یوم یکجہتی کشمیر۵ فروری اپنی بلندیوں پر!

پاکستان اور دنیا میں یوم یکجہتی جموں وکشمیر سال ۱۹۹۲ء سے ہر سال تسلسل سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن امت مسلمہ اور کشمیری مسلمانوں کے پشتی بان مرحوم قاضی حسین احمد صاحب سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان کی اپیل پر پہلی دفعہ ۱۹۹۲ء میں منایا گیا تھا ۔پھر اُس وقت پاکستان کی صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے اِسے یاد گار دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا جس کاتسلسل بھارتی کے ناجائز قبضے سے آزادی کشمیر تک انشاء اﷲ جاری رہے گا۔

کشمیر تاریخ کے آئینہ میں اورہندوؤں کے عزائم:۔مورخوں کے نزدیک کشمیر دو ہزار قبل مسیح ؑ میں اس قابل بنا کہ یہاں انسان آباد ہو سکیں۔ اس سے پہلے کشمیر پانی کی جھیل تھی۔ کسی نے کہاکشمیر سے مراد کشید کی گئی، یعنی جس زمین سے پانی خارج کیا گیا ہو۔ کسی نے اسے بنی اسرائیل کے ساتھ جوڑا اور کہا کہ کشمیری بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑیں ہیں۔جنت نظیرکشمیرجھیلوں،چشموں،دریاؤں،کوہساروں، قدرتی عجائبوں اور باغوں کا دیس ہے۔ بقول شاعر:۔ اگر دنیا میں کہیں جنت ہے تو وہ کشمیر ہی ہے۔ اس کی تاریخ درد ناک اور عبرت انگیز ہے۔ یہ ریاست صدیوں سے مسلمانوں کے زیر حکمرانی رہی ہے۔ ایک کروڑ پچاس لاکھ سے زائد کی آبادی کی یہ ریاست گذشتہ ڈیڑھ صدیوں سے استعمار کے جبر میں پس رہی ہے۔ ایشیاء کے قلب اور ہمالیہ کے دامن میں دنیا کی کوخوبصورت ترین وادی ہے۔ کئی جنگوں کی تباہ کاریوں دیکھ چکی ہے ۔ ہنسا کے پبجاری اس پر ظلم ،بربریت اوردہشت کا سماں بنائے ہوئے ہیں۔ کشمیریوں کوٹارچر سیل میں اذیتیں دی گئیں۔الٹا لٹکا کر کھالیں اُڈھیڑی گئیں۔ دانت توڑنے گئے۔بجلی کے جھٹکے دے دے کر نوجوانوں کو ہمیشہ کے لیے معذور کر دیا گیا۔ جیلوں میں قید نوجوانوں کو زہر دے کر ان کی زندگی کوعبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر ذہنی مریض بنا دیا گیا۔ہزاروں عزت مآب خواتین کی اجتما عی آبروریزی کی گئی۔ بے قصور وں کی اجتماعی قبریں بنائی گئیں۔ جو اب ۳۸ کی تعداد میں دنیا کے سامنے آئی ہیں۔لاتعداد نوجوانوں کو لاپتہ کر دیا گیا۔ سینکڑوں کو عقبوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔ کہیں اگر وادی کہہ کر اور کہیں دہشت گرد کہہ کر جعلی مقابلوں کے ذریعے شہید کیا گیا۔ کشمیریوں کی مساجد اور مزارار تباہ کر دئیے گئے۔گن پاوڈر ڈال کے کھربوں کی پراپرٹیز جلا کر خاکستر کر دی گئیں۔باغات ،مکانات اور دوکانیں جلا کر راکھ کا ذھیر بنا دیں گئیں۔لا تعداد کشمیریوں کو پاکستان میں دکھیل دیا گیا۔ ہزاروں بیرون ملک ہجرت کر گئے ۔ ظلم ،سفاکیت اوردہشت ہے کہ ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہی۔تشدد ہے کہ آئے دن بڑھ رہا ہے۔ بھارت کے سامراجی عزائم کا دائرہ صرف کشمیر یا پاکستان تک محدود نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ تک پھیلا ہوا ہے۔ ہندوؤں کا دعویٰ یہ ہے کہ تا ریخ کے کسی دور میں بھارت کی برہمنی حکومت جزیرہ نمائے عرب تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور خانہ کعبہ دراصل ہندوں کا مندر تھا جس میں رام اور کرشن کے بت رکھے ہوئے تھے۔ بعد میں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے آکر ہندوؤں کے اس مندر کو کعبہ میں بدل دیا۔ لہٰذا ہندوؤں کو چاہیے کہ وہ اپنے اس مندر وکو دوبارہ حاصل کریں۔․․․اسی طرح یہودیوں کی پارلیمنٹ کے ماتھے پر کندہ ہے کہ ’’ اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے دجلہ تلک ہیں‘‘ یہ ہیں یہود وہنود کی پلائنگ جس سے امت مسلمہ غافل ہے۔ اندرا گاندھی نے وصیت کی تھی کہ میر ی میت کی راکھ کشمیر کے پہاڑوں میں اُڑا دینا۔ اس کی موت کے بعد ایسا ہی کیا گیا۔چانکیہ ذہنیت کے مطابق، ہندوستان کے رائے شماری کے وعدے اور ان کاطرز عمل ان کی منافقت کی نشان دہی کرتا ہے۔کشمیر کی فروخت اورمہاراجہ کے مظالم:۔۱۸۴۶ء میں رسوائے زمانہ’’معاہدہ امرت سر‘‘ کے تحت انگریزوں نے جموں و کشمیر کو ۷۵ لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض جموں کے سکھ راجہ گلاب سنکھ کو فروخت کیا تھا۔جس پر گرفت کرتے ہوئے شاعر اسلام مفکر پاکستان علامہ شیخ محمد اقبالؒ نے کہا تھا:۔
دہقان وکِشت وجود خیابان فروختند
قومی فروختندوچے ارزاں فروختتند۔

