رہائی

آج صبح سے اس کا موڈ خراب تھا، اس میں کچھ عنصر اس کی صحت کی خرابی کا بھی تھا. وہ جلدی جلدی اپنے کام سمیٹنے کی کوشش میں مصروف تھی، اچانک فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف اس کی همشیره تھیں ، باتوں کے دوران همشیره نے کچھ ایسی بات کر دی جس سے اس کے جزبات کو ٹھیس لگی ، بجائے خاموشی اختیار کرنے کے بجائے آج اس کے منہ سے بهی سخت کلمات نکل آئے اور غصے میں اس نے فون بند کردیا. گهڑی دیکھی تو اندازہ ہوا ا کہ بچے کو کنڈرگارٹن سے لیکر آنے کا وقت هو گیا تھا. چنانچہ جلدی سے چھوٹے بیٹے کو تیار کیا، خود بھی اپنا حلیہ ٹھیک کیا اور اسکول کی طرف گاڑی کا رخ کیا، اسکول سے بیٹے کو لیکر گاڑی کا رخ گھر کی طرف کیا.
راستے میں بیک ویو مرمر میں بیٹے سے نظر ملی ،تو بیٹے نے بے ساختہ استفسار کیا،
ماں آج آپ روئی هیں؟
بے اختیار هی اس کی آنکھوں میں نمی آگئی.
ا س نے بے اختیاری سے بیٹے پوچھا "
میری جان آپ کو ایسا کیوں محسوس ہوا؟
بچہ مسکرا یا اور بولا
روز جب آپ مجھے لینے آتی هیں، تو آپ مجھے گلے لگا کر ملتی هیں، آج جب آپ نے مجھے گلے لگایا تو مجھے آپ کے دل نے بتایا کہ آپ بہت اداس هیں.
میں آپ کا بیٹا ہوں، مجھے بتائیے شاید میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا هوں.
اس نے حیرانگی سے اپنے پانچ سال کے بیٹے کو دیکھا، جو اس وقت اسے ایک برد بار بوڑھا باپ جیسا لگ رہا تھا.
اسی گفتگو کے دوران وہ گھر آ گے تھے.
اس نے کوشش کی کہ اس کے بیٹے کا دھیان بدل جائے، مگر اس کا بیٹا ثابت قدم رہا، آخر کار اس کو مختصر الفا ظ میں بیٹے کو آج کی رو داد سنانی بڑی. کہ کس طرح آج اس سے بدتمیزی ہوگی وہ بھی اپنی بڑی بہن سے.
بچہ بڑی برد باری سے بولا
امی غلطی آپ کی تھی تو معافی بهی آپ کو مانگنی چاہیے، معافی مانگنے سے اللہ بهی آپ سے خوش هوگا، وہ ابھی بے یقینی کی کیفیت میں هی غوطہ زن تهی کے وه بها گ کر فون اٹھا لایا،
اس نے بہن کو کال کی اور معذرت کی، بہن نے بھی خوشدلی سے معذرت قبول کر لی.
فون بند کر کے اس نے بیٹے کو سینے سے لگایا اور کہا
بیٹا آج تم نے جو سبق مجھے دیا ہے اس کو میں زندگی بهر یاد رکھونگی، هم انا کو زندہ رکھنے کے لیے رشتے قربان کر دیتے هیں. تم نے مجھے اس غلطی سے بچا لیا.
دل هی دل میں اللہ کا شکر بجا لائ. آج اللہ نے اک ننھے فرشتے کے ذریعے سے اس کی مدد کی تھی اور شیطان مردود کی شر سے محفوظ کیا.
نتیجہ :
بعض اوقات اپنی غلطی تسلیم کرنے سے آپ چھوٹے نہیں هو جاتے بلکہ اللہ کے گھر آپ کے درجات بلند هو جاتے هیں.
میں نے زندگی کو بچوں سے سمجھا.

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 263540 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More