کیا ڈاکٹر شاہد کو سزا دینی چاہیے؟

جس ملک میں تین دفعہ بننے والا سابق وزیراعظم میاں نواز شریف صبح وشام اپنے ملک کے اداروں پر جھوٹ اور توہین کے الزامات لگا رہاہو ، جہاں پر وہ اپنی کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے دنیا کے ٹاپ شخصیات میں شامل ہو کر پناما میں نام آنے کے بعد عوامی اجتماعات، ٹی دی تقریر اور پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں جھوٹ بول کرحقائق کو چھپا رہا ہو، ایک سال سے زائد عرصے میں سپریم کورٹ میں 22,21 ممالک میں اپنی جائدادوں اوربنک اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات دینے کی بجائے صرف ایک قطری خط عدالت میں پیش کریں وہاں پر کوئی دوسرا ثبوت اور دلائل ختم ہوجائے صرف پروپیگنڈہ اور الزامات رہ جائے اور تحقیقات میں معلوم ہوجائے کہ پہلے اور واحد اسلامی ملک ، دنیا میں ساتویں ایٹمی قوت اور چھٹی بڑی فوج کے سربراہ وزیراعظم پاکستان دبئی کا شہری اور نوکر ہے اور جس کمپنی میں نوکر ہے وہ بھی اپنے بیٹے کے نام پر ہیں جس میں ہر مہینے اربوں روپے کی ڈانزیکشن ہوتی ہے اور وہ کمپنی کوئی کاروبار نہیں بلکہ صرف پیسوں کی حساب کتاب رکھتی ہے اور ان پیسوں کی جس کا وزیراعظم نواز شریف کے پاس کوئی جواب نہیں کہ یہ اربوں روپے کہاں سے آتے ہیں جس پر ان کو نااہل کرکے وہ سوال کرتا ہے کہ مجھے کیوں نکلا۔ مجھے اس جرم کی سزا ملی کہ میں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی۔ اس ملک میں عام سیاست اور وزراء غلط بیانی اور جھوٹ نہ بولے تو آور کیا سیاست کریں ۔ اسی طرح ہر دن کوئی نہ کوئی الزامات اور جھوٹی خبریں ہمارے ٹیلی وژن کی رونق بنتی ہے ،پیمرا خاموش اور سفارشیوں پر مشتمل ہو وہاں کوئی بھی اینکر یا رپورٹر سنی سنائی باتوں پر نہ صرف خود یقین کرتا ہے بلکہ اپنے یقین اور بھروسے کے لیے وہ خبر یں اور افواہ پوری دنیا کو بھی سنانا شروع کرتا ہے۔

