متاعِ غرور اور کشش

حُسن میں تو کشش ہے ہی مگر اور چیزوں میں بھی کشش ہوتی ہے اور وہ آپ کو کھینچتی ہیں اپنی جانب مقناطیس کی طرح مثبت اور منفی دونوں سوچ کشش رکھتی ہیں اور اُسی طرح کی چیزوں کو اپنے قریب کرتی ہیں جس کو آج کل ماینڈ ساینس میں ‏law of attraction کا نام دیا جاتا ہے جو کسی حد تک دُرست بھی لگتا ہے جیسے ہمارے خیالات اور سوچ ہوتی ہے ویسے ہی ہمارے ارادے اور اور اعمال اور اس سے آگے بڑھ کر ویسے ہی زندگی میں مواقع آنا شروع ہو جاتے ہیں-

ایک بزرگ کی کتاب میں لکھا دیکھا کسی نے سوال کیا کہ خوف اور وسوسے پریشان کرتے ہیں تو جواب ملا
" خوف دراصل خواہش سے جنم لیے والی کیفیت ہے۔جو لوگ دنیا کے پیچھے بھاگتے ہیں خوفزدہ رہتے ہیں ۔اور دنیا ان سے دور بھاگتی ہے خواہش کو اپنے پیچھے پھینک دو ۔اللّلہ پر بھروسہ کریں۔دنیا مثلِ ساے کےپیچھے پیچھے بھاگے گی منفی بات سوچینگے تو منفی کا امکان بڑھے گا مثبت سوچ ہو گی تو مثبت واقعات کی قطار لگ جاے گی ۔ یاد رکھیں اللّلہ تعالیٰ کسی کا نقصان نہیں کرتےاور بفرض محال جس کو آپ نقصان سمجھیں ہو بھی جاےتو تلافی کےہزار راستے ہیں۔اللّلہ کے لیے کچھ مشکل نہیں"-

جب بھی میں پریشان ہوتا ہوں یہ عبارت پڑھ لیتا ہوں تو میرا حوصلہ بڑھ جاتا ہے کسی کی لکھی ہوی کتاب میں بھی شاید لکھنے والے کی شخصیت اور اسکی نیت اور سوچ اثر انداز ہو کر قاری کے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے اور اگر وہ شخصیت روحانی ہو تو اُس کا فیض بھی پہنچتا ہے ایسی ہی کچھ کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا زندگی میں نہ چاہتے ہوے بھی اس کا اثر محسوس ہوا شخصیت پر مزاج پر اور ایک کتاب میں تو یہاں تک ہوا شاید آپ کو یقین نہ آے کہ جس طرح کے تجربے سے وہ گزرے بالکل وہی میرے ساتھ واقعہ پیش آیا اور جس پراسرار شخصیت کے پاس اُن کا جانا ہوا کچھ مخصوص حالات مجھے بھی وہاں لے گئے-

بات کرتے کرتے دور نکل جاتا ہوں اور بات پیچھے رہ جاتی ہے اور کبھی بات نکلتی نکلتی دور تک نکل جاتی ہے اور پھر ہاتھ نہیں آتی اور انسان بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے جو آج کل بحث بازی میں ہوتا ہے خاندانوں سیاستدانوں اور پروگراموں میں اور کسی نے خوب کہا کہ ہم بحث جیت جاتے ہیں اور بندہ ہار جاتے ہیں
ابھی حال ہی میں واٹس ایپ پر سیاسی بحث جو اسکول کے پرانے دوستوں کے درمیان ہوی وہ اس نہج پر پہنچ گئی کہ سیاسی پارٹی تو جیتے نہ جیتے مگر ہم ایک سالوں پرانا دوست ہار گئے اگر ایک معاملہ فہم دوست ہمارےدل پھر سے منور نہ کرتا جس کا نام بھی منور ہے تو ہم اس دوست کو کھو چکے ہوتے-

کسی کی بات کے انداز میں بھی کشش ہوتی ہے کہ آپ گرویدہ ہو جاتے ہیں اور اگر وہ دکان کا سیلز مین ہو تو آپ نہ چاہتے ہوے بھی کوی چیز خرید کر گھر جا کر پیچ و تاب کھانے پر مجبور ہونگے اپنی پسند کے طعام کے بجاے جو کسی نے محبت سے بنایا ہوا تھا اسی طرح کردار اور عمل کی اپنی کشش ہے جو بڑی خاموشی سے آہستہ آہستہ اپنی گرفت میں لیتی ہے اور ہمسفر سفر کے اختتام سے پہلے آپ کا ہو جاتا ہے چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ لیکن گانے والی مسرت نظیر ہوں تو زرا جلدی کٹ جاتا ہے اور کبھی کبھی ہچکولے بھی کھانے پڑتے ہیں کشش ثقل gravity کی وجہ سے ہی ہم زمین پر قائم رہتے ہیں ورنہ ہمارے پیر زمین پر کہاں ٹکنے والے تھے دور دراز ملکوں میں گئے ہوے لوگوں کو پتہ ہو گا کہ اپنے وطن کی مٹی کی کشش کیا ہوتی ہے گھر کی بھی ایک کشش ہوتی ہے گھر سے باہر کتنا ہی کام ہو کیسا ہی آرام ہو مگر آخر کار گھر پر آکر ہی سکون ملتا ہے چاہے کوی آپ کے استقبال کو نہ بھی کھڑا ہو چاہے کچھ بے سکونی ہی کیوں نہ ہو مگر چین گھر پر آکر ہی ملتا ہے- آنکھوں میں بھی کیا کشش ہوتی ہے کہ اچھے اچھے ہواس کھو دیں
پیار بھرے دو شرمیلے نین
ان کو ملا میرے دل کو چین

ان آنکھوں میں کوئی اترتا ہی چلا جائے گہرائی کا اندازہ کیے بغیر اور پھر ڈوبنے لگے ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم چلے جانا میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں اور پھر اس دنیا کی کشش اس کی رنگینیوں رونق میلوں مال کی کشش اور اور ایسی چمٹ جاتی ہیں کہ چھوڑنا مشکل لگے مگر ایک دن چھوڑنا پڑ جاے گا

وَمَا الْحَيَاةُ الـدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ
اور یہ دنیوی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں

ن سے نعمان صدیقی
About the Author: ن سے نعمان صدیقی Read More Articles by ن سے نعمان صدیقی: 28 Articles with 24250 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.