ادویات کی مفت فراہمی کے صرف دعوے۔۔اور ہسپتالوں کی حالت زار؟۔

یہ خبر یقیناً باعث تشویش ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ملک بھر میں رجسٹرڈ دواؤں کی قیمتوں میں سالانہ اضافے کا باضابطہ اعلان کردیا ہے، جس کی منظوری کابینہ نے بھی دے دی ہے، ڈائریکٹر ڈرگ پرائس کے مطابق وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد شیڈول دواؤں کی قیمتوں میں 2.08فیصد جبکہ نان شیڈول دواؤں کی قیمتوں 2.91فیصد اور 5روپے سے کم ادویات کی قیمت میں 4.16اضافہ کیا گیا ہے،پریشان کن امر یہ بھی ہے کہ ایسی دوائیں جو سالانہ اضافے کے بعد کم قیمت دواؤں کی فہرست سے نکل جائیں گی ان کی قیمتوں میں آئندہ سالانہ اضافہ شیڈول اور نان شیڈول دواؤں کے مطابق کیا جائے گا، واضح رہے کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ڈرگ پالیسی 2015کے مطابق کنزیومر انڈیکس پرائس کی سالانہ شرح کے مطابق کیا گیا ہے،تعجب ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے موجودہ چیف ایگزیکٹو افسر کی مدت ملازمت 28جنوری 2018کو ختم ہوگئی ہے انہیں حکومت نے 3سالہ کنٹریکٹ کی بنیاد پر مقرر کیا تھا، چیف ایگزیکٹو کی تعیناتی کے لئے مزید کوئی سمری تاحال وزیراعظم کو ارسال نہیں کی گئی ہے،کچھ عرصہ قبل وزارت کی جانب سے دو افسران کی سمری ارسال کی گئی تھی جو مسترد کردی گئی، دنیا کے اکثر ممالک میں طبی سہولتیں مع ادویات کے مفت فراہم کی جاتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ ادویات کی بڑھتی قیمتیں غربا کیلئے مسائل پیدا کررہی ہیں، حکومت کو چاہئے کہ طبی سہولتوں کی فراہمی کے لئے کوئی جامع پالیسی وضع کرے اور خصوصاً جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنے کے بجائے سبسڈی دے،جعلی ادویات کے فروخت کا کاروبار بہت تیزی سے فروغ پارہا ہے،اس کی روک تھام کیلئے بھی فوری اقدامات درکار ہیں، ضروری ہے کہ ادویات بنانے والی کمپنیوں پر بھی نظر رکھی جائے تاکہ وہ اپنے منافع میں اضافہ کرنے کیلئے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے سے باز رہیں،جسٹس میاں ثاقب نثار ایک متحرک چیف جسٹس ثابت ہوئے ہیں جو عدالتی نظام کو بہتر بنانے کیساتھ ساتھ عوامی مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرانے کیلئے سر گرم ہیں،ہفتے کے روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے ڈبے میں مضر صحت دودھ فروخت کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران کراچی اور حیدر آباد میں فروخت ہونے والے ڈبے کے دودھ کے لیبارٹری ٹیسٹ کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی، جس کا دو ہفتے قبل از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے حکم دیا تھا،پیش کی گئی رپورٹ میں چار کمپنیوں کے دودھ میں کیمیکل استعمال کئے جانے کا انکشاف ہوا۔