مہاراجہ کشمیرمسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتاتھا۔مہاراجہ کے دور میں مسلمانوں سے بیگار لی جاتی تھی۔ان کو مزدوری بھی صحیح نہیں دی جاتی تھی۔مہاراجہ مسلمانوں پلیج سمجھتا تھا۔ تعصب کی انتہا تھی کہ جس سڑک سے مہاراجہ کی سواری گزرتی تھی اگر اس راستے سے کسی مسلمان کاگزر ہو جاتا تو اس سڑک کو مہاراجہ دلواتا تھا۔مہاراجہ کی سفاکیت کی وجہ سے تقریباً۲۵۰ سال پہلے کثیر تعداد میں کشمیریوں نے موجودہ پاکستان کی طرف ہجرت کی تھی۔ اس ہجرت میں راقم کا مظلوم خاندان بھی شامل تھا۔ ڈوگرہ مہاراجہ کے دور میں جیل کی چاردیواری کے اندر آذان دیتے ہوئے۲۱کشمیری، ایک وقت میں آذان مکمل کرتے ہوئے شہید کئے گئے۔ڈوگروں نے زندہ کشمیریوں کی کھا لیں اُتاری تھیں ۔اس کی یاد گار اب بھی آذادکشمیر کے ضلع باغ میں موجود ہے۔

تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت کشمیر پاکستان کا حصہ:۔جموں وکشمیر پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اسی لیے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔اس کے لیے کارگل کی جنگ ملا کر چار جنگہیں ہو چکی ہیں۔۷۰سال سے دنیا اور اقوام متحدہ کے ضمیرکو یہ مسئلہ دستک دے رہا ہے۔ کب دنیا کا ضمیر جاگتا ہے اور انصاف کرتا ہے۔ کشمیری ساری عمر اس کا انتظار کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ برصغیرہند وپاک میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے سیاسی جدوجہد سے مملکت پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔برصغیر کی تقسیم اس فارمولے کے تحت ہوئی کہ جن صوبوں میں ہندووٗں کی اکثریت ہے وہ علاقے بھارت میں شامل ہونگے ا ور جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان میں شامل ہونگے۔اس فارمولے کے تحت کشمیر پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا۔مگر برطانیہ اور بین ا لاقوامی سازش کے تحت ایسا نہ ہو سکا۔ اس کا اظہار خود برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے دورہ پاکستان میں اپریل ۲۰۱۱ ء میں اس بات اعتراف کیا ہے کہ بھارت ؍پاکستان کشمیر تنازہ برطانیہ کا پیدہ کردہ ہے اس کی نیوز رپورٹینگ ڈیلی ٹیلگراف نے ۷؍ اپریل ۲۰۱۱ ء میں کی ہے۔ ریڈ کلف ایوارڈ نے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پٹھان کوٹ اورگرداس پور کو ہندوستان میں شامل کر دیا جبکہ کے اس کی کثیر آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔وہ اس لیے کیا گیا کہ ہندوستان کو کشمیر کا واحد زمینی راستہ مل جائے۔ یعنی درہ دنیال سے راستہ۔ یہ سازش ان لوگوں نے کی جو دنیا کو سچائی کا سبق سکھاتے ہیں یعنی برطانیہ بہادر۔ ریڈ کلف کے سابق سیکر ٹیری اور سول سروس کے ایک اعلیٰ افسر جو حقیقت آشنا اور چشم دیدگواہ تھے، نے اپنے یاداشتوں میں لارڈ مائنٹ بیٹن کی غیر منصفانہ پالیسیوں سے اختلاف رائے ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لارڈ ماوٗنٹ بیٹن نے نہ صرف تقسیم کے وقت مروجہ قوانین کو توڑا بلکہ سرحدوں کے لیے انہوں نے ریڈ کلف پر باقاعدہ دباوٗ بھی ڈالا۔لکھتے ہیں کہ مجھے چالاکی سے ایک ظہرانے میں شرکت سے روک دیا گیا جس میں ماوٗنٹ بیٹن اور ریڈکلف نے ایک مسلم اکثریتی علاقے گرداسپور کو جو کشمیر کو بھارت سے ملانے والا واحد زمینی راستہ ہے ،پاکستان کے بجائے بھارت میں شامل کنے کا فیصلہ کیا۔

کشمیر اخلاقی،ثقافتی، تہذیبی،علاقائی طور پر پاکستان کا حصہ:۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت کشمیر اخلاقی،ثقافتی،تہذبی اور علاقائی طور پر پاکستان کا حصہ ہے۔پاکستان اور کشمیر کی ثقافت اور تہذیب اور علاقہ آپس میں ملتے ہیں۔کشمیر کے سارے دریا پاکستان کی سمت بہتے ہیں۔ سارے زمینی راستے سوائے درہ دنیال کے کشمیر سے پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ واحد راستہ درہ دانیال سازش کے ذریعے ہندوستان کو دیا گیا تھا۔مذہبی طور پر بھی کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ ۹۰ فی صد مسلمان کشمیر میں رہتے ہیں۔

تہذیبی طور پر بھی ایک جیسے لوگ اس خطے میں رہتے ہیں ۔ان کا کلچر، ان کی زبا ن ایک، ان کے رہنے سہنے کے طر یقے ایک، شادی بیاہ کے طریقے ایک جیسے ہیں۔

