تبدیلی ۔۔۔ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں


اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کلین شیو کی جگہ داڑھی والا اقتدار میں آجائے، پینٹ شرٹ کی جگہ شلوار قمیض والا اسمبلی میں پہنچ جائے،انگلش کی جگہ اردو بولنے والا الیکشن میں جیت جائے سرخ رنگ کے پرچموں کی جگہ سبز رنگ والے پرچم چھا جائیں تو یہ سب ہماری سادگی اور کم فکری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تبدیلی کے مفہوم ، کو سمجھا ہی نہیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تاجربہت اداس تھا، طوطا بھی پریشان ہوگیا، اس نے پنجرے میں اپنے پر پھڑ پھڑائے، پنجرے کی سلاخوں کو چونچ سے ٹھوکریں ماریں، لیکن تاجر اس کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل گیا۔ ننھا طوطا یہ سمجھ گیا کہ اس کا مالک اس سے آنکھیں چرارہا ہے، شام کو تاجر گھر لوٹا تو پھر وہی منظر تھا، تاجر کی ا داسی اور طوطے کی پھڑ پھڑاہٹ۔

بالآخر طوطے نے مالک سے اداسی کی وجہ پوچھی، مالک نے گھبراتے ہوئے طوطے کی طرف دیکھا، ماتھے سے پسینہ صاف کیا، اور لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا کہ میاں مٹھو! تمہارے لئے بہت بری خبر ہے میرے پاس۔

طوطے نے کہا وہ تو میں جان ہی چکا ہوں ، کئی دنوں سے آپ کے بدلے ہوئے تیور دیکھ رہا ہوں، اب بتا بھی دیجئے!

تاجر نے کانپتے ہوئے بدن اور لرزتی ہوئی زبان سے جواب دیا کہ تمہارے نقشے کے مطابق جب میں فلاں باغ میں پہنچا تو وہاں تو عجب منظر تھا، ہرطرف چہک مہک تھی، سبزہ ہی سبزہ اور سبزے میں رنگ برنگے طوطے، میں نے اُن طوطوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اے فطرت کی رنگینیوں اور کائنات کے حُسن سے لطف اندوز ہونے والے آزاد پرندو تمہارے لئے فلاں علاقے کے فلاں تاجر کے پنجرے میں قید ایک طوطے نے سلام بھیجا ہے۔۔۔

یہ سُن کر پنجرے میں قید طوطے نے ٹھنڈی آہ لی اور مالک سے پوچھا پھر کیا ہوا!؟

مالک نے اپنے آنسو خشک کرتے ہوئے کہا کہ یہ سنتے ہی سارے طوطے درختوں سے نیچے گر گئے اور ہرا بھرا باغ سنسان ہوگیا۔یہ سننا تھا کہ پرندے میں قید طوطے نے غم سے چیخیں ماریں اور پنجرے کی سلاخوں سے سر پٹخ کر وہیں مر گیا۔

تاجر کے غم اور دکھ میں مزید اضافہ ہوگیا، اس نے طوطے کو پنجرے سے نکالا اور دور پھینک دیا ، طوطے نے فوراً اڑان بھری اور درخت پر جاکر بیٹھ گیا اور اپنے آپ کو کہنے لگا آزادی مبارک۔

اس حکایت سے ان گنت نتائج لئے جاتے ہیں، ان نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ کسی کو جب قیدی اور غلامی سے نجات چاہیے ہوتو اس کے سامنے ایک رول ماڈل اور نمونہ عمل موجود ہونا چاہیے جس کے عمل کے مطابق عمل کر کے غلامی سے آزادی حاصل کی جائے۔

پنجرے میں قید طوطے کے لئے باغ کے آزاد طوطوں نے ایک عملی پیغام بھیجا تھا جس پر عمل کر کے اس نے بھی آزادی حاصل کی۔ آج ہمارا ملک ، ہماری قوم ، اقتصادی، ثقافتی،سائنسی،تعلیمی اور سیاسی غلامی میں گرفتار ہے، کیا ان طرح طرح کی غلامیوں سے ہمارے یہ سیاستدان ، ہمیں نجات دلائیں گے! کیا ہمارے یہ سیاستدان ہمارے لئے رول ماڈل اور نمونہ عمل ہیں اور اِن کے نقشِ قدم پر چل کر ہم کوئی مثبت تبدیلی حاصل کریں گے!؟

کیا آنے والے انتخابات میں یہ فرسودہ پارٹیاں، یہ روایتی نعرے اور یہ غرب زدہ لیڈر ہمارے ملک میں تبدیلی لائیں گے!؟

اتنی لاشیں اٹھانے اور اتنی غربت و فقر کاٹنے کے باوجودکیا ہم نے ابھی تک دینِ اسلام کی طرف لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا!؟ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق پیغمبرِ اسلام ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں اور پیغمبرِ اسلام کے اسوہ حسنہ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو آزادی و خودمختاری کے ساتھ جینا ،دنیا کے ہرانسان کا بنیادی اور فطری حق ہے۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ تبدیلی کہتے کسے ہیں؟

اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کلین شیو کی جگہ داڑھی والا اقتدار میں آجائے، پینٹ شرٹ کی جگہ شلوار قمیض والا اسمبلی میں پہنچ جائے،انگلش کی جگہ اردو بولنے والا الیکشن میں جیت جائے، سرخ رنگ کے پرچموں کی جگہ سبز رنگ والے پرچم چھا جائیں تو یہ سب ہماری سادگی اور کم فکری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تبدیلی کے مفہوم کو سمجھا ہی نہیں، یہ سب کچھ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ ایک کمرے میں کبھی سرخ رنگ کریں، کبھی سفید کریں، کبھی سیاہ کریں اور کبھی نیلا کریں لیکن اس سے کمرہ کشادہ ، کھلا اور آپ کی ضرورت کے مطابق وسیع نہیں ہو جائے گا۔

