیکن مجھے کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ کیا ہے۔ میں نے ایک لقمہ لیا توبہت لذیذ لگا اور کچھ آلو کا ذائقہ آیا، لیکن اگلے نوالے میں کچھ مچھلی کا ذائقہ اور پھر میرے ذہن میں چھناکے سے ایک خیال آیا اور میں یکدم پیچھے ہٹ کے بیٹھ گیا۔ پردیس میں اور خاص طور پر گوروں کے دیس میں کھانے پینے کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔میں نے فورا ویٹرس سے پوچھا یہ کیا ہے۔
ہیش پوٹاٹوز سر۔ اور شائد میری پریشانی کو بھانپ گئی تھی اس لئے فورا بولی ۔پریشان نہ ہوں سر ۔یہاں سب کچھ حلال ہے۔ پھر تو خوب پیٹ بھر کے ناشتہ کیا اور اپنی منزل کی طرف نکل پڑا۔

Brighton Beachبرائٹن بیچ
میری اگلی منزل لندن سے باہر خوبصورت ،ساحل سمندر پے واقع ایک شہربرائٹن تھی۔میں الفورڈ میٹرو اسٹیشن پہنچ گیا اس وقت صبح کے 8 بج رہے تھے اور یہ مصروف ترین ٹائم ہوتا ہے کیونکہ سب کو اپنے اپنے کام پر پہنچنا ہوتا ہے۔میں دو ٹرینیں بدل کر لندن برج پہنچ گیا۔ یہاں سے مجھے برائٹن کےلئے ٹرین پکڑنی تھی۔میں نے ریٹرن ٹکٹ لیا جو کہ 12پونڈ کا ملا۔ ابھی ٹرین کے جانے میں ٹائم تھا اور میں نے ایک بہت ضروری کام بھی کرنا تھا۔ میں اسٹیشن سے باہر نکلا اور سیدھا موبائل شاپ پر جا کر پوچھا کہ مجھے سم چائیے جس میں ڈیٹا پیکج بھی ہو۔
لائیکا موبائل ایک ایسی سم ہے جس میں 12پاونڈ ریچارج کریں تو آپ کو 3000 لوکل کالز اور 1جی بی ڈیٹا بھی ملتا ہے۔ اور مزے کی بات یہ کہ اگر اس کے بعد یورپ کے سفر کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ سم اور پیکچ وہا ں بھی چلے گا اور اس کی مدت ایک ماہ تک ہوتی ہے۔
ٹرین کے جانے کا وقت ہو چکا تھا ۔ اس لئے جلدی سے اسٹیشن کی طرف لپکا۔یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ وقت کی پابندی سب پرلازم ہے ورنہ کوئی آپ کا انتظارنہیں کرے گا۔اب چاہے وہ ٹرین ہو یا کوئی جیتا جاگتا انسان۔
لندن سے برائٹن تک کا سفر تقریبا ایک گھنٹے کا تھا ۔اسٹیشن سے نکلتے ہی میں بس سٹی ٹورزکا ٹکٹ لیا اور بس میں سوار ہو گیا۔ پورے یورپ اور برطانیہ میں چونکہ سیا حت بہت عام ہے اس لئے سہولتیں بھی بہت زیادہ ہیں۔ہر شہر میں سٹی ٹورز کے نام سے اسپیشل بسیں چلتی ہیں اور وہ آپ کو شہر کے تمام اہم، تاریخی اور سیاحتی مقامات کی سیر کراتیں ہیں۔ ان بسوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ آپ کسی بھی اسٹاپ پر اتر سکتے ہیں اور جب چاہیں بعد میں آنے والی بس پر سوار ہو کر وآپس جا سکتے ہیں بس کی چھت پر بیٹھے جہاں خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوا جا رہا تھا وہاں تیز ٹھنڈی ہوائیں جسم میں سوئیوں کی طرح پیوست ہو رہی تھیں۔ کیا خوبصورت ساحل سمندر تھا ۔ دل چاہےگھنٹوں بیٹھے سمندر کی بد مست لہروں کا نظارہ کرتا رہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں گورے دھوپ میں لیٹے سمندر کنارے سن باتھ لے رہے تھے۔کچھ دیر ساحل سمندر کی خاک چھاننے کے بعد وآپس شہر کی طرف لوٹااور یہاں کے تہذیب وتمدن کا جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھتا گیا۔
کھانے میں یہاں کی فش اینڈ چپس بہت مشہور ہیں اور جگہ جگہ آپ کو ہوٹلوں پر آپ کو فش اینڈ چپس کے بورڈز آویزاں ملیں گے۔ اگر آپ ادھر آ رہے ہیں تو ضرور ٹیسٹ کریں۔آ پ تعریف کئے بنا نہ رہ سکیں گے۔


(جاری ہے)
 

Shakeel Ahmed
About the Author: Shakeel Ahmed Read More Articles by Shakeel Ahmed: 11 Articles with 16110 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.