نعیم یاد کی افسانوی کتب کا تجزیاتی مطالعہ

نعیم یاد جدید اُردو اَفسانے کا معتبر حوالہ ہیں۔نعیم یاد نے اپنے اَفسانوں میں زندگی کی مختلف جہات کو پیش نظر رکھا ہے۔ ان کے اَفسانوں میں زندگی اپنی پوری رنگا رنگی کے ساتھ موجود ہے۔ نعیم یاد کے اَفسانوں میں موضوعات کے حوالے سے بڑا تنوع ہے۔ انھوں نے معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے مختلف طبقات کے افراد کی حرکات و سکنات کو بے نقاب کیا ہے۔ ان کے اَفسانے ہمارے معاشرے کے ذہنی، جذباتی، معاشرتی اور فکری رجحانات کا آئینہ ہیں۔نعیم یاد کا مشاہدہ بڑا گہرا ہے۔ وہ چھوٹی سے چھوٹی بات کو نہایت فنی ہنر مندی سے پیش کرتے ہیں۔ عمیق مشاہدے کی بنا پرنعیم یاد نے چھوٹے چھوٹے موضوعات کی بھی اس طرح مربوط انداز میں عکاسی کی ہے کہ اَفسانہ نگاری کا حق ادا کر دیا۔نعیم یاد کا اَفسانوی فن معاشرے کے ساتھ پیوست ہے۔ وہ قومی، معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی مسائل پر قلم اٹھاتے ہیں۔نعیم یاد نے دیہات کی سادہ و معصوم زندگی کے تمام پہلوئوں کو بڑے فنکارانہ انداز سے پیش کیا ہے۔ انھوں نے دیہاتیوں کے احساسات و جذبات اور وہاں کے رنگا رنگ قدرتی مناظر کو پوری رنگینی کے ساتھ ابھارا ہے۔ جن کے پڑھنے سے دیہات کی پوری تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔

نعیم یاد کا پہلا اَفسانوی مجموعہ ’’اِک خواب جو ٹوٹ گیا‘‘(۲۰۱۴ء) ہے۔اس مجموعے میں شامل افسانے نعیم یاد کے ابتدائی دور کے ہونے کے باوجود فنی پختگی لیے ہوئے ہیں۔سب سے بڑھ کر اس مجموعہ میں شامل منی افسانے یعنی افسانچے قابلِ ذکر ہیںان افسانچوں میں اسلوب و تکنیک کی جدت کے ساتھ موضوعات کا زبردست تنوع ملتا ہے۔ خاص طور سے طبقاتی ، کشمکش ، عریبی ، ناداری اور افلاس سے پیدا ہوئے مسائل پر بڑے خوبصورت افسانچے ملتے ہیں۔کتاب کے حرف آغازمیں نعیم یاد لکھتے ہیں:
افسانچوں کا یہ مجموعہ میری پانچ سال کی محنت ہے۔گو پہلی تصنیف"آؤپیارکے دیپ جلائیں پھر"کے
بعدادبی سفر جاری رکھا۔دل و دماغ کی طنابیں بہت دورتک دوڑتی رہیں۔مگرنہ جانے کیوں افسانچوں
پہ جاکے یہ خیال پختہ تر ہوتاگیا کہ اس کو کتابی صورت دینی چاہیے۔ (۱)
نعیم یاد نے اس کتاب میں معاشرے کی کئی دکھتی رگوں کو چھیڑاہے سب سے بڑھ کرمعاشرے کے اس طبقے پہ جنھیں ہمارے ہاں کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں نعیم یاد انھیں اپنے قلم کے ذریعے ہر فرد تک ان کے احساسات پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔غریب طبقہ کی ناداری اور مفلسی پر طنزیہ انداز میں ان کا ایک افسانچہ ’’ترقی‘‘ملاحظہ فرمایئے:
’’آج شہر کے اُس حصے میں ایک بہت بڑے ہوٹل کا افتتاح تھا جہاں چند ماہ پہلے بھوک سے بے حال ایک بچے کی لاش ملی تھی۔۔۔۔‘‘(۲)
اس افسانچے میں بڑا گہرا طنز چھپا ہوا ہے۔ محمدنعیم یادؔکے یہ چھوٹے چھوٹے افسانچے سماجی حقیقت نگاری کا بہترین عکس پیش کرتے ہیں۔اس کے علاوہ بھی دیگر موضوعات کو مختصر لفظوں میں محمدنعیم یادؔنے بڑی ہنر مندی سے اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ پڑھنے والے کو چونکا کر یوں جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں کہ افسانچہ کے اختتام کے ساتھ ہی ایک طویل کہانی قاری کے ذہن میں شروع ہو جاتی ہے۔یہی دراصل افسانچے کا فن ہے۔