قصور میں افسوسناک واقعات پہلے بھی ہوتے رہیں بلکہ ملک بھر میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں لیکن کسی کو انصاف نہیں ملتا جبکہ قصور تو اب ایسے واقعات کے لیے مشہور ہی ہوگیا ہے۔ وہاں پر ایک درجن بچوں سے زیادتی اور قتل عام پر نہ صرف وہاں کی پولیس خاموش اور لاپروا رہی ہے بلکہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے ممبران کو بھی کوئی پریشانی نہیں رہی کہ کل ہمارے بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے وہاں زینب کے قتل پر لواحقین کے احتجاج نے میڈیا کو بھی مجبور کیا کہ وہ رپورٹ کر یں اور چیف جسٹس نوٹس لے تو واقعے نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی وہا ں پر خبروں اور سنسی خیزی کے دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت کے لیے ایسے ہی واقعات اور تبصروں کو بیان کرنا شروع ہوجاتے ہیں کہ جیساکہ یہ ملک میں پہلے واقع پیش آیا ہو یا اس واقعے میں کوئی بین الاقوامی سازش کی گئی ہو وہاں ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھی کچھ ایسا بیان کر ڈالا کہ ملزم عمران علی کی 40نہیں بلکہ 80سے بھی زیادہ اکاؤنٹس ہے اور یہ ایک عالمی گروپ کے ساتھ وابستہ ہے جو ایسے کام کرتا ہے۔اس بیان پر چیف جسٹس نے بھی نوٹس لیا اور ڈاکٹر صاحب نے بھی پوری قوم اور میڈیا کی توجہ حاصل کرلی لیکن ہم جیسوں کو اس وقت بھی گمان یہ تھا کہ قصور میں پکڑے جانے والا عمران علی اگر اتنا طاقتور اور اثرو رسوخ والا ہوتا تو آج قصور میں نہیں بلکہ لند ن اور امریکا یایو رپ کے کسی آور ملک میں چلا گیا ہوتا لیکن ڈاکٹر شاہد کے اس بیان پر ہمارے بعض سینئر صحا فیوں اور حکومتی وزرا کی جانب سے بہت ہی سخت ری ایکشن آیا کہ یہ صحافت نہیں اور ڈاکٹر صاحب ہمیشہ ایسے ہی جھوٹی کہا نیاں سناتے ہیں جس نے مزید سنسنی پھیلا دی کہ آخر حقیقت کیا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی زیادہ تر تجزیے یا خبرے اگر جھوٹی نہیں توکم ازکم اس میں بڑھاچڑھا کر پیش ضرور کیا جاتا ہے جس کی شاید یہ وجہ بھی ہو کہ وہ ملک میں عوام کے جذبات کو سمجھ گیا ہے کہ عوام حکومت مخالف خبروں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں لیکن اس سے زیادہ وہ اپنے آپ کو صحافی نہیں بلکہ تنقید نگار سمجھتا ہے کہ میرا کام ہے میں حکومت کے خلاف بات کرو ان کی پالیسیوں پر خوب تنقید کرو۔ جہاں موقع ملے وہاں کسی بھی حکومت کو خوب کردار کشی کرو ۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے پیپلز پارٹی دور میں بھی خوب ان پر تنقید کی اور آج سندھ میں بھی پی پی پی کی داستانیں عوام کو سناتا ہے آج مسلم لیگ کی حکومت پر تنقید وہ خوب بڑھا چڑھا کر کرتا ہے جس کی وجہ سے ان کو کئی دفعہ پیمرا سے جرمانہ اور ٹی وی پر شو بند بھی کرانا پڑا لیکن ڈاکٹر شاہد باز نہیں آئے ۔ ڈاکٹر شاہد کے الزامات پر چیف جسٹس بھی سیخ پا تھے کی اگر الزامات ثابت نہ کرسکیں تو سزا کیلئے تیار ہوجائے جبکہ ہمارے بعض سینئر صحافیوں نے ڈاکٹر شاہد پر خوب تنقید بھی کی اور ان سے اگلا پچھلا تمام حساب برابر کیا ۔ لیکن حقیقت کچھ آور ہے ایک تو ڈاکٹر شاہد کو ایسے باتیں کم ازکم ٹی وی پر نہیں کرنی چاہیے جس کا ان کے پاس صحیح ثبوت نہ ہو لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ معاملہ صرف ڈاکٹر شاہد کا نہیں بلکہ ڈاکٹر شاہد وہی ہے کہ جب وہ ان بڑے چینلز پر بیٹھے اس وقت ایسے پروگرام کیا کرتے تھے اور آج بھی وہ نہ صرف اس طرح باتیں کر رہاہے بلکہ بہت سے صحافی اور اینکر بلکہ گروپ جھوٹی اور الزامات کی خبریں نشر کرتے ہیں۔ بعد میں اگر کسی نے احتجاج یاعدالت نے نوٹس لیا تو یہ لوگ بعد میں اس کی غلطی نشر یا اخبار میں چھاپ لیتے ہیں ۔ ایسے خبروں کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ پیمرا کو آزاد اور خودمختار کیا جائے ۔ عدالت ایسے کیسز میں جلدفیصلے کر یں اور ملوث افراد اور اداروں کو سخت سزا اور باری جرمانے عائد کریں تو پھر آئے روز نا ہمارے ان سیاستداتوں کو جھوٹ اور الزامات کا سہارا لینا پڑے گا اور نہ ہی کسی صحافی اور ادارے کو جھوٹی خبریں اور پروپیگنڈے کی مہم پر پیسے ملیں گے۔ زیادہ تر وہ لوگ ڈاکٹر شاہد مسعود کی کردار کشی یا ان کو ٹی وی پر بند کرنے اور بعض کی نزدیک سزائے موت اور عمربھر کیلئے جیل میں بندکرنے والے خواہشمند بھی ہمیشہ جھوٹی خبریں اور تبصرے کرتے رہے ہیں ۔ ڈاکٹر شاہد مسعود اگر ایسے خبریں دیتا ہے تو ان کے فالوراور پسند کرنے والے بھی ایک دن ان کی سچی خبر اورتجزیہ پر بھی اعتبار نہیں کریں گے ۔ اب تو معاملہ کمیشن میں چلا گیا جس کا مطالبہ ہے کہ معاملہ ختم نہیں توکم ازکم پیچھے ضرورچل گیا لیکن ڈاکٹر شاہد تو اپنے آپ کو صحافی نہیں بلکہ تنقید نگار سمجھتا ہے لیکن ہمارے جو صحافی ،سیاست دان الزامات ، بے بنیادہ خبریں اور پروپیگنڈے کرتے ہیں ان کے لئے بھی کوئی سسٹم ہونا چاہیے کہ ان کا بھی احتساب ہو۔ ویسے معذرت کے ساتھ آج کل صحافت کم اور ایجنڈا زیادہ اہم ہوگیا ہے جس کیلئے عوام کو خود احتساب کرنا چاہیے کہ کون کس کے ایجنڈے پر کام کررہاہے۔

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 203140 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More