کمرے کے رنگ بدلنے سے کمرے کی گولائی، چوڑائی اور لمبائی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔آج ہماری سیاسی پارٹیاں حقیقی معنوں میں دیانت، شرافت، صداقت اور عدالت کھو چکی ہیں، ہر طرف لوگوں کے جذبات سے کھیلنے،بے اصولی اور دوسروں کو بے وقوف بنانے کا چلن ہے۔

ایک طرف جماعتوں کے سربراہ مشال خان کے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف جماعت کے سرکردہ لوگ اور کارکنان قاتلوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں، ایک طرف تعلیمی اداروں میں اسلامی کلچر کے نعرے لگائے جاتے ہیں اور دوسری طرف نعرے لگانے والوں کے ہاسٹلوں کے کمروں سے دہشت گرد برآمد ہوتے ہیں، ایک طرف تبدیلی اور غیر موروثی سیاست کی باتیں کی جاتی ہیں تو دوسری طرف ایک دوسرے کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے ۔

بحیثیتِ قوم یہ لوگ ہمارے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں اور ہمیں بے وقوف بناتے ہیں۔ اگر ہم اس ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ہمیں بلاتفریق تعصب اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اسلامی تعلیمات میں تبدیلی کے تین بنیادی عناصر ہیں:
۱۔ تمام بیت المال، زمینی، معدنی اور آبی ذخائر کو اللہ کی امانت سمجھا جائے
۲۔ تمام انسانوں کو بلا تفریق اللہ کے بندے اور غلام سمجھا جائے
۳۔ تمام ادیان و مسالک کو دینِ اسلام کے مطابق ہر طرح کی دینی و مذہبی آزادی دی جائے اور کسی کی دل آزاری نہ کی جائے

جب ہمارا سیاسی و مذہبی طبقہ تمام بیت المال اور زمینی ذخائر کو اللہ کی امانت سمجھے گا تو پھر امریکہ کے مفاد کے لئے بیت المال سے پیسہ دے کر لوگوں کے بچوں کو دہشت گردی کی ٹریننگ نہیں دے گا۔
جب معدنی اور آبی زخائر کو اللہ کی ملکیت سمجھا جائے گا تو کسی صوبے کا حق نہیں مارا جائے گا، جب تمام انسانوں کو بلا تفریق اللہ کے بندے اور غلام سمجھا جائے گا تو پھر موروثی سیاست کا تصور ہی ختم ہوجائے گا اور کوئی وڈیرہ ، کوئی بدمعاش اور کوئی لٹیرا لوگوں پر زبردستی حکومت نہیں کر سکے گا ، اسی طرح جب تمام ادیان و مسالک کو دینِ اسلام کے مطابق آزادی دی جائے گی تو کوئی مذہبی پنڈت کسی کی تکفیر نہیں کرے گا اور کوئی کسی کی عبادت گاہ کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔

آج ہمارے ہاں بنیادی مسائل ہی یہ تین ہیں، بیت المال اور زمینی ذخائر کو اللہ کی امانت سمجھنے کے بجائے ہمارے سیاستدان امریکہ اور یورپ کی امانت سمجھتے ہیں، اور ان قومی وسائل اور ذخائر سے اسلام کے دشمنوں کی خدمت کرتے ہیں جیسا کہ ٹرمپ نے صرف سعودی عرب کے ایک دورے میں اربوں کے تحائف حاصل کئے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کا بندہ سمجھنے کے بجائے اپنے اپنے خاندان ، شخصیات، پارٹیوں اور تنظیموں کا بندہ، غلام اور نوکر سمجھا جاتا ہے اور مختلف قسم کے پروپیگنڈوں کے ذریعے لوگوں کو باقاعدہ ذہنی غلام بنایا جاتا ہے۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تمام ادیان و مسالک کو دینِ اسلام کے مطابق آزادی دینے کے بجائے اپنے فرقے یا پارٹی کو مسلط کرنے کے لئے ساری حدود پھلانگ دی جاتی ہیں ۔ جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سانحہ راولپنڈی میں ایک فرقے کے لیڈروں نے ایک دوسرے فرقے کو دبانے کے لئے خود اپنے مدرسے کو آگ لگا دی اور اپنے لوگوں کو قتل کردیا۔

جب اس طرح کے مذہبی اور سیاسی لیڈر ہم پر حاکم ہیں تو اس وقت اس قوم کے سمجھدار اور باشعور لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو بیدار اور خبردار کریں۔

جوخوددوسروں کولوٹ کر کھاتے ہیں، جن کی زبان پر گالیاں ہیں ، جن کے دامن پتھروں سے بھرے ہوئے ہیں، جن کے دماغوں میں سازشیں اور فتنے ہیں،جن کی سوچوں میں تعصب ہے، جو فرقے اور صوبے کے نام پر بھائی کو بھائی سے لڑوا کر اور ایک دوسرے کو گالیاں دے کر نیز عوامی جذبات کو بھڑکا کر اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ، اُن سے کسی تبدیلی کی امید رکھنا حماقت ہے۔

ہمیں ابھی سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ا ٓنے والے انتخابات میں یہ فرسودہ پارٹیاں، یہ روایتی نعرے اور یہ غرب زدہ سیاسی و مذہبی لیڈر ہمارے ملک میں کوئی تبدیلی نہیں لائیں گے، ہم سب کو ان سب کا متبادل سوچنا ہوگا۔

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 64377 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.