اس رپورٹ کی روشنی میں اِن چار کمپنیوں کے ڈبے کے دودھ پر فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے جبکہ ایک کمپنی پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا،بنچ نے ٹی وائٹنر بنانے والی کمپنیوں کو ڈبے پر ’’یہ دودھ نہیں ہے‘‘ واضح طور پر تحریر کرنے کا حکم بھی جاری کیا،سماعت کے دوران ڈبے کا دودھ بنانے والی کمپنیوں کے وکلاء نے عدالت سے مہلت طلب کی جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ عوام کو غیر معیاری دودھ فروخت کر کے عوام کے پیسے اور صحت کی بربادی کے مر تکب ہو رہے ہیں۔چیف جسٹس کا جعلی دودھ بنانے والے مافیا کے خلاف اقدام لائق تحسین ہے، مگر ملاوٹ کا یہ سلسلہ محض چند شہروں تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے،جنوری 2016ء میں بھی دس کمپنیوں کے ڈبا دودھ کی فروخت پر ناقص اور غیر معیاری ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی تھی، مگر وہ کمپنیاں آج بھی عوام کو زہریلا دودھ فروخت کر رہی ہیں،ضرورت اِس امر کی ہے کہ وقتی پابندیوں کے بجائے تمام صوبوں میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ فوڈ اتھارٹیاں قائم کی جائیں، جو ایسے ملاوٹی مافیا کا ملک بھر سے قلع قمع کر سکیں۔پاکستان میں ہر روز 5ہزار سے زیادہ افراد بیماریوں اور حادثات کی وجہ سے مر جاتے ہیں پرائیوٹ ہسپتالوں کی بھی صورتحال کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے وہاں بھی روزانہ سینکڑوں افراد مر رہے ہیں جبکہ حکومت پاکستان کا دعوی ہے کہ اربوں روپے صحت پر پر خرچ کر رہے ہیں کبھی نرسیں ہڑتال پر ،کبھی ینگ ڈاکٹرز ہڑتال پر ،کبھی پیرا میڈیکل اسٹاف اور کبھی سینئر ڈاکٹرز بلیک میل کرتے نظر آتے ہیں ،ہر روز لمبی لمبی میٹنگ صحت کے مسائل پر ہوتی ہیں ،کبھی ان میٹنگوں میں گوروں کو بلا کر مدد لی جاتی ہے ،اور کبھی خود میاں صاحب اپنی دانش مندی کے جوہر دکھاتے ہیں ،کے پی کے میں کبھی ڈاکٹر ہڑتال پر ہوتے ہیں تو کبھی وزیراعلی کے پی کے مذاکرات کرتے ہیں ،پنجاب میں میاں شہباز شریف صاحب اور کبھی ان کے وزراء ااج تک کوئی کھلی کچری لگانے کو تیار نہیں کھلی کچری ایک چڑیا تھی جو کب کی اس ملک سے اڑ گئی ہے صرف پنجاب ہی نہیں سندھ میں ’’سائیں سرکار‘‘ کے اہسپتالوں میں ننھے منے بچوں کی وارڈ پر چوہے حملہ آور ہو کر ان کے نرم ونازک حصوں کو نوچ ڈالتے ہیں ،کے پی کے ،بلوچستان سمیت آزاد جموں و کشمیر ،گلگت بلتستان میں کوئی وزیر اعلی یا کوئی وزیر کسی بھی سرکاری ہسپتال کے باہر کھلی کچری تو لگا کر دیکھیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ لوگ کتنے بھرے بیٹھے ہیں ،آپ کی ترجیحات میں کیا صرف اور صرف موٹر وے اور اورنج ٹرین ،میٹرو بس ہے ،آپ کو پتہ نہیں ہے کہ جس کا نوجوان بھائی ،بیتا ،والد ،والدہ ،بہن،اور ماں وینٹی لیٹر نہ ملنے سے مر جائے وہ ساری عمر اس غم میں کو نہیں بھول پائے گا اسے تو ہسپتال کے نام سے خوف آئے گا ،جناب وزیراعظم پاکستان اور وزراء اعلی صاحبان ایک سال میں صرف سرکاری اور پرائیوٹ اہسپتالوں کا آڈٹ کرایا جائے کہ ایک سال مین کتنے افراد اہسپتالوں میں وینٹی لیٹر نہ ملنے پر ،ادویات نہ ہونے پر ،ڈاکٹروں کی غفلت