کشمیر پر بھارتی قبضہ اور موجودہ آزادکشمیر:۔بھارت مہارجہ کشمیر ہری سنگھ سے ایک جعلی معاہدے کا سہارا لے کر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے۔جبری الحاق کا ڈرامہ جو ۲۶؍اکتوبر۷ ۱۹۴ء میں بھارتی حکمرانوں، ریاست کے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ اور ریاست کشمیرمیں نیشنل ازم کے بانی اور علمبردار شیخ عبداﷲ کے باہمی گٹھ جوڑ سے رچایا گیا تھا۔ اس کی نہ کوئی آئینی حیثیت ہے یہ ہی اخلاقی و قانونی حیثیت ہے۔ ممتاز برطانوی مورخ اور دانشور پروفیسر السٹر لیمب اپنی کتابkashmir.the disputed legacyمیں انتہائی مضبوط اور ناقابل انکار دلائل کے ساتھ جعلی ثابت کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ پاکستانی مجائدین جب سری نگر کے قریب پہنچنے گے تو مہاراجہ ہری سنگھ ۲۶ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کوزمینی راستے سے جموں فرار ہوا۔وہ ۲۶؍۱کتوبر ۱۹۴۷ء رات ۱۲؍ کے بعد تک جموں نہیں پہنچ سکا۔بھارتی نمائندہ وی پی مینن جو دستاویز الحاق پر دستخط لینے کے لیے جموں آئے ہواتھا انتظار ختم کر کے واپس دہلی چلا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جعلی معاہدے پر دستخط تک نہیں ہو سکے۔ تقسیم ہند کے بعد۱۹۴۷ ؁ء میں جب ہندوستان نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے کشمیر کے دار لخلافہ سری نگر میں اُتارنی شروع کیں توقائد اعظم ؒ نے فوج پاکستانی فوج کے اُس وقت کے انگریز کمانڈ رجنرل گریسی کو بھارت کی جارحیت کے خلاف اور آزادی کشمیر کے لیے کشمیر پر حملے کا حکم دیا توسازشی انگریزکمانڈر نے قائد اعظم ؒ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ۔ پاکستان کے عام مسلمانوں نے ہندوستان کی سازش کو سمجھا اورفوراً کشمیر کی طرف مارچ شروع کیا۔ صوبہ سرحد(موجودہ خیبرپختونخواہ)کے قبائل نے پاکستانی فوج کی مدد کی ۔پاک فوج اور قبائل نے موجودہ آزادکشمیر کا ۳۰۰ میل لمبا اور ۳۰ میل چوڑا حصہ پر قبضہ کر لیا۔ گلگت بلتستان کو مقامی کمانڈروں نے آزاد کروا لیااور ڈوگرہ انتظامیہ کو علاقہ بدر کر دیا۔پاک فوج اور قبائل سری نگر تک پہنچنے والے ہی تھے کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست پیش کر دی ۔اقوام متحدہ نے جنگ بندی کروائی اور فیصلہ کیا کہ حالات ٹھیک ہونے کے بعد کشمیریوں سے ان کی رائے معلوم کی جائے گی کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا ہندوستان کے ساتھ۔اقوام متحدہ نے اپنے مبصر جنگ بندی لین پر تعینات کیے جو ابھی تک موجودہیں۔بعد میں جنگ بندی لین کو شملہ معاہدے کے تحت کنٹرول لین بنا دیا۔

اقوام متحدہ میں بھارتی وزیر اعظم کی جنگ بندی کی درخواست اور رائے شماری کا وعدہ:۔کشمیری مجائدین سری نگر پہنچنے والے تھے کہ مکار بنیا دبھاتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرومسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں خود لے کر گیا۔ درخواست کی جنگ بند کر دی جائے۔ امن بھال ہونے پر کشمیریوں کو اس بات کا حق دیا جائے گا کہ وہ بھارت کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس وعدے پر پاکستان اور بھارت راضی ہوئے اور اقوام متحدہ نے رائے شماری کی بات منظور کرتے ہوئے جنگ بند کرا دی۔ پھرمسئلہ کشمیر کے لیے سلامتی کونسل نے ۵؍ جنوری ۱۹۴۹ء کو کشمیریوں کے حق میں حقِ خود اداریت کی قراداد منظور کی تھی۔ جس کو کشمیری۶۸ سال سے اسی نام سے مناتے ہیں ۔ سلامتی کونسل کی آج تک جوں تک نہیں رینگی۔ اور مسئلہ کشمیر وہیں کا وہیں ہے۔جموں کشمیر پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ بھارت نے ہماری شہ رگ پر قبضہ کیا ہوا۔جس وقت چاہے بارش کے موسم میں پانی چھوڑ دے اور پاکستان میں سیلاب آجائے۔ پانی روک کو پاکستان کو پنجر بنا دے۔ اس کے لیے کارگل کی جنگ ملا کر چار جنگہیں ہو چکی ہیں۷۰ سال سے دنیا کے ضمیرکو یہ مسئلہ دستک دے رہا ہے کب دنیا کا ضمیر جاگتا ہے اور انصاف کرتا ہے۔ کشمیری کہتے ہیں ہم ساری عمر اس کا انتظار کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔آخر برطانیہ کے آئر لینڈ والوں نے سو سال جدو جہد کے بعد آزادی حاصل کی۔

