موچی کا بچہ موچی

وہ ایک کم سن بچہ تھا لیکن وہ جس مہارت کے ساتھ اپنے ننھے اور نازک ہاتھوں سے جوتوں کی مرمت کررہا تھا ، اُس سے یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل امر نہ تھا کہ اُس نے یہ ہُنر کسی استاد کی ڈانٹ ڈپٹ اور شاگردی کی بدولت ہی سیکھا ہوگا۔ بچے کی اوپن ائیردُکان فٹ پاتھ پر واقع تھی اور اس وقت دو گاہک موجود تھے۔ جن کے جوتوں کی مرمت کا کام وہ کر رہا تھا۔ دونوں آدمی بچے کی مہارت کے ساتھ کام کی تعریف کر رہے تھے۔ یہ سارا منظر میں اور میرا ڈرائیور دوست چائے کے ہوٹل سے دیکھ رہے تھے۔ بچے کی دُکان ہوٹل کے بالکل سامنے چند گز فاصلے پر تھی جہاں وہ اپنے کام میں مگن تھا۔ ہمارا سارا دھیان چائے پینے کے بجائے اس ننھے ہُنر مند پر مرکوز تھا۔ چائے اگرچہ شوگر فری نہیں تھی لیکن اُس کا ذائقہ پھیکا سا پڑا گیا تھا۔ ابھی وہ دونوں آدمی رخصت ہوئے ہی تھے کہ ایک اور شخص اپنا پھٹا جوتا لے آیا۔ بچے نے اس کام کو مکمل کرنے میں بمشکل دس منٹ مزید لیے ہوں گے۔ جیسے وہ شخص وہاں سے چلتا بنا تو ہم اُس بچے کے پاس آبیٹھے اور بچے سے دریافت کیا کہ وہ یہ کام کتنے عرصے سے کررہا ہے۔ ’’ میرا والد بیمار ہیں اورآج اس کی جگہ کام کرنے آیا ہوں ‘‘۔ بچے نے معصومانہ انداز میں ڈرتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے نہیں پتہ کہ میں کس جماعت میں پڑھتا ہوں لیکن سکول جاتا ہوں اور والد کے ساتھ سکول کے بعد کام کرتا ہوں ‘‘۔ بچے کا جواب سُن کر ہمارے پاس مزید سوالات کرنے کی ہمت نہ رہی۔

یہ ہمارا نظام ہے اور جس کی تبدیلی کی باتیں ہر پانچ ، دس سال بعد بالخصوص انتخابات سے قبل ہوتی ہیں لیکن بد قسمتی سے صرف چہروں کی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے۔ نظام جوں کا توں رہتا ہے۔ بلکہ اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو ہمارا سارا نظام روبہ زوال ہے۔ اور ہمارے معاشرے میں ہونے والے واقعات اس کی قلعی کھول کر رکھ رہے ہیں۔ قصور کا اندوہناک واقعہ ہو یا مردان کی اسماء کی دردناک موت کی روداد ہو یا نقیب اﷲ محسود کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت ہو، یہ سب واقعات اس نظام کی ناکامی کا ڈھنڈورا زور زور سے پیٹھ رہے ہیں۔ حالیہ ’’تکونی اتحاد ‘‘ یعنی قادری ، عمران اور زرداری کا لاہور میں مال روڈ پر ایک کنٹینر پر سوار ہوکر دھرنا دینا یہ واضح کرتا ہے کہ ہمارے مقاصد صرف حکومتی ایوانوں کی اونچی کرسیوں پر براجمان ہونے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ کیوں کہ طاہر القادری وہی شخص ہیں جنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف ریاست بچاؤ کی خاطر اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا۔ اور اَب زرداری سب کچھ بھولا کر کہتے ہیں کہ طاہر القادری کی صورت میں ہمیں نواب زادہ نصراﷲ خان مل گئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین جو زرداری کو چوروں اور لٹیروں کے سردار کے القابات سے نوازتے رہے ہیں ، وہ بھی اِب زرداری کے ساتھ ایک ہی کنٹینر پر دھرنا دیتے ہیں۔ ذرا خود سوچیئے کہ شیخ رشید پارلیمنٹ پر لعنت بھجتا ہے اور استعفیٰ دینے کا اعلان کرتا ہے لیکن استعفیٰ دیئے بغیر دوبئی کی اُڑان لیتا ہے۔ یہ سب سیاست ہے اور کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہونے کے مصداق سیاست میں بھی سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ پس ایسا نظام جس میں چور ، لٹیرے ، بے شرم اور حیا سے خالی لوگ مل کر اتحاد کرسکتے ہوں تو اُن سے نظام کی تبدیلی کی توقع رکھنا محال ہے۔ یہ لوگ نظام کو ٹھیک کرنے کے بالکل خواہاں نہیں ہیں۔ بلکہ نظام جوں کا توں رہے گا۔ جس میں موچی کا بچہ موچی اور نائی کا بچہ نائی ہی بنے گا۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 265851 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.