سے ،غربت سے ،بروقت طبی امداد نہ ملنے پر ،نرسوں کی عدم توجہی سے کتنے مریض اور زکمی چل بستے ہیں ،اورنج ٹرین ،میٹرو بس ،موٹروے منصوبے درست فیصلے نہیں ہیں ابھی بھی وقت ہے کہ ان منصوبوں کو روک کر ان پیسوں سے نئے سرکاری اور جو پہلے سے قائم ہیں ان اہسپتالوں کو اپ گریڈ کیا جائے ،جناب وزیراعظم پاکستان اور چاروں وزرا ء اعلی ، اے جے کے اور گلگت وبلتستان کے کرتا دھرتا سے آپ کے علم میں ہو گا کہ اب آپریشن تھیٹر ز اسٹیل باڈی کے بنائے جاتے ہیں تا کہ انفیکشن نہ ہو،یہ آپریشن تھیٹرز بغیر مشنیری آلات کے دس سے بیس لاکھ روپے میں تیار ہو جاتے ہیں کینسر کی تشخص کے لئے Betاسکین میشنری صرف چالیس کروڑ روپے کی آتی ہے ،ایک جدید ترین آپریشن تھیٹر ز ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے میں تیار ہوتا ہے،آج سرکاری اہسپتالوں کے حالات بدترین ہیں جبکہ حکومت پاکستان سمیت چاروں صوبائی حکومتیں بھی غلط بیانی پر لگی ہوئی ہیں ،میاں محمد نوز شریف اور چاروں صوبائی وزرا ء اعلی آپ صرف ایک بار بھیس بدل کر صرف ایک دفعہ ہماری درخواست پر کسی بھی سرکاری ہسپتال میں مریض بن کر جائیں آپ بھلے پاکستان کے تمام تاریخی مقامات گرا دیں اب ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں مگر میاں صاحب خدارا اہسپتالوں کے معاملات کو درست کریں ، اب آپ میاں صاحب 70برس بعد فرما رہے ہیں کہ محکمہ صحت کے نظام کو درست کرنے کے لئے ریٹائرڈ کرنلوں اور میجروں کو لے کر آ رہے ہیں جن کی تنخوائیں ایک لاکھ 30ہزار روپے ماہانہ مقرر کر دی گئی ہے آپ نے پورے پنجاب میں27سیٹوں کے لئے سپورٹ منیجر کے عہدے کے لئے بی اے /بی ایس سی تعلیمی قابلیت رکھنے والے ریٹائرڈ کرنلوں اور میجروں سے درخواستیں طلب کی ہیں ، اور ان کی عمر کی حد55برس رکھی گئی ہے اور تنخواہ میں بھی اضافہ مزید ہو سکے گا ،اس سے قبل میاں صاحب آپ نے ہسپتالوں کے لئے ایم بی اے پاس ایم ایس لگانے کا منصوبہ بنا چکے ہیں ،محکمہ صحت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے گریڈ 19،19کے دو دو سیکرٹری لگا چکے ہیں،ڈی جی ہیلتھ بھی گریڈ 19کے ہیں جبکہ یہ سیٹیں گریڈ20کی ہیں ،کم گریڈ کے افسران کو بڑے گریڈ کی سیٹوں پر بٹھانا بھی آپ کی حکومت کی شاندار روایت ہے تاکہ یہ افسر آپ کے احسان مند رہیں، وزیر اعظم پاکستان نے آزاد کشمیر میں قومی صحت پروگرام شروع کرتے ہوئے فرمایا کہ غریبوں کی زندگی میں اب سکون آنا چائیے ،پاکستان میں سب اچھا ہو گا ،غریب علاج کے لئے جائیدادیں نہیں بیچیں گے اورغریبوں کی فلاح وبہبود میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گیاور وہ سیاست کو سیاست نہیں عبادت سمجھتے ہیں ،میاں محمدشہباز شریف ہمیشہ ایسی خوبصورت باتیں اور اعلانات کرتے ہیں مگر حقیقت میں عوام کو کیا ملتا ہے یہ سب جانتے ہیں ، ادویات کی مفت فراہمی کے صرف دعوے۔۔اور اہسپتالوں کی حالت زار؟۔۔۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43689 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.