جنت میں ادنیٰ مومن کا مقام

اﷲ رب العزت نے کائنات بنائی اور اس میں انسانوں کی تخلیق کی تاکہ وہ اﷲ کی بندگی کرتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اچھائی اور برائی دونوں چیزوں کااختیار دیا۔ پھر اس کے بعد یہ بھی متعین کردیا کہ جو لوگ اﷲ رب العزت کی بندگی میں اپنی زندگی اچھائی یعنی نیک کاموں میں گزاریں گے، ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا اجر اور کثیر انعامات ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ اپنی زند گی اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی میں گزاریں گے ان کے لیے آخرت میں درد ناک عذاب ہوگا۔ یہی سزا اور جزا کا عمل رب کی جانب سے عدل ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے نیک بندے آخرت میں کثیر اجرو ثواب کے مستحق ہوں گے۔ روزِ آخرت ہر شخص کو اس کے نیک اعمال کے بدلے میں جزا دی جا ئے گی ۔ جس کا عمل جتنا زیادہ ہوگا، وہ اتنا ہی زیادہ اجرو ثواب اور انعامات کا مستحق ہوگااور اس کا درجہ اور مقام اتنا ہی بلند و بالا ہوگا ۔

اﷲ رب العزت کی جانب سے جو نعمتیں عطا کی جائیں گی ‘ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ متعدد احادیث مبارکہ میں رب تعالیٰ کی نعمتوں ا ور اس کی جانب سے ملنے والے انعامات کا تذکرہ ملتا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو کس قدر جنت کی نعمتوں سے سرفرا زفرمائے گا۔ احادیث مبارکہ میں ایک ادنیٰ جنتی کے لیے جن انعامات کا ذکر کیا گیا ہے ، ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ایک ادنیٰ مومن کا مقام یہ ہو گا تو اعلیٰ جنتی کا مقام کیا ہوگا۔ اس کا مقام تصور سے بھی بالا تر ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ادنیٰ جنتی کا مقام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ادنیٰ جنتی کا مقام وہ ہو گا کہ اس کی سلطنت ہزار سال کی مسافت تک وسیع ہو گی اور اپنی سلطنت میں موجود کسی دور کی شے کو بھی ایسے ہی دیکھے گا جیسے اپنے قریب کی شے کو دیکھے گا جیسے وہ اپنی بیوی اور خادموں کو دیکھ رہا ہو۔ (مسند احمد: ۴۶۲۳)اس کے علاوہ آقا کریم ﷺ نے ادنیٰ جنتی کی خدمت کرنے والے خدام اور بیویوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:سب سے ادنیٰ جنتی کا مقام یہ ہے کہ اس کے اسّی ہزارخدّام ہوں گے اور۷۲ بیویاں ہو ں گی اور اس کے لیے موتیوں ، زبرجد اور یاقوت کا اتنا طویل قبہ کھڑا کیا جائے گا جتنا جَابِیَہ اورصَنْعَاء کا درمیانی فاصلہ ہے۔ (ترمذی: ۲۵۶۲)ایک اور روایت میں پیارے آقا حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:تمام جنتیوں میں سب سے کم درجہ والے جنّتی کی خدمت دس ہزار خدّام کریں گے اور ہر خادم کے ہاتھ میں دو پلیٹیں ہوں گی، ایک سونے کی اور دوسری چاندی کی، ہر ایک میں دوسرے سے مختلف رنگ کا کھانا ہو گا، وہ دوسری سے بھی ایسے ہی کھائے گا جیسے پہلی پلیٹ سے کھائے گا اور دوسری سے بھی ویسی ہی خوشبو اور لذت پائے گا جیسی پہلی سے پائے گا، پھر یہ سب ایک ڈکار ہو گا جیسا کہ عمدہ کستوری کی خوشبو (یعنی یہ سب کھانا خوشبودار پسینے اور ڈکار کی صورت میں ہضم ہوجائے گا)، وہ نہ تو پیشاب کریں گے نہ پاخانہ کریں گے اور نہ ہی ناک صاف کریں گے اور بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کے سامنے تخت پر بیٹھے ہوں گے۔ (الزھد والرقائق: ۱۵۳۰) ایک اور طویل حدیث میں آقا کریم ﷺ نے ادنیٰ جنتی کے پل صراط سے ہوتے ہوئے جنت میں داخل ہونے سے لے کر اس کو ملنے والی نعمتوں تک کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:لوگ پل صراط پرسے اپنے نورکے مطابق گزریں گے،ان میں سے بعض پلک جھپکنے کی دیرمیں گزریں گے توبعض بجلی کی طرح،بعض بادلوں کی طرح گزریں گے تو بعض ستارے ٹوٹنے کی طرح، بعض ہوا کی طرح گزریں گے تو بعض گھوڑے کے دوڑنے کی طرح، بعض کجاوہ باندھنے کی طرح گزریں گے یہاں تک کہ جسے اُس کے قدموں کے ظاہر پر نور عطا کیا جائے گا وہ چہرے، ہاتھوں اور پاؤں کے بل چلے گا، ایک ہاتھ کھینچے گا تو دوسرا اٹک جائے گا، ایک پاؤں کھینچے گا تو دوسرا پھنس جائے گا، اس کے پہلوؤں کو آگ پہنچ رہی ہو گی، وہ چھٹکارا پانے تک اسی کیفیت میں رہے گا، پھر جب آزاد ہو جائے گا تو کھڑا ہو جائے گا اور کہے گا: تمام تعریفیں اﷲ عزوجل کے لیے ہیں جس نے مجھے وہ کچھ عطا کیا جو کسی کوعطا نہیں کیا کہ مجھے عذاب کے دیکھنے کے بعد اس سے نجات عطا فرمائی۔ پھر وہ جنت کے دروازے پر ایک تالاب کی طرف جائے گا اور ا س میں غسل کرے گا اوراسے اہلِ جنت اور ان کے رنگوں کی خوشبو آئے گی تو وہ دروازے کے سوراخوں سے جنت کی نعمتیں ملاحظہ کر کے عرض کرے گا:اے میرے پروردگار ! مجھے جنت میں داخل فرما دے۔ تو اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا:کیا تو جنت کا سوال کرتا ہے حالانکہ میں نے تجھے دوزخ سے نجات عطا فرمائی ہے؟ تو وہ کہے گا: میرے اور اس کے درمیان پردہ حائل کردے یہاں تک کہ میں اس کی ہلکی سی آواز بھی نہ سن سکوں۔ پس وہ جنت میں داخل ہو جائے گا اور اپنے سامنے ایک محل دیکھے گا یا اس کے سامنے کھڑا کیا جائے گا گویا وہ محل اس کی نسبت سے ایک خواب ہوگا تو وہ کہے گا: اے میرے پروردگار ! مجھے یہ محل عطا فرما دے۔ اﷲ رب العزت ارشاد فرمائے گا: اگر میں تجھے یہ عطا کر دوں تو ہو سکتا ہے تو کوئی دوسری چیز مانگ لے۔ وہ عرض کرے گا: نہیں ! اے پروردگار ! تیری عزت کی قسم! میں اس کے علاوہ کچھ نہیں مانگوں گا اور اس سے بہتر بھی کوئی محل ہو سکتا ہے؟ وہ محل اسے عطا کر دیا جائے گا تو وہ اس میں جائے گا اوراپنے سامنے ایک اور محل دیکھے گا اور اسی طرح کہے گا جیسے پہلے کہا تھا پھر وہ اس میں بھی داخل ہو جائے گا۔اس کے بعد وہ خاموش ہو جائے گاتواﷲ جل جلالہ اس سے دریافت فرمائے گا: تجھے کیاہواکہ کچھ نہیں مانگ رہا؟ تو وہ عرض کرے گا:اے پروردگار ! میں تجھ سے مانگتا رہا یہاں تک کہ مجھے اب تجھ سے حیا آتی ہے۔ تو اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا:کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ میں تجھے ابتدائے دنیا سے فنائے دنیا تک کی مثل اور اس سے دس گنا زیادہ عطا فرما دوں ؟ تو وہ عرض کرے گا:اے اﷲ !کیا تو مجھ سے استہزاء فرما رہا ہے حالانکہ تو رب العزَّت ہے؟ تو اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: نہیں ، بلکہ میں اس پر قادر ہوں ، لہٰذا مانگ۔ تو وہ عرض کرے گا:میری ملاقات لوگوں کے ساتھ کرا دے۔ تو اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا:جاؤ اور لوگوں سے ملو۔ لہٰذاوہ چل دے گا اور جنت میں لپک لپک کر چلے گا یہاں تک کہ جب وہ لوگوں کے قریب پہنچ جائے گا تو اس کے سامنے ایک موتیوں کا محل کھڑا کیا جائے گا تو وہ سجدہ میں گر جائے گا، اسے کہا جائے گا:اپنا سر اٹھا، تجھے کیا ہوا ہے؟ وہ عرض کرے گا:میں نے اپنے پروردگار عزوجل کی زیارت کی تو اسے کہا جائے گا:یہ تو تیرے ہی محلوں میں سے ایک محل ہے۔ پھر وہ ایک شخص سے ملے گاتو (شکر کے)سجدوں کے لیے تیار ہو جائے گا اسے کہا جائے گا:ٹھہر جا۔ تو وہ عرض کرے گا: میرے خیال میں تم یقینا فرشتے ہو۔ وہ کہے گا: میں تو آپ کے خزانچیوں میں سے ایک خزانچی اور خدّام میں سے ایک خادم ہوں ، میرے ماتحت میرے جیسے ہی ایک ہزار خزانچی ہیں۔ چنانچہ، وہ اس کے آگے آگے چلے گا یہاں تک کہ اس کے لیے محل کا دروازہ کھولا جائے گا جو ایک ہی موتی کا ہو گا اور اس کی چھتیں ، دروازے، تالے اور چابیاں بھی موتیوں سے تراشیدہ ہوں گے، اس کے سامنے کا محل سبز ہو گا جو اندر سے سرخ ہو گا، اُس کے ستر دروازے ہوں گے، ہر دروازہ اندر سے سبز محل کی طرف کھلے گا، ہر محل دوسرے محل کی طرف کھلے گا کہ جس کا رنگ مختلف ہو گا، ہر محل میں تخت، بیویاں اور نوعمرخادمائیں ہوں گی جن میں سب سے کم حسین بڑی بڑی آنکھوں والی حور ہو گی، اُس پر سترحُلّے ہوں گے، اس کے حلوں کے اندر سے اس کی پنڈلی کا گودانظر آئے گا، اِس کا سینہ اُس کے لیے اور اُس کاسینہ اِس کے لیے آئینہ ہو گا، جب وہ اُس سے منہ پھیرے گا تو اُس کی آنکھوں کے حسن میں پہلے سے ستر گنا اضافہ ہو جائے گا، وہ اُس سے کہے گا:خدا کی قسم! تو میری آنکھوں میں ستر گنا زیادہ حسین نظر آرہی ہے۔ تو وہ جواب دے گی: بے شک آپ بھی میری آنکھوں میں ستر گنا زیادہ حسین نظرآرہے ہیں ۔ پھر اسے کہا جائے گا: نیچے جھانک۔ وہ نیچے دیکھے گا، تو اسے کہا جائے گا: تیری سلطنت ۱۰۰ سال کی مسافت تک ہے جہاں تک تیری نگاہ پہنچتی ہے۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے جب یہ حدیثِ پاک حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے سنی توحضرت کعب رضی اﷲ عنہ سے ارشاد فرمایا:اے کعب ! کیا آپ نہیں سن رہے کہ اُمّ عبد کے بیٹے(حضر ت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ) ہمیں ادنیٰ جنتی کے متعلق کیا بتا رہے ہیں (جب ادنیٰ جنتی کا یہ مقام ہے) تو پھر اعلیٰ جنتی کا مقام کتنا بلند ہو گا؟ تو انہوں نے عرض کی:اے امیرالمومنین ! اعلیٰ جنتی کا مقام وہ ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال بحوالہ المعجم الکبیر: ۹۷۶۳)

درج بالا طویل حدیث پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا قول مبارک اس کی نوید ہے کہ ادنیٰ جنتی کو اتنا سب کچھ عطا کیا جائے گا تو اعلیٰ درجہ پر فائز ہونے والے جنتی کو کیا کچھ عطا نہیں کیا جائے گا۔ اس حدیثِ مبارک سے صدیقین ،شہداء، اولیاء صحابۂ کرام اور سب سے بڑھ کر انبیائے کرام علیہم السلام کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جنت میں ان مبارک اور مقدس ہستیوں کو رب تعالیٰ کن کن نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا۔ اﷲ رب العزت ہمارا داخلہ بھی جنت میں آسان فرمادے۔ آمین۔
 

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 74780 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.