لاہور:اپوزیشن کا فلاپ سیاسی شو……آئندہ الیکشن کے لیے ٹیسٹ کیس

ملک میں سیاسی صورتحال روز ایک نیا موڑ اختیارکرلیتی ہے۔ الیکشن میں چند ماہ باقی ہیں، اس کی تیاری کے لیے سیاسی جلسوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ ملک بھر میں جلسے، جلوس، دھواں دھار تقریریں، الزامات اور جوابی الزامات، دھرنے، احتجاج ، سیاسی ملاقاتیں، نئے اتحادوں کی تشکیل اور متحدہ اپوزیشن کے قیام کی کوششیں بھی جاری ہیں، جس میں آئے روز اضافہ ہوتا نظر آئے گا اور اس کا مرکز پنجاب ہوگا۔ آئندہ عام انتخابات کے لیے مہم عروج پر پہنچنے کے ساتھ یہ جنگ بھی اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی۔ آئندہ 5 ماہ میں پنجاب سیاسی جنگ کا حقیقی اکھاڑا ہوگا۔ یہ جنگ بنیادی طور پر ’’تخت لاہور‘‘ کے لیے ہوگی۔ پنجاب میں اقتدار کے لیے تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کی دیوانہ وار کوششیں تو قابل فہم ہیں، لیکن علامہ طاہرا لقادری کی پاکستان عوامی تحریک کو کیا فائدہ ہوگا، سمجھ سے بالاتر ہے۔ بدھ کے روز لاہور میں مال روڈ پر پاکستان عوامی تحریک نے ’سانحہ ماڈل ٹاؤن‘ کے شہدا کے حوالے سے جلسہ کیا ہے۔ انھیں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا تعاون بھی حاصل تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے بدھ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کے انصاف کے لیے سیاسی پاور شو کیا، اس احتجاج کا مقصد وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اﷲ کا استعفیٰ لینا تھا، مگر جلسہ کے اختتام پرحکومت کے خلاف لائحہ عمل سامنے آنا تھا، لیکن احتجاجی جلسے کا اختتام عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے استعفے کے اعلان پر ہوا۔ اس احتجاجی جلسے کو زور و شور سے حکومت کے خلاف بڑے خطرے کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، لیکن یہ احتجاجی جلسہ کوئی بڑا بریک تھرو کرنے میں ناکام رہا، بلکہ اس تحریک کے نتیجہ میں اپوزیشن کے اندر احتجاجی مقاصد کے حوالہ سے یکسوئی اور انتخابات سے پہلے حکومت مخالف بڑے اتحاد کا تاثر بھی ختم ہو گیا۔ پی ٹی آئی کے لاہور میں جلسوں کے حوالہ سے گہری نظر رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی ماضی میں تن تنہا اس سے بڑے اور جوش و جذبے سے بھرپور جلسوں کا انعقاد کرتی رہی ہے، مگر اب عوامی تحریک، پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی مل کر بھی ان بڑے جلسوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں ۔عوامی تحریک کے مال روڈ پر جلسے کے حوالے سے مختلف سول اور عسکری خفیہ ادارے مختلف اعداد و شمار بتاتے رہے، تاہم عوامی تحریک، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی جانب سے شرکاء کی تعداد کے مختلف دعوے کیے گئے، اس حوالے سے سپیشل برانچ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شرکاء کی تعداد 10سے 12ہزار ، پولیس کے مطابق یہ تعداد 11سے 13ہزار، انٹیلی جنس بیورو ساڑھے 12ہزار، دیگر عسکری خفیہ ادارے 14ہزار، سول سوسائٹی 16ہزار، جبکہ سول خفیہ اداروں کی جانب سے جلسے میں کرسیوں کی تعداد 14سے 16ہزار بتائی گئی، جس میں سے سینکڑوں کرسیاں خالی رہیں۔ لاہور میں اپوزیشن کے جلسے کی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے ترجمان چیئرمین تحریک انصاف نعیم الحق نے بھی کہا کہ تسلیم کرتا ہوں مال روڈ کا شو فلاپ تھا۔ انہوں نے کہا جلسے کا مقصد ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا تھا، مجموعی طور پر جو فیصلے کیے گئے، ان میں کچھ خامیاں رہ گئی تھیں، احتجاجی جلسے کا مقصد شہباز شریف اور رانا ثناء اﷲ کا استعفیٰ حاصل کرنا تھا، یہ ٹھیک ہے ہمارے کارکن اپنا جلسہ سمجھ کر نہیں آئے لیکن انصاف کے حصول کے لیے طاہر القادری کے ساتھ ہیں۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے کے دعووں کے ساتھ منعقدہ اجتماع میں حاضرین کی تعداد کے حوالے سے میڈیا کے بیشتر ذرائع میں اگرچہ ماضی کے متضاد دعووں کے برعکس پہلی بار یکساں طور پر مایوس کن تاثر نمایاں ہوا ہے، مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس اجتماع کو اپوزیشن کی تقریباً تمام ہی بڑی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی اور ان کے لیڈروں نے الگ الگ نشستوں میں جن خیالات کا اظہار کیا انہیں سننے کے لیے ان کے کارکن بھی الگ الگ اوقات میں آتے جاتے رہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری عمران خان اور آصف علی زرداری کو ایک جلسے کے اسٹیج پر لانے میں تو کامیاب ہوگئے، مگر ان کا پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے قائدین کو اپنے دائیں بائیں ایک ساتھ بٹھانے کا دعویٰ پورا نہ ہوسکا، جس سے یہ بات بالکل ثابت ہوگئی ہے کہ آصف علی زرداری اور عمران خان کے درمیان واضح اختلافات موجود ہیں اور مستقبل میں دونوں رہنماؤں کا ایک ساتھ ہونا مشکل ہے۔ اسٹیج پر اپوزیشن کے لیڈروں کی حاضری تو پوری تھی، مگر پنڈال خالی خالی رہا اور جو لوگ آئے بھی ان کے اندر جوش وخروش بھی نہیں تھا۔ وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ یہ بھانت بھانت کے لوگ تھے، جو گلی محلوں کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے۔ جنہیں ان کے لیڈر اپنے مخالفین کو نفرت کا ٹیکا لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، اب یکا یک ان کے درمیان محبت کے زمزمے تو نہیں پھوٹ سکتے تھے۔ نفرت اس امر سے بھی عیاں تھی کہ یہ لوگ مجبوری کی وجہ سے آ تو گئے، مگر جیسے ہی ان کے مخصوص لیڈر کی تقریر ختم ہوتی تو لیڈر بھی رخصت ہو جاتا اور ساتھ ہی اس کی پارٹی کے لوگ بھی گھر کی راہ لیتے۔ جلسے میں زرداری اور عمران کے لیے الگ الگ سیشن رکھنے کی وجہ سے بھی حاضرین کے دل مخالف لیڈروں سے اچاٹ ہو گئے۔ زرداری اور عمران خان ایک ساتھ اسٹیج پر جمع نہ ہوسکے۔ سیاست دان مولوی صاحبان کو تو طعنہ دیتے ہیں کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے، مگر زرداری ا ور عمران میں سے تو کوئی مولوی نہ تھا۔ انہوں نے متعصب مولویوں جیسا شیوہ کیوں اپنا لیا۔اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ بدھ کو لاہور میں ہونے والا احتجاجی جلسہ متاثر کن نہیں تھا ،جس میں ایک طرف عوام کی شرکت کی کمی اور دوسری جانب مختلف خیال جماعتوں کے مابین عدم اعتماد کی فضا دیکھنے میں آئی ہے ، جس کے اثرات آئندہ عام انتخاب پر پڑ سکتے ہیں۔

اس مشترکہ جلسے کے حوالے سے ایک اور چیز بھی سامنے آئی ہے کہ متفقہ حکمت عملی اور اعلانات کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی، جلسے کے پہلے مرحلہ میں سابق صدر آصف علی زرداری نے خطاب کیا اور سیاسی تکبر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں جب چاہوں حکومت کو گرا سکتا ہوں، مگر ان کے خطاب میں سابق وزیراعظم نواز شریف پر تنقید کے سوا مستقبل کا کوئی پروگرام نہیں تھا، ان کے بعد اس سارے عمل کے روح رواں اور عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی حکومت کے خلاف کوئی بڑا اور واضح اعلان کرنے میں نا کام رہے، جہاں تک عمران خان کی آمد اور تقریر کا تعلق ہے تو وہ بھی پنجاب حکومت خصوصاً وزیراعلیٰ شہبازشریف، سابق وزیراعظم نوازشریف اور پاناما کیس کے حوالہ سے گرجتے برستے نظر آئے، اس ساری احتجاجی تحریک کی واحد کامیابی دراصل شیخ رشید کا قومی اسمبلی سے استعفے کا اعلان تھا، جس احتجاجی تحریک میں مشترکہ حکمت عملی مقاصد میں یکسوئی اور یکجہتی کا یہ عالم ہو، وہ پنجاب کی حکومت اور خصوصاً وفاق میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے لیے اطمینان کا باعث ہی قرار دی جا سکتی ہے۔ اس جلسے سے پہلے پنجاب حکومت اور مسلم لیگ ن خاصی دباؤ میں تھیں اور ان کے بیانات سے پریشانی نظر آ رہی تھی، لیکن اس احتجاجی اجتماع میں عوام کی حد تک لاتعلقی اور جوش و خروش میں کمی کی وجہ سے صوبائی حکومت اور مسلم لیگ ن کو ریلیف ملا ہے۔اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ اپوزیشن کے لاہور جلسے نے اپنے لیے مشکل اور مسلم لیگ کے لیے آئندہ الیکشن میں آسانی پیدا کرتی ہے، کیونکہ ناکام جلسے سے یہ ثابت ہوگیا کہ عوام اپوزیشن کے ساتھ نہیں ہیں، اسی لیے اتنی جماعتیں مل کر بھی عوام کو جمع نہ کرسکیں۔ آنے والے انتخابات سے پہلے اس ناکام جلسے کو سیاسی قوتوں کا ٹیسٹ کیس ضرور قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ تحریک انصاف اپنی طے شدہ حکمت عملی کے تحت پہلے ہی احتجاجی روش اختیار کرتے ہوئے حکومت کو دباؤ میں رکھے ہوئے ہے اور اس کا مسئلہ یہ ہے کہ آنے والے انتخابات تک اس پالیسی پر گامزن رہنا ہے، جبکہ پیپلز پارٹی کو لاہور اور پنجاب میں کوئی پذیرائی ملنے کا امکان نظر نہیں آتا۔اس جلسے کے بعد انہیں پنجاب میں بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر محنت نہ کی تو اس کے نتائج تو اس جلسے سے ظاہر ہوہی گئے ہیں۔

اس جلسے کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے لیے یہ فائدہ مند بات بھی سامنے آئی کہ عمران خان نے جلسے میں پارلیمنٹ کے لیے غیرپارلیمانی الفاظ استعمال کیے، جس کی وجہ سے ایک طرف تو پی ٹی آئی اور عمران خان پر سخت تنقید کی جارہی ہے اور اس کے خلاف قرارداد منظور کرلی گئی ہے، دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو دھچکا لگا ہے۔ جب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پارلیمنٹ کے حوالے سے انتہائی غیر پارلیمانی زبان استعمال کی، جس سے یہ اْمید یں دم توڑتی جا رہی ہیں کہ ملک میں عام انتخابات سے قبل اپوزیشن جماعتوں کا کوئی منظم اور مستحکم اتحاد قائم ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق کارکنان کے شدید دباؤ کے باوجود آصف علی زرداری نے اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی تائید کی اور تحریک انصاف کے سر براہ عمران خان کے ساتھ ایک اسٹیج پر بیٹھنے کا عندیہ دیا۔ لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے تحت بدھ کو ہونے والا اجتماع اسی سلسلے کی کڑی تھی، لیکن عمران خان کے انتہائی نامناسب رویے اور پارلیمنٹ کے حوالے سے نازیبا جملوں کے استعمال کے بعد اب پیپلز پارٹی کے لیے بہت مشکل ہو گا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ کسی انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر غور کرے۔ لاہور میں بدھ کے روز متحدہ اپوزیشن کے جلسے میں عمران خان کی جانب سے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے پر گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں ارکان اسمبلی نے شدید ردِ عمل ظاہر کیا۔ ایوان میں عمران خان اور شیخ رشید کے پارلیمنٹ سے متعلق بیان کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے سوا تمام جماعتوں کے ارکان نے قرارداد کی حمایت کی۔جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے لیے لعنت کا لفظ چھوٹا ہے، جو لفظ کہنا چاہتا تھا وہ اس سے زیادہ سخت تھا۔ قومی اسمبلی میں عمران خان اور شیخ رشید احمد کے خلاف مذمتی قرارداد میں ساتھ دے کر پیپلز پارٹی نے نہ صرف عمران خان کے بیان کی مذمت کی ہے، بلکہ یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ انتخابی میدان میں اس طرح کی کسی جماعت سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرے گی۔ شیخ رشید اور عمران خان کے نا مناسب رویے اور پارلیمنٹ کے حوالے سے نازیبا جملوں کے استعمال پر مسلم لیگ (ق) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے میں تقریباً سوا چار ماہ رہ گئے ہیں اور امکان یہ تھا کہ اس سے قبل اپوزیشن کا کوئی بڑا اتحاد سامنے آئے گا اور اس ضمن میں طاہر القادری کی کوششوں کو اہم قراردیا جا رہا تھا، مگر اچانک پیدا ہونے والی تلخیوں نے ایک مرتبہ پھر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی اْمید توڑ دی ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 629515 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.