اقوام متحدہ مغرب کی لونڈی کا کشمیر اور مسلمانوں سے تعصب:۔آج۷۰سال ہوگئے ہیں مگر ہندوبھارت اوراقوام متحدہ مغرب کی لونڈی نے رائے شماری کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ دوسری طرف اسلامی ملک انڈونیشیا کے حصے بخرے کرتے ہوئے عیسائی آبادی والے جزیرے میں فوراً استصواب کروا کے عیسایوں کی حکومت قائم کروا دی۔ اسلامی ملک سوڈان کے وارفر علاقہ جس میں عیسایوں کی آبادی ہے۔ ریفرنڈم کے ذریعے ایک عیسائی ریاست قائم کر دی واہ رے اقوام متحدہ تیرہ انصاف! یہ کشمیری مسلمانوں اقوام متحدہ کا تعصب نہیں تو پھر کیا ہے؟

جدو جہد آزدی کشمیر کی موجودہ پوزیشن:۔کشمیریوں نے بھارت کے سیکولر نظام کے تحت ہونے والے کئی ڈھونگ انتخابات سے مایوس ہو کر بندوق اٹھائی۔ بھارتی سفاک قابض فوجیوں نے ۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک ایک لاکھ سے زاہد کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔ اب جاری تازہ مہم میں نہتے کشمیر ی بھارتیوں کی بندوقوں کا پتھر سے مقابلہ کر رہے ہیں جب کشمیریوں کے بچے،نوجوان اور عورتیں ٹینکوں کے مقابلے میں پتھر اٹھا لیں تو سمجھ جائیں کہ اس قوم کی آزادی قریب آ گئی ہے۔بھارت پیلٹ گنز چلا کر سیکڑوں کشمیریوں کا اندھا کر چکا ہے۔ پرامن مظاہروں میں شریک نہتی بچیوں کی چوٹیاں کاٹ رہا ہے۔ کشمیریوں کا کہنا ہے بھارتی کتوں ! ہمارے و طن سے نکل جاؤ۔ ہم پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔اپنے وعدے پورے کرو۔ بذریعہ استصواب ہمیں آزادی دو۔ کئی کئی ہفتوں تک کرفیو لگا رہتا ہے۔ لوگوں کو جمعہ کی نمازتک نہیں پڑھنے دی جاتی۔ لوگ پریشان ہیں۔ لیکن ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے آزادی تک جدوجہد جاری رہے گی۔ بیمار۸۰ سالہ سید علی گیلانی صاحب تحریک کی کمانڈ کر رہا ہے ۔اس کا عزم بہت بلند ہے۔ ظلم و ستم کی وجہ سے ہر سال پانچ فروری کا دن ہمیں مقبوضہ کشمیر کی یاد دلاتا رہتا ہے ۔ کشمیر میں ہرچھٹے کشمیری کے پیچھے ایک بھارتی فوجی لگا ہوا ہے ۔دنیا کی تاریخ میں آٹھ لاکھ فوج کبھی بھی کسی ایک محاذپر دشمن کی فوجوں کے آمنے سامنے نہیں آئی۔ مگر نہتے کشمیریوں کے خلاف یہ آٹھ لاکھ فوج صرف اور صرف ان کا بنیادی حق خودارادیت چھیننے کے لیے برسرِ پیکار ہے۔ کشمیری سالہ ہا سال سے پانچ فروری کو پاکستان کے جھنڈے لہراتے رہتے ہیں۔ آٹھ لاکھ بھارتی درندہ فوج ان پر گولیاں برساتی رہتی ہے۔ مگر وہ نعرہ مستانہ بلند کرتے رہتے ہیں ’’ہم کیا چاہتے ہیں آ زادی‘‘․․․ ’’ آزادی کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ‘‘ ہم پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں‘‘اس طرح ہر سال کشمیری یوم تکمیلِ پاکستان مناتے رہتے ہیں۔ اور بھارتی فوج ان پر گولیاں برساتی رہتی ہے۔ اس طرح لاکھوں کشمیری شہادت کے رُتبے پر فائز ہو چکے ہیں۔ لاتعداد مسلمان خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ عربوں روپے کی املاک گن پاوڈر ڈال کر تباہ کر دی گئیں۔ہزاروں نو جوانوں کوآپاہج بنا دیا گیا۔ ہزاروں لوگوں کو غائب کر دیا گیا۔ مقدس مقامات کی بیحرمتی کی گئی۔،لاتعداد لوگوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ کشمیریوں کے باغات کو تباہ کیا گیا۔۳۸مقامات پر اجتما عی گمنام قبروں کی دریافت ہوئیں۔ بھارت کا مکروہ چہرہ اور بھارتی فوج کا بھیانک کردار سامنے آچکا ہے۔ شہیدوں کے قبرستان گواہی دے رہے ہیں کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔وہ ہر سال یوم اسلامی جمہوریہ پاکستان کادن مناتے ہیں نہ کہ یوم جمہوریہ ہندوستان․۔قائد اعظم محمد علی جناح ؑ بانیِ پاکستان کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اگر کشمیریوں کی جدو جہد سے کشمیر آزاد ہو کر پاکستان سے مل جاتا ہے اور پاکستان مکمل ہوتا ہے تو یہ امت مسلمہ کی پشت بانی کرے گا۔ اس لیے بھارت کشمیر پر خاصبانہ قبضہ بر قرار رکھنا چاہتا ہے اور یہودی اور انگریز اس کی مدد کرتے ہیں۔ بھارت کشمیر کے دریاؤں پر بند بنانے کی خوفناک منصوبوں پر عمل کر رہا ہے تاکہ پاکستان کا پانی بند کر دیا جائے۔ وہ خشک سالی میں مبتلا ہو جائے۔ اور بارشوں کے زمانے میں اوپر سے پانی چھوڑ کر سیلاب کی کیفیت پیدا کر دی جائے ۔لہٰذا پاکستان کے دانشوروں اور سیاستدا نوں کو بھارت کی امن کی آشا کے نام سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ بھارت کی تاریخ ہے وہ کہتا کچھ ہے کرتا کچھ ہے ۔ بغل میں چھری اور منہ پر رام رام والا مسئلہ ہے۔وہ اپنے مفکر اور دانشور کوٹلیہ چانکیہ کے اس قول پر عمل کرتا ہے کہ ’’ جب تم اپنے دشمن کو مارنا چاہو تو اس سے دوستی پیدا کرو اور جب اسے مارنے لگو تو اسے گلے لگاؤ اور جب مار چکو تو اس کی لاش پر آنسو بہاؤ ۔یہ المیہ ہے کہ پاکستانی قوم یوم یکجہتی کشمیر پاکستانی قوم منا رہی ہے اور پاکستانی حکومتیں بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے اور آلو پیاز کی تجارت کی باتیں کرتیں ہیں۔یہ تحریک کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھوپنے کے برابر ہے۔ اس لیے تحریک آزادی کشمیر کے۸۰ سالہ قائد جناب سید علی گیلانی صاحب نے حکو مت پاکستان کے اس اقدام کو کشمیر دشمنی قرار دیا ہے۔ پاکستان یہ کام کرنے کے بجائے پہلے بھارت سے کشمیر کو متنازہ علاقہ تسلیم کروانا چاہیے۔اُدھر مولانا فضل الرحمان صاحب جیسے شخص کو کشمیر کمیٹی کا ہیڈ بنایا ہوا ہے جو کشمیر کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہا صرف فاہدے اُٹھا رہا ہے۔

آزادی جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا مقدر:۔کشمیر پاکستان کانامکمل ا یجنڈا ہے۔کشمیر کی تحریک ،تحریکِ پاکستان کا تسلسل ہے۔ کشمیری پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔کشمیری اپنا آج، کل کے پاکستان کے لیے نچھاور کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں جو تقسیم برصغیر کے فارمولے اوربین الاقوامی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ اس لیے کشمیر کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے وہ ہے جہاد فی سبیل اﷲ․․․ہندوستان ایک ایک کر کے پاکستان دشمن اقدام کرتا جا رہا ہے وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اس لیے حکومت اور پاکستانی قوم کمر کس لے اور کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد فی سبیل اﷲ شروع کردے اور دل کھول کر کشمیری مجاہدین کی عملی مدد کرے ورنہ تاریخ پاکستانی حکمرانوں اورعوام کو معاف نہیں کرے گی․کشمیر کی پشتی بان جماعت اسلامی نے ہمیشہ کی طرح اس سال بھی پاکستان اور دنیا میں یوم یکجہتی کشمیر۵ فروری کواپنی بلندیوں پر منانی کافیصلہ کیا ہے۔اﷲ کشمیریوں کی مدد فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1118 Articles with 948955 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More