لودھراں کا ضمنی انتخاب

پاکستان تحریک انصاف کے لئے لودھراں این اے 154 کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ 440 وولٹ بجلی کے جھٹکے سے کم نہیں ہے۔اگرچہ لوڈشیڈنگ کا زمانہ ہے لیکن پھر بھی مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار پیر اقبال شاہ نے 26 ہزار ووٹوں کی برتری سے نہ صر ف ترین خان دان کو جھٹکا لگایا بلکہ پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی صدمے سے دو چار کردیا ہے۔اُن کے سینئر رہنماؤں سے جب شکست کی وجوہات دریافت کی گئیں تو تقریباً سب کا کہنا تھاکہ پارٹی اس کا جائزہ لے رہی ہے۔ اُن کا کہنا بجا ہے کیوں کہ یہ وہ حلقہ ہے جہاں جہانگیر ترین نے ریکارڈ سازکام کئے ہیں۔آخر اتنی عمدہ کارکردگی کے باوجود لودھراں کے عوام نے ترین خان دان کو ووٹ کیوں نہیں دیئے۔ الیکشن سے قبل اُن کی مخالف اُمیدوار کے بارے میں یہ خیال تھا کہ علی خان ترین کم از کم پچاس ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیابی بٹور لے گا۔ اور پارٹی قیادت نے الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلسہ کروا کر اس پر جیت کی مہر بھی ثبت کی۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ اُلٹا 26 ہزارووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ یاد رہے کہ یہ عام انتخابات سے قبل آخری ضمنی انتخاب تھا۔یہی وجہ ہے کہ یہ معرکہ بڑی اہمیت کا حامل تھا ۔اس سے قبل صوبہ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات سے یہ انتخاب منفر د بھی تھا۔کیوں کہ باقی حلقوں میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں پریہ الزامات لگائے جاتے رہے ہیں کہ وہاں اُن کی مداخلت شامل ِ حال تھی۔لیکن یہاں صورت حال مختلف تھی کیوں کہ یہ ترین خان دان کا ذاتی حلقہ تھا۔پس یہ شکست پاکستان تحریک انصاف کے لئے المیہ سے کم نہیں ہے۔

2013 ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی اس نشست پر آزاد اُمیدوار محمد صدیق خان بلوچ نے 86046 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی جب کہ جہانگیر ترین نے 75814 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے تھے۔جب کہ اس سے قبل 2008 ء کے عام انتخابات میں محمد صدیق خان بلوچ نے ہی مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔23 دسمبر 2015 ء کو اسی حلقہ میں محمد صدیق خان بلوچ کی نا اہلی سے خالی ہونے والی نشست پرضمنی انتخاب ہوا اور جہانگیرترین نے کامیابی حاصل کی۔ لیکن عدالت ِ عظمیٰ کی جانب سے جہانگیر ترین کی نا اہلی کے احکامات جاری ہوئے اور یوں یہ نشست دوسری بار خالی ہوگئی۔ جس پر 12 فروری کو انتخابات منعقد ہوئے اور جہانگیرترین کے صاحبزادے کو مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار پیر اقبال شاہ کے ہاتھوں بُری طرح شکست ہوئی۔

پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اس شکست کے محرکات کا جائزہ لے رہی ہے کیوں کہ عام انتخابات 2018 ء میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ تو پس ان کے لئے شکست کے محرکات کو جاننا اور اُن کا سدِّ باب کرنانہایت ضروری ہوچکا ہے۔ راقم الحروف کے مطابق شکست کے محرکات بالکل واضح ہیں۔ 2013 ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے ’’تبدیلی ‘‘ کے نام پر ووٹ لئے تھے۔ اُن کے منشور میں یہ بھی تھا کہ باقی جماعتیں موروثی سیاست کی حامل ہیں جب کہ پی ٹی آئی ایسی سیاست کے مخالف ہے اور وہ’’ سٹیٹس کو‘‘ کی سیاست نہیں چاہتی۔ ان نکات کو جلسوں اور دھرنوں میں بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں بار دہرایا گیا۔ یوں یہ بات عوام کے ذہنوں میں بیٹھ گئی۔جب عدالت عظمیٰ کی جانب سے پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا گیاتو لودھران - ون کے حلقے میں اُنہی کے صاحبزادے کو ٹکٹ دے کر موروثی سیاست کی مخالف جماعت نے یوٹرن لے لیا۔ ویسے تو عمران خان کو یوٹرن کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن موروثی سیاست کرکے انہوں نے درحقیقت اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری اور جس کا نتیجہ شکست کی شکل میں سامنے آیا، یعنی باشعور عوام نے موروثی سیاست کو مسترد کردیا۔
 

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 265652 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.