محمدنعیم یادؔ نے اپنے افسانچوں میں اپنے اطراف کے ماحول کی بھی خوب عکاسی کی ہے۔ زندگی کے دوڑتے بھاگتے لمحات کو ان میں قید کر دیا ہے۔ نہایت مختصر لفظوں میں کہانی پن کے ساتھ افسانچوں کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان کے قابل ذکر افسانچوں میں فراقِ محبت،ادھورے خواب،سکوت،خوشیوں کے میلے،محبت،ایک خلا،یادیں،افسانۂ زندگی،ہمدردریاں،گمنام،اپناگریبان،زیرِتعمیر،اگلامسافروغیرہ شامل ہیں۔ ان کی یہ مختصر کہانیاں موضوعات کے اعتبار سے حد درجہ متنوع ہیں اور موضوعات کی رنگارنگی کے ساتھ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بڑے اچھے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ان موضوعات کے ساتھ انہوں نے معاشرے کی بے اعتدالیوں پر بڑی گہری چوٹ کی ہے۔ مثال کے طور پر ان کا ایک منی افسانہ دیکھئیے۔
ایک بہت بڑے گھر میں شانداردعوت تھی جہاں کئی طرح کے پکوانوں کی خوشبو اُٹھ رہی تھی۔
رات گئے تک رونق میلا لگارہا۔دسترخوان سجے رہے۔۔۔۔
اگلے دن صبح ہی صبح کئی بچے شاپر اُٹھائے اس گھر کی طرف دوڑے یہ کہتے ہوئے جا رہے تھے:۔
جلدی چلو کہیں جانور ہم سے پہلے نہ پہنچ جائیں ورنہ بچاکھچاوہ سب خراب کردیں گے۔۔۔۔۔۔(۳)
نعیم یاد نے اس مجموعہ میں دیہاتی زندگی کے کونے کھدروں سے بھی کچھ بڑی اچھی کہانیاں چنی ہیںجن کے موضوعات روزمرہ زندگی کی ہلاکت خیزیوں سے عبارت ہیں۔ انھوں نے دیہاتی معاشرت کے غریب اور متوسط طبقے کے ان لوگوں کو جو ہمیشہ چودھریوں اور ساہوکاروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں کو بھی موضوع بنایا ہے۔’’ساون کی پہلی بارش‘‘مجموعہ میں شامل ایک ایسا افسانہ ہے جو ایک غریب بے کس لڑکی شازو کی کہانی ہے جس کے با پ کو چودھری ساون کی پہلی بارش میںبیگارپہ لگا دیتا ہے وہ گھر میں بادلوں کی گرج سے ڈرتی ہے اس کی پڑوسن اس کے پاس آکر اسے دلاسہ دیتی ہے اور اس کی ماں کی باتیں چھیڑ دیتی ہے:
’’خالہ میرابڑادل کرتاہے۔میں اماں کو کبھی ایک باردیکھ لوں۔میں اللہ سے اکثردعاکرتی ہوں
مجھے ایک بارماں سے ملوادے پھربے شک مجھے دوبارہ اس دنیا میں بھیج دینا۔‘‘ (۴)
بارش کازور بڑھتا ہے توگھر کی دیوارگرنے کی وجہ سے شازو اس دیوار کے نیچے آکر مر جاتی ہے۔
’’چھت جو پہلے ہی ٹپک رہی تھی ایک طرف سے دیوارکاسہاراجوگراتو وہ بھی ظالم بھیڑیے کی طرح
نیچے آگری اوراس کی چینخیں معدوم ہوتی گئیں۔دینو کی بیوی بھاگتی ہوئی وہاں پہنچی مگر مٹی کے ملبے
سے اُٹھتی گرداور کیچڑمیں اس کو کچھ دکھائی نہ دیا۔
اس کی آنکھوں تلے جیسے اندھیراچھاگیاایک ایک قدم من من کا ہوگیاوہ نہ جانے کہاں سے طاقت
لائی کہ آوازنکال سکے اوراس نے چینخ کر کہاشازو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگرآگے سے ایک مکمل سکوت۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (۵)
افسانے کا اختتام انسانی رشتوں کے ساتھ ساتھ طبقاتی تضاد، منافقت اور خیر و شر کی بے توقیری کو بیان کر تا ہے۔جہاں ایک طرف غریب لڑکی مر جاتی ہے جب کہ دوسری طرف:
دوسری طرف چودھری کے ہاں ڈھول اورماہیوں کی آوازاوربلندہورہی تھی۔۔۔۔۔۔(۶)
مجموعہ میں شامل افسانہ ’’پچھلی رُت کی بہار‘‘ ایک ایسے دیہاتی شخص کی کہانی ہے جو گاؤں سے شہر آبستا ہے اورگاؤں سے تعلق واجبی سے رہ جاتا ہے۔اس کی بیوی شہر کی پڑھی لکھی خاتون ہے جودیہاتی ماحول کو بالکل پسند نہیں کرتی جس کی وجہ سے وہ اپنی گاؤں کے ساتھ محبت کو اس کے سامنے اظہارنہیں کرسکتا۔مگر افسانے بڑی خوبصورتی سے اختتام پذیر ہوتا ہے جب اس کی بیوی اس کے سامنے اس گاؤں سے آنے والے کاذکر کرتی ہے اوراسے خود گاؤں لے جاتی ہے:
’’ یہ ٹھیک ہے مجھے گاؤں پسندنہیںمگرمجھے انسانوںسے محبت ہے۔آپ سمجھتے تھے مجھے
کچھ پتہ نہیںمگرمجھے سب پتہ تھا وہ خطوط آپ سے پہلے میں پڑھاکرتی تھی اورپھر ان کو دوبارہ سے
بندکرکے رکھ دیتی تھی،اس نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھااورکہا’’آپ کے ایک ایک خط
کاجواب ان کوملتارہااب سوچاآپ کاڈائری کاناٹک ختم ہی کردیں۔‘‘ (۷)
’’پتھرروتے ہیں‘‘نعیم یاد کودوسراافسانوی مجموعہ ہے جس میں نعیم یاد نے اپنے افسانوی اورافسانچوی فن کاکھل کر اظہارکیا۔اس مجموعہ میں دس افسانے اورایک سواٹھارہ افسانچے شامل ہیں۔اس مجموعہ کے حرفِ آغازمیں نعیم یاد لکھتے ہیں:
کسی مصنف کی ایسی تحریروں کا مقصد قاری کو صرف وقت گزاری یا وقت پر گرفت حاصل
کرنے کا بہانہ دینا نہیںہوتابلکہ لکھنے والے کا تحریر میں کوئی نہ کوئی نقطۂ نظر پوشیدہ ہوتا ہے۔ (۸)
اس مجموعہ میں بھی انھوں نے حقیقت نگاری کی روایت کو قائم رکھا تاہم اس روایت میں عمومیت نہیں پائی جاتی بلکہ یہ قدرے ایک بلند سطح سے ہمکنار ہوئی۔ یہاں بھی موضوع دیہاتی معاشرت میں بکھری بھوک، فرد کی خارجی اور داخلی زندگی، جسمانی اذیت اور کیفیت وغیرہ کی نمائندگی کی ہے۔ اس حوالے سے اس مجموعے میں شامل افسانوں میں’’پتھرروتے ہیں‘‘،بازگشت،مٹی کی مورتیں،حصار،آخری خط اوراُچی جائی نیوں لگایا‘‘ اہم ہیں جن میں دیہاتی رسم و رواج، میلوں ٹھیلوں، طبقاتی تقسیم اور دیہی ماحول کی عکاسی اس انداز سے کی ہے کہ ہر چیز نمایاں ہوتی ہے اور شاید ہی دیہی معاشرت کی ثقافت کا کوئی پہلو پس پردہ رہ گیا ہو۔
افسانہ ’’پتھرروتے ہیں‘‘میںچودھری شریف مرکزی کردارہے جس کا بیٹاایک غریب لڑکے کو قتل کردیتاہے اوربعدمیں اثرورسوخ کی وجہ سے خود سزاسے بچ جاتا ہے۔افسانے میں ایک کردارشاہ جی کا بھی ہے جس کے ذریعے نعیم یاد نے افسانے میں چھپے اہم مقصدکو بتانے کے لیے بڑاخوبصورت اندازاپنایا:
’’جب تک انسان اللہ کے قریب رہتاہے اس کی ڈور کا فاصلہ اپنے رب کے قریب ہوتاہے
تب تک وہ بڑی خوب صورتی سے اپنی زندگی کی اُڑان طے کرتا ہے۔ جب وہ ڈھیل لے
کے اونچی سے اونچی اڑان اڑنے کی کوشش کرتاہے تو پھر اس پہ نصیحت کا اثرایسے ہی ہوتا
ہے جیسے اب میرے ان جھٹکوں کااس پتنگ پہ۔جب یہ اوراوپر اُڑتی جائے گی تو میرے
جھٹکوں کااثر اس پہ بالکل ختم ہوجائے گایہاں تک کہ یہ خودبخودکٹ جائے گی اورپھر اس
کی کوئی منزل نہیں ہوگی۔کسی کیکریاخاردارجھاڑی پہ جاگرے گی یاہواہی میں پھٹ جائے گی۔‘‘ (۹)
شاہ جی کے اس کردار کے ذریعے نعیم یاد نے چودھری کا نجام دکھا کر معاشرے میں انصاف فراہم کرنے کی راہ ہموارکرنے کی بہترین کوشش کی ہے:
’’اس سے پہلے کہ میں کوئی اورسوال کرتا اچانک باہر کے دروازے سے میلاکچیلا
پھولوں سے سجاسہرامیری گودمیںآگرامیںنے فوراًباہر دیکھاچودھری شریف ہنس
رہاتھا’’سکندر،اپناسہراسنبھال،اورجلدی کربارات جانے والی ہے۔پھروہ زور زورسے
ہنسنے لگامجھے اس کی ہنسی سے خوف آنے لگادفعتاًاس کی ہنسی خوفناک آوازوں میں تبدیل
ہونے لگی اورپھر آنسوؤںکی لڑی اس کے رخسارتک پہنچنے لگی اوروہ دوسری جانب چل دیا۔
میں نے باہر نکل کے دیکھاتوکئی ملازم اسے زنجیروںمیں باندھے حویلی میں لیے جارہے
تھے۔پتنگ شاید کسی کیکرکے کانٹوں میں پھنس چکی تھی۔‘‘ (۱۰)
نعیم یاد کی دیہی ماحول سے گہری وابستگی اور دیہاتی لوگوںکی سادگی ان کے افسانہ ’’آخری خط ‘‘ میں ابھر کر سامنے آتی ہے۔جس میں شہر کے ماحول سے اکتائے افسانے کا مرکزی کردارتایاجان اپنے بھتیجے کے ساتھ گاؤں جاتا ہے جہاں پہ اس کی محبت کا بھید اس کے سامنے کھلتا ہے۔اس افسانے میں دیہات کی عکاسی بڑی خوبصورتی سے سامنے آتی ہے:
سرسبز کھیتوں کے بیچوں بیچ ایک راج بہاتھا جس پہ چلتے ہوئے وہ مجھے اپنی گزشتہ زندگی
کے بارے میں بہت کچھ بتارہے تھے۔کھیتوں کاسلسلہ ختم ہواتو آگے ایک وسیع میدان تھاجس
کے اردگردپانی کے کئی جوہڑبن چکے تھے انھیں دیکھتے ہی وہ بولے جانتے ہو یہاں پہ میلا لگتا تھا۔
اورمیلے کے تین چاردنوں کی یادیں پوراسال ذہنوںمیں نقش رہتی تھیں۔ (۱۱)
اس مجموعہ میں شامل دسواں افسانہ منشایاد کے نام ایک خط ہے جس میں نعیم یاد نے ملک کے نامورافسانہ نگاروڈرامانویس منشایادکے ساتھ اپنی والہانہ محبت کو افسانوی روپ دینے کی کوشش کی ہے۔اس خط میں وہ ان کے مشہورناول’’ٹاواں ٹاواں تارا‘‘ کے حوالے سے معاشرے کے مسائل کو پیش کرکے منشایادکے فن کی داداحسن طریقے سے دیتے ہیں:
’’ ذہانت، حب الوطنی، ہمدردی و ایثار کے پیکر کے پیکر کو اس معاشرے کے ناسور عوامل جن
میں جھوٹے پیر، وڈیرے، زرد صحافت کے علمبردار، بے کردار سیاستدان مل کر مٹی پھنکوا
دیتے ہیں اور پتھر چبوانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔‘‘ (۱۲)
’’پتھرروتے ہیں‘‘میں شامل افسانچوں میں نعیم یاد نے جہاں ڈھکے چھپے پہلوؤں کو اپنے قلم کی روشنی سے اجاگر کیاوہیں انسانی نفسیات کی گتھیوں کو سلجھایا۔ان کہانیوں میں واقعات بھی ہیں اور حادثات بھی اور کہیں کہیں ایسا دھچکہ لگتا ہے کہ قاری تھوڑی دیر کے لیے ان کی تاثیر اور ان کے غم کے بھنور سے نکل نہیں پاتا ہے جیسے اس کے خیالات کی ڈور تھوڑی دیر کے لیے یہ سوچ کر رک جاتی ہے کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟
’’جاڑے کی رُت میں جب وہ شہرکی مشہوردُکان سے شاپنگ کرکے باباکے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے لگی
تو اس کی نظر اُس لڑکے پہ پڑی جو اتنی سردی کے باوجودپھٹے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھا ایک لمحے
کو اس کوتھرتھری سی آئی اوراس نے لڑکے سے پوچھا:’’اے کیا تجھے سردی نہیں لگتی‘‘
نہیں !بس بھوک لگتی ہے۔اس نے معصومیت سے جواب دیا۔‘‘ (۱۳)
نعیم یاد کے افسانے سچی ادبی تخلیقات ہیں اس لیے یہ افسانچے ذاتی طور پر بھی چونکاتے ہیں ۔ان کے افسانچے محدب شیشے ہیں جن کے ذریعہ انسان کی ذات اور شخصیت کے باریک اور دھندلے نقوش بھی واضح اور صاف دکھائی دیتے ہیں:
’’امیر باپ جب گھر آیااوربیٹے کو اپنا سبق یاد کرتے ہوئے دیکھاتو پیارسے اپنے پاس بلایااورکہنے لگا’’کیاپڑھ رہے ہو بیٹاذراہمیں بھی تو سناؤ؟‘‘
بیٹا’’باباآج سبق ’’مساوات‘‘یادکررہاتھاکہ ہم سب ایک ہیں کسی امیرغریب میں کوئی فرق نہیں۔بڑاوہ ہے جو تقویٰ کے لحاظ سے آگے ہو‘‘
باپ نے بیٹے کی بات سنی اوراگلے ہی دن بیٹے کو انگریزی سکول میں داخل کرواتے ہوئے بولا’’ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ چلناچاہیے یہی مساوات ہے۔‘‘(۱۴)
’’بے نام مسافتیں‘‘ ۲۰۱۷ء میں شائع ہونے والا نعیم یاد کاتیسراافسانوی مجموعہ ہے جو اسلوب اور تکنیک کے اعتبار سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم ان فن پاروں میں بھی دیہاتی زندگی کی معاشرت اور اس کے کردار پیش کیے گئے ہیں۔ جو جیتے جاگتے کردار ہیں اور اپنے ماحول و عہد کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر دیہی زندگی و معاشرت کے تحت زندگی بسر کرنے والے انسانوں کی معصومیت اور سادہ لوحی کی عکاسی کی گئی ہے ۔
’’زندگی کے روز و شب کا کڑوا کسیلا ذائقہ ، مسافتوں کی آبلہ پا ء ، بورژواء نظام کی مضطر ب حیرانیاں ،
بھوک کے سسکتے مناظر میری فکری سفر کے وہ نمونے ہیں جنھیں میں نے اس کتاب میں من وعن
دکھانے کی کوشش کی ہے۔‘‘ (۱۵)
اس مجموعہ میں کل چوبیس افسانے شامل ہیں۔ ان افسانوں میں ایک ڈرامائی کیفیت موجود ہے اور ہر افسانہ ڈرامے کا ایک سین معلوم ہوتا ہے۔ مجموعہ میں شامل پہلا افسانہ ’’چپ‘‘ہے جو کہ تقسیم ہند اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے فسادات کے پس منظر کو پیش کرتاہے۔
’’ہری سنگھ کی اپنی آنکھیں اشکبارتھیں۔اس نے اباجی کے کندھے پہ ہاتھ رکھااورکہا
’’ہم سب ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ایک دوسرے کی خوشی غمی
میں شریک رہے ہیں۔آپ کے بال بچے ہمارے بچے ہیں۔پر اس تقسیم سے اب
یہ سب ممکن نہیں رہا۔تم لوگ جتناجلدی ہوسکے یہاں سے چلے جاؤمیں آپ کو بس
یہی کَہ سکتاہوں۔‘‘ (۱۶)
مائی روشاں اس افسانے کا مرکزی کردارہے جو تقسیم کی کہانی اپنی زبانی سنارہی ہوتی ہے۔نعیم یاد نے اس افسانے میں ماحول اورمکالموں کوکچھ اندازسے پیش کیا ہے کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے جیسے وہ مائی روشاں کے سامنے بیٹھ کے اس کی کہانی خود سن رہاہو۔
’’اس وقت کوئی کسی کا دکھ سننے والا نہ تھاہر کوئی اپنا دکھ لیے پھرتاتھا۔‘‘ (۱۷)
اس مجموعہ میں شامل کئی افسانوں میں نعیم یاد نے جہاں دیہی پسِ منظر کو اجاگر کیا وہیں انھوں نے مختلف لوک گیتوں کے ذریعے بھی اپنے افسانوں کو سجانے کی کوشش کی ہے نئی نسل تک پرانے گیتوں اورپنجابی صوفیانہ کلام کوافسانوں کے ذریعے پہنچانابھی نعیم یادکا اہم کارنامہ ہے:
’’لڑکیاںگھر میں شادی کے گیت گارہی ہوتیں۔لڑکے جب ان کی آواز سنتے تو مقابلے
میں باہر سے اونچی آوازمیں گیت گاتے،پھر گیتوںکاایک دلچسپ مقابلہ شروع ہوجاتا۔
ایک رات جب وہ ہمارے ساتھ بیٹھاتھاتو لڑکیوں کے گانے کی آوازباہرتک آرہی تھی۔
اس کی چچازادبہن نے اس کا پسندیدہ گانا’’دلاںدی میلیاں تے چن جیاں صورتاں۔۔۔
ساڈے کولوںچنگیاں نے مٹی دیاں مورتاں‘‘گایا تو وہ دوڑ کران کے پاس جا کے سننے لگا۔
لڑکیوں نے اسے دیکھ کر شورمچاناشروع کردیا۔یہ ان کی جیت تھی کہ دولہالڑکوں کوچھوڑ کر
لڑکیوں کی ٹولی میں گانے سننے آبیٹھا تھا۔‘‘ (۱۸)
نعیم یاد کے افسانے گاؤں میں پلنے والے سچے اور پیارے رشتوں کا بھی خوبصورت عکاس ہے ۔ایک سادہ لوح باپ گاؤں میں رہ کر شہر میں پڑھنے والے بیٹے کے لئے اُداس ہوتا ہے۔اور ہر وقت اس کی آمد کا انتظار کرتا ہے ۔
’’مجھے اچھی طرح سے یادہے جب پہلی دفعہ مجھے پڑھنے کے لیے شہر جاناپڑااس دن وہ
بہت خوش تھے پر اندرہی اندرجیسے میرے جانے کا دکھ انھیں گھائل کرتا جارہاہو۔میرے
کئی دوست یاررات بھر میں میرے ساتھ رہے ۔اِدھر اُدھر کی باتوں کے ساتھ ساتھ
گانوںاورماہیوںسے میرادل بہلاتے رہے۔اباجی ہمیں خوش دیکھ کے ہماراساتھ دیتے
رہے۔ٹھنڈزیادہ تھی اباجی اُٹھتے اورہمارے لیے دودھ گرم کر کے لاتے۔صبح جب وہ مجھے
اسٹیشن تک چھوڑنے پہنچے تو ان کی آنکھیں بتا رہی تھیںکہ وہ کافی دیرروتے رہے ہیں مگر میرے
پوچھنے پہ انھوں نے بتا یاکہ کئی دنوں سے ان کی آنکھیں خراب ہیں۔ (۱۹)
’’لرامتی مٹی‘‘ مجموعہ میں شامل ایک اہم افسانہ ہے جس میں ایک سادہ لوح دیہاتی نوجوان’’مانے‘‘کے کردارکو پیش کیا گیا ہے جو اپنی سادہ مزاجی اورنادانی کی وجہ سے پورے گاؤںمیں مشہورہے۔گاؤںمیں اپنی عزت بڑھانے کے لیے وہ ہر بارکوئی نہ کوئی ایساکام کرنے کی کوشش میں رہتا ہے جس سے پورے گاؤں میں اس کی شہرت ہو۔ایسے میں وہ گاؤں کے ملک حیدرعلی کی غیر موجودگی میں پھرسے ایک نیا کارنامہ سرانجام دیتا ہے:
صبح کا سورج نکلاتو وہی ہواتھا جس کااس نے سوچاتھا ۔پورے گاؤں میں اس مٹی کی باتیں ہو
رہی تھیں۔کرامتی مٹی اوروہ بھی مانے کے پاس،میںنہیںمانتاہرکوئی یہی بات کررہاتھا۔ (۲۰)
نعیم یاد نے دیہات کی سادہ و معصوم زندگی کے تمام پہلوئوں کو بڑے فنکارانہ انداز سے پیش کیا ہے انہوں نے دیہاتیوں کے جذبات و احساسات اور وہاں کے رنگا رنگ قدرتی مناظر کو پوری رنگینی اور جزئیات کے ساتھ ابھارا ہے وہاں کے کھیت کھلیان ،چوپال ،رہٹ ،سادہ وصاف گھر ،جلسے جلوس ،میلے ،عوام کی خلوص دلی گویا ہر چیز پر ہماری نظر اس طرح پڑتی ہے جیسے ہم انھیں وہیں کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہیں۔
’’اس کے بچے نئی موسیقی کے دلدادہ تھے مگر اس کے ذہن میں ابھی تک گاؤں میں ہونے والے مداری
کے تماشے،ڈگڈگی کی آوازپر ناچنے والے ریچھ بندر کی جوڑی،چمٹے کے ساتھ گائے جانے والی جگنی ،
دھنیے کی دھن دھن،آٹاچکی کی ٹوہ ٹوہ،خراس کی گھمرگھمراورپنگھٹ کی چرخی کی روں روں کی آوازیں آبادتھیں۔
جب کبھی وہ شہرکے اندربڑے بڑے جلسے جلوسوںکودیکھتاتواس کی آنکھوں کے سامنے گاؤں کی کبڈی ،بیاہ ونگار
کے ڈھولوں کی گھمکارپہ ناچتے لوگ آجاتے۔شہر کے بڑے بڑے پلازوں میں ڈیک میں چلنے والے گیت
اور گاؤں میں جیٹھ اوراساڑھ کے مہینوں میں لگنے والے عرسوں اورمیلوں کی یاد دلاتے۔اس کے کانوں میں
ڈیک پہ چلنے والے پوپ میوزک کی بجائے سرکسوں ،تھیٹروں اورموت کے کنوؤں کے باہر بجتے فلمی گیتوں
کے بول،اورنئے شوکے ٹکٹ کے بول چلنے لگتے۔پھر وہ ان آوازوں میں روح ڈالنے کی کوشش کرتا ۔
وہ ان خالی تصویروںمیں رنگ بھرنے کی کوشش کرتااورپھر آخر کارچھت پہ جاتی سیڑھیوں کے ساتھ ملحق دیوار
کاعکس بنتا اوروہ وہاں کھڑااس کی آوازسن رہاہوتا۔’’ساڈی نظراںتوں ہویوں کاہنوںدور‘‘۔ (۲۱)
’’ بے نام مسافتیں‘‘ میںنعیم یاد نے معاشرے میںرہنے والے مختلف طبقات کے لوگوں کی نمائندگی کی ہے۔ ان کی زندگی کو ہرزاویے سے دیکھا، پرکھااوراس میں رنگ بھر کر لفظوں کے ذریعے کہانی کی صورت میں قاری کے سامنے پیش کیا۔’’ایک زخم اور،کرچیاں،پیاساسمندر‘‘خواب سچ نہیں ہوتے‘‘ مجموعہ میں شامل وہ افسانے ہیں جوہمیں دیہات سے ہٹ کر جدید مسائل کو پیش کرتے ہیں۔
’’جانتے ہواولیاء کرام نے کبھی اپنے دورمیں اپنی قوم پہ تنقید نہیں کی۔کبھی نظام کو برانہیں کہا۔
کبھی کسی کو خواہ وہ کسی بھی مذہب اورفرقے کاہواپنے سے دورنہیں کیا۔ان کاتو ایک نظام تھا
محبت کا،پیارکا۔انھوں نے سب کو سینے سے لگایاان کے دُکھ درد سنے اورایک وقت ایساآیا
کہ ان لوگوں کے دل اسلام کی روشنی سے بھرگئے۔مگر ہم نے ان کے کردارکو چھوڑ کر ان کی
کرامات کو زندہ رکھا۔کسی نے ان کی تعلیم پہ تنقید شروع کردی اورنتیجہ یہ ہواکہ آج ہم الگ الگ
ہوگئے۔اب یہی وقت کی ضرورت ہے کہ ہم دین کو سمجھ کے دنیا کو گزارسکیں۔‘‘ (۲۲)
’’نیناں دے سفنے‘‘ ۲۱۰۷ء میں شائع ہونے ولانعیم یاد کو چوتھااورپنجابی زبان میں پہلاافسانوی اورافسانچوی مجموعہ ہے جس میں ان کے دس افسانے اورکئی افسانچے شامل ہیں۔
’’اِک گل داویرواہورکردیاںکہ اے کتاباں اُردووِچ سن پر میریاں کہانیاںاپنے مزاج،
اصلے تے کلچرپاروں پنجابی دیہاتی منظرنوں پیش کردیاں سن۔میری خواہش سی کہ میرا
اک پراگاماںبولی وچ وی ہووے ،تے فیر نسیم اقبال بھٹی،ملک شاہ سوارعلی ناصر،
اخلاق عاطف،محمد علی اسدبھٹی،پروین ملک تے تنویر ظہورورگے پنجابی کامیاں دی ہلہ شیری
نال میں وی اپنی ماں بولی داکاماں بن گیا۔ایس توں وَدھ اُردو،پنجابی زبان دے
مہان لکھاری منشادیاد دی گُڑہتی نے مینوں ایس قابل کیتاکہ میں تہاڈی سیواوِچ اَج
بڑی چاہ تے محبت نال اپنانواں پراگا’’نیناںدے سفنے‘‘لے کے حاضرآں۔‘‘ (۲۳)
پنجابی زبان کے اس مجموعہ میںنعیم یاد نے بھوک، مظلوم طبقے پر نا انصافیاں، رسم و رواج، جنس ، جہالت ، تنگ نظری ، محرومی، غیرت کے نام پر قتل، وغیرہ کے موضوعات پر قلم اُٹھایا۔نعیم یاد کا یہ خاصا ہے کہ وہ پنجاب سے تعلق رکھنے کے باوجود جذباتی جنت کو قائم نہیں کرتے اور نا ہی مبالغے سے کام لیتے ہیں۔بلکہ وہ حقیقی واقعات کوتخیل کی آمیزیش کے ساتھ خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ وہ معاشرے کی سفاکیوں کوصداقت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا خمیر پنجاب کے دیہاتی معاشرے سے اٹھا ہے۔نامورشاعرو ادیب نسیم اقبال بھٹی کتاب کے حوالے سے لکھتے ہیں:
سانوں نعیم یاد جی دے قلم وچ گھنیراتران نظرآندااے۔اَتے انہاں دیاں لکھتاں وچ
اللہ ولوں اُوہ بائٹ(Bite)وی پائی جاندی اے کہ جوقاری دامَن موہ لیندی اے۔ (۲۴)
ملک شاہ سوارعلی ناصر اس مجموعہ پہ اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نعیم یاد معاشرے دے جہڑے دُکھ ویکھدااے،اوہنوں اکھاںراہیںاپنے دِل تے
اُتارکے تے ذہن راہیں اکھراں دے روپ وچ اُتاردیندااے۔سادگی،روانی اوہدی
کہانی داسبھ توں وَڈاوصف اے۔ایہہ کہانی پڑھاکونوں اپنی گرفت وچ لے لیندی اے۔‘‘ (۲۵)
معاشرے کے صرف چند مکالموں میں ایک پورے المیہ کو سمیٹ لینا معمولی کام نہیں ۔ہمارامعاشرہ غربت کی چکی میں پِس کرخواب بُننے والے شخص کوکس طرح ریزہ ریزہ کرتا ہے، نعیم یاد نے نہ صرف انہیںموضوع بنا یا ہے بلکہ ایسے موضوعات سے پورا پورا انصا ف بھی کیاہے اور یہی ا نکا وہ سلیقہ ہے جو انکے تخلیقی وجود کا جو ہر ہے۔
’’اک لحظے لئی اوہ سفنیاں دی دُنیاں چوں باہر آیا تے اُس نوں یاد آیا کہ اوہ کس ویلے دا
ماضی دیاں یاداں وچ ڈُبیاہویا سی، تے اُس دی دھی کس ویلے دی ہتھ وچ چاہ پھڑکے،
اُس نوں سد رہی سی۔ اس دھی دے ہتھوں چاہ لئی،تے اس نوںدُعاواں دِتیاں ۔
چاہ پیندیاں ہویاں اُس دی نظر واپس جاندی دھی دے پیراں تے پئی، جنے وچ اس
ماں دیاں جُتیاںپائیاںہویا ںسن ۔بیوی دیاں جتیاں دھی دے پیراں وچ پوری ویکھدیاں
ای اِنج لگا، جویں چاہ دا گھٹ اندر جا کے کوڑے پانی دا چشمہ بن گیا ہووے۔ فیر توں کجھ ٹٹ گیا سی‘‘ (۲۶)
افسانہ’’ گھنگھروٹٹ گئے‘‘جاگیردارانہ سماج کا عکاس ہے۔افسانے میں اس افسانے میں بے حس و سفّاک سماجی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ کہ ایک کے بعد ایک المیہ سامنے آتا ہیں۔نعیم یاد نے اس افسانے میں امیر طبقے کے ہاتھوں نچلے طبقے کی عورتوں کے جنسی استحصال کو نمایاں کیا۔وہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔چودھری کی حویلی میں کام کرنے والی غریب موچی کی بیٹی شہر کی بڑی طوائف کس طرح بنتی ہے نعیم یاد کے اس افسانے کے آخری مکالمے سماج کی اس سفاکی کو پیش کررہے ہیں:
’’تیری غلطی اینی نکی تے نئیں چودھری، کہ تیرے آکھن تے میں تینوں معاف کردیواں۔یاد کر اک دہاڑے میں وی تیرے اَگے اپنی عزت لئی ہتھ جوڑے سن۔منتاں کیتاں سن۔میرے باپ نے تیراکی وگاڑیا سی، جو توں اس غریب دی دھی دی عزت نال کھیڈدارہیا۔میں تیرے پیراں پئی ساں،منتاں ترلے، کی کجھ نئیںسی کیتا۔۔۔پر توں۔۔۔
توجو منگ میں تینوں دیون نوں تیار آں۔۔ویکھ میرا پتر چھڈ دے۔
ہاہاہا۔۔۔رضوبائی ہسن لگ پئی۔چھڈدیواں ۔۔۔ایس لئی ناں کہ اَج اس چارمربعے زمین دتی اے،تے کل نوںاوہ ساری زمین وی دے سکدا اے۔
نئیں تو جو منگ میں اِسے ویلے تینوں دین نوں تیار آں۔
میں تے تیرے کولوں کجھ وی نئیں لیئا چودھر ی حنیف۔جانداایں نیلی کون اے؟
نیلی۔۔۔کون اے؟
اوہ تیرے ای گناہ دی نشانی اے۔‘‘ (۲۷)
نعیم یاد پنجابی زبا ن کے ا س مجموعہ میں شامل افسانچوں کو بھی بڑی خوبصورتی سے پنجابی زبان میں ڈھال کر پیش کیا ہے،ن افسانچوں میں ان کا مخصوص انداز اپنی انفرادیت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ عصرِ حاضر کے تمام مسائل ، مشینی زندگی کے ہنگامے ، نئی ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر منفرد انداز میں افسانچے شامل ہیں۔ جن میں کہیں گہرا طنز چھپا ہوا ہے تو کہیں نہایت لطیف انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے اور قاری اکثر سوچتا رہ جاتا ہے کہ زندگی میں ایسا بھی ہوتا ہے اور اکثر پڑھنے والے کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے وہ اپنا تجربہ پڑھ کر حیران رہ جاتا ہے۔چند افسانچے نمونے کے طور پرملاحظہ کیجیے:
کر فیو لگیا ہویا سی تے اوہ گھروں نکلیا۔
اک فوجی نے اوہدے ول بندوق کردیاں ہویاں پچھیا’’ اوئے تینوں پتا نئیں کہ بار نکلنا منع اے؟
کی کراں صاحب جی، بھُک نے حالوں بے حال کیتاسی،کجھ کھان لئی ہووے گا؟
بندوق چوں گولی داشعلہ نکلیاتے اوہدے پیٹ نال جالگا۔۔۔۔اُس دی بھُک مٹ گئی سی۔ (۲۸)
جدوں دا میڈیا فاسٹ ہویا اے بال بچے وقتوں پہلے جوان ہورئے نیں۔ بیوی نے اپنے بندے دے کپ وچ شکر پاندے ہوئے آکھیا۔
ہاں، توں بالکل ٹھیک آکھدی پئی ایں۔ ٹی وی چینلاںنے تے ساڈی غیرت تے وقار دا جنازکڈھ دتا اے۔
اے آکھدیاں ہویاں اوہ ٹی وی لا کے، فلم ویکھن وچ رُجھ ہو گیا۔ (۲۹)
ماں اپنے ہتھاں نال پتر نوں روٹی کھوا رہی سی ۔
ماں! ماسٹر صاحب آکھ رہے سن، نویں حکومت آون آلی اے، تے ملک وچ بہوںچھیتی تبدیلی آ جاوے گی۔
ماں نے جدوں اے سنیا ،تے پتر دی بچی ہوئی روٹی کپڑے وچ بنہہ کے ،لُکا کے رکھن لگ پئی۔ (۳۰)
او ہ کنا بدل گیا سی۔اینے ویلے مگروں اس نوں ویکھ کے اوہ حیران رہ گیا۔
کدے اوہ کنا سوہناْ سی، تے سارے اُس داروپ ویکھ کے چندابابو آکھدے سن۔پر ہن انج لگ رہیا سی جویں اس چن نوں گرہن لگ گیا ہووے۔دُکھاں تے غماں دے بدلاں چوں نکلدیاں ہویاں اس دے مکھڑے توں ساری روشنی مک گئی سی۔تے اس دے وال۔۔۔
کنے عجیب لگ رہے سن۔اس نوں یاد آیا ایہہ وال وی بڑے سوہنے ہوندے سن۔جویں ریشم دے لچھے۔پر ہن تے اُنہاں وچ کوئی رنگ روپ نئیںسی رہیا۔
اس اک واری اس دے چہرے نوں ویکھیا۔کنا بدل گیا سی اوہ ۔اُس دے مُکھ تے دُکھاںتے غماںداجال کھلریاہویاسی ۔ایہہ حالت ویکھ کے اس دی اکھیں چوں ہنجوکِرن لگ پئے۔۔۔۔
کنا بدل گیا سی اوہ۔۔۔۔تے فیر اوہ شیشے دے سامنے توں ہٹ گیا۔ (۳۱)
نعیم یاد کا خاصایہ ہے کہ وہ اپنے افسانوں میں زندگی کی مختلف جہات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وسعت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ انھوں کے کیمرے کی آنکھ کی طرح زند گی کے کئی پہلوئوں پر خصوصی نگاہ جمائی ہوئی ہے ۔انھوں نے عام آدمی کی زندگی اور اس کی محرومیوں کو بہ طور خاص موضوع بنایا ہے ۔ وہ معصوم ،مظلوم اور سماج کے ہاتھوں مجبور لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نعیم یاد کی فکر انسان کے وجود کو اس کی روح کے سا تھ سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے ان کے افسانے اور افسانچے موضوعات اوران کی خوش اسلوبی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
نعیم یادکے افسانوں کے مو ضوعات رنگا رنگ ہیں اور ہر رنگ اپنی شنا خت الگ سے کراتا نظر آ تا ہے ۔بلاشبہ نعیم یادگلستانِ ادب میں کھِلنے والاوہ تازہ پھول ہے جس کی خوشبوسے دبستانِ اَدب ضرورمعطررہے گا۔(ان شاء اللہ)


حوالہ جات:
۱: نعیم یاد، اک خواب جو ٹوٹ گیا، طٰہٰ پبلی کیشنز اُردو بازار لاہور،۲۰۱۴ء،حرفِ آغاز ص۹
۲: اک خواب جو ٹوٹ گیا، طٰہٰ پبلی کیشنز اُردو بازار لاہور،۲۰۱۴ء،افسانچہ ترقی ص۸۴
۳: ایضاً افسانچہ دعوت ص ۸۸
۴: ایضاً افسانہ ساون کی پہلی بارش ص۷۷
۵: ایضاًص۷۸
۶: ایضاً
۷: ایضاًافسانہ پچھلی رُت کی بہارص۹۴
۸: نعیم یاد،پتھرروتے ہیں،طٰہٰ پبلی کیشنز اُردو بازار لاہور،۲۰۱۵ء،حرفِ آغاز ص۷
۹: پتھرروتے ہیں،طٰہٰ پبلی کیشنز اُردو بازار لاہور،۲۰۱۴ء،افسانہ پتھرروتے ہیں،ص۳۱
۱۰: ایضاًص۳۴
۱۱: ایضاًافسانہ آخری خط،ص ۷۷
۱۲: ایضاًافسانہ منشایادکے نام خط،ص۹۰،۹۱
۱۳: ایضاًافسانچہ احساس،ص۱۱۰
۱۴: ایضاًافسانچہ مساوات،ص۱۰۴
۱۵: نعیم یاد،بے نام مسافتیں،طٰہٰ پبلی کیشنز اُردو بازار لاہور،۲۰۱۷ء،حرفِ آغاز ص۸
۱۶: بے نام مسافتیں،طٰہٰ پبلی کیشنز اُردو بازار لاہور،۲۰۱۷ء،افسانہ ،چپ،ص۱۵
۱۷: ایضاً،ص۱۸
۱۸: ایضاًافسانہ، آواز،سرگوشیوںکی،ص۶۴
۱۹: ایضاًافسانہ،قطرہ قطرہ احساس ،ص ۱۲۹
۲۰: ایضاًافسانہ ،کرامتی مٹی،ص۱۱۷
۲۱: ایضاً افسانہ،بے نام مسافتیں،ص۱۱۰
۲۲: ایضاًافسانہ،پھول کھلنے دو،ص۱۳۵،۱۳۶
۲۳: نعیم یاد،نیناں دے سفنے،طٰہٰ پبلی کیشنز اُردو بازار لاہور،۲۰۱۷ء،حرفِ آغاز ص۸
۲۴: نسیم اقبال بھٹی،ایضاً،ٖ،۱۰
۲۵: شاہ سوارعلی ناصر،ایضاً ص۱۲
۲۶: نیناں دے سفنے،طٰہٰ پبلی کیشنز اُردو بازار لاہور،۲۰۱۷ء افسانہ نیناںدے سفنے،ص۶۲
۲۷: ایضاً،افسانہ گھنگھروٹٹ گئے،ص۸۰،۸۱
۲۸: ایضاً،افسانچہ کرفیو،ص۸۹
۲۹: ایضاً،افسانچہ میڈیا،ص۹۹
۳۰: ایضاً،افسانچہ نویں حکومت،ص۱۲۵
۳۱: ایضاً،افسانچہ دوجابندہ،۱۱۷

 

Muhammad Ali Asad Bhati
About the Author: Muhammad Ali Asad